علی کی عقلمندی

تحریر : دانیال حسن چغتائی


حامد شہر سے تھوڑی دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں کے بازار میں اس کی ایک بیکری تھی۔ گاؤں کے لوگ اسی بیکری سے سامان خریدتے تھے کیونکہ اس کی بیکری کی چیزیں تازہ ہوتی تھیں۔

حامدایک لالچی اورکنجوس شخص تھا۔اللہ نے اس کو بہت دولت سے نوازا تھا لیکن وہ اس دولت میں سے غریبوں پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا تھا۔ وہ ہر وقت اس فکر میںر ہتا تھا کہ کس طرح دولت میں اضافہ کیا جائے۔ 

اسی گاؤں میں ایک آدمی ہارون رہتا تھا وہ بہت غریب تھا۔ ایک دن ہارون حامد کی بیکری کے باہر سے گزررہا تھا۔ اسے بہت بھوک لگی ہوئی تھی اور جیب میں ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ حامد کی بیکری سے تازہ ڈبل روٹیوں کی خوشبو آرہی تھی۔ ہارون بیکری کے باہر کھڑا ہو کر ڈبل روٹیوں کی خوشبو سونگھنے لگا۔

حامد بیکری میں بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بیکری سے باہر آکر ہارون کو پکڑ لیا اور کہا کہ تم نے میری بیکری سے آنے والی خوشبو کو سونگھا ہے، اس لئے تم اس کے پیسے دو۔ 

ہارون بہت پریشان ہوا کیونکہ اس کے پاس تو پیسے ہی نہ تھے۔اس نے حامد سے کہا بھائی حامد میں نے تم سے کوئی چیز تو نہیں خریدی کہ میں تمہیں پیسے دوں۔ میں نے تو صرف خوشبو سونگھی ہے اور خوشبو سونگھنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ 

اب تو حامد غصے سے چلانے لگا۔ لوگ جمع ہو گئے، لوگوں نے بھی سمجھایا کہ ظلم مت کرو، ظالم کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ ظالم کو ذلیل کر دیتے ہیں۔ 

حامد نہ مانا اور اس نے کہا کہ ہمارافیصلہ قاضی صاحب کریں گے۔ یہ کہہ کر وہ ہارون کو لے کر عدالت کی طرف روانہ ہوا۔ ہارون نے راستہ میںاپنے بھائی علی کو بھی بلا لیاکہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے اور اس کی مدد کرے۔

علی ایک سمجھدار اور عقلمند شخص تھا وہ جانتا تھا کہ حامد بہت لالچی آدمی ہے۔ یہ تینوں قاضی کے پاس عدالت پہنچے۔حامد نے قاضی سے کہا جناب والا!ہارون نے میری بیکری کی چیزوں کی خوشبو سونگھی اور اب یہ اس کے پیسے نہیں دے رہا۔ آپ انصاف کریں اور مجھے میرا حق اس سے دلوائیے۔ 

زاہد حامد کی بات سن رہا تھا وہ آگے بڑھا اور قاضی صاحب سے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس کی اجرت ادا کردوں ۔قاضی صاحب نے اجازت دے دی۔

علی نے جیب سے سکوں سے بھری ہوئی تھیلی نکالی اور حامد کے کان کے قریب تھیلی کو ہلایاجس سے سکوں کی چھن چھن پیدا ہوئی۔زاہد نے حامد سے کہا کہ تجھے سکوں کی آواز سنائی دی؟ حامد نے کہا ہاں مجھے آواز سنائی دی ۔علی نے کہایہ آواز سننا اجرت ہے اس سونگھنے کی جو ہارون نے سونگھا۔

قاضی صاحب علی کی عقلمندی سے بہت خوش ہوئے اور ہارون کو آزاد کر دیا اور پورے شہر میں اعلان کروا دیا کہ حامد ایک لالچی آدمی ہے۔ اب جو لوگ پہلے حامد سے محبت کرتے تھے اس کی لالچ اور غریبوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے اس سے نفرت کرنے لگے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سترہویں پارے کا خلاصہ

سورۂ انبیاء سورۂ انبیا میں فرمایاگیا ہے: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور وہ غفلت کا شکار ہیں، دین کی باتوں سے رو گردانی کر رہے ہیں اور جب بھی نصیحت کی کوئی نئی بات ان کے پاس آتی ہے تو توجہ سے نہیں سنتے‘ بس کھیل تماشے کے انداز سے سنتے ہیں اور نبی کریم کو اپنے جیسا بشر قرار دیتے ہیں‘ قرآن کو جادو‘ خوابِ پریشاں‘ شاعری اور خود ساختہ کلام قرار دیتے ہیں۔

سترہویں پارے کا خلاصہ

سورۂ انبیاءسترہویں پارے کا آغاز سورۃ الانبیاء سے ہوتا ہے۔ سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔

سولہویں پارے کا خلاصہ

واقعہ موسیٰ علیہ السلامسولہویں پارے میں حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السّلام کے درمیان ہونے والی گفتگو بیان کی جا رہی تھی کہ حضرت خضر علیہ السّلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: جن اَسرار کا آپ کو علم نہیں، اُن کے بارے میں آپ صبر نہیں کر پائیں گے۔

سولہویں پارے کا خلاصہ

موسیٰ و خضر علیہ السلامسولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے کے آخر میں جناب ِموسیٰ علیہ السّلام کی جنابِ خضر علیہ السّلام سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا‘ جنابِ موسیٰ علیہ السّلام حضرت خضر علیہ السّلام کی جانب سے کشتی میں سوراخ کرنے اور پھر ایک بچے کو قتل کر دینے کے عمل پر بالکل مطمئن نہ تھے۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورہ بنی اسرائیل: سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کے معجزۂ معراج کی پہلی منزل‘ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے۔ یہ تاریخ نبوت‘ تاریخِ ملائک اور تاریخِ انسانیت میں سب سے حیرت انگیز اور عقلوں کو دنگ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس کی مزید تفصیلات سورۃ النجم اور احادیث میں مذکور ہیں۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورۂ بنی اسرائیل: پندرھویں پارے کا آغاز سورۂ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔