علی کی عقلمندی

حامد شہر سے تھوڑی دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں کے بازار میں اس کی ایک بیکری تھی۔ گاؤں کے لوگ اسی بیکری سے سامان خریدتے تھے کیونکہ اس کی بیکری کی چیزیں تازہ ہوتی تھیں۔
حامدایک لالچی اورکنجوس شخص تھا۔اللہ نے اس کو بہت دولت سے نوازا تھا لیکن وہ اس دولت میں سے غریبوں پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا تھا۔ وہ ہر وقت اس فکر میںر ہتا تھا کہ کس طرح دولت میں اضافہ کیا جائے۔
اسی گاؤں میں ایک آدمی ہارون رہتا تھا وہ بہت غریب تھا۔ ایک دن ہارون حامد کی بیکری کے باہر سے گزررہا تھا۔ اسے بہت بھوک لگی ہوئی تھی اور جیب میں ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ حامد کی بیکری سے تازہ ڈبل روٹیوں کی خوشبو آرہی تھی۔ ہارون بیکری کے باہر کھڑا ہو کر ڈبل روٹیوں کی خوشبو سونگھنے لگا۔
حامد بیکری میں بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بیکری سے باہر آکر ہارون کو پکڑ لیا اور کہا کہ تم نے میری بیکری سے آنے والی خوشبو کو سونگھا ہے، اس لئے تم اس کے پیسے دو۔
ہارون بہت پریشان ہوا کیونکہ اس کے پاس تو پیسے ہی نہ تھے۔اس نے حامد سے کہا بھائی حامد میں نے تم سے کوئی چیز تو نہیں خریدی کہ میں تمہیں پیسے دوں۔ میں نے تو صرف خوشبو سونگھی ہے اور خوشبو سونگھنے کے پیسے نہیں ہوتے۔
اب تو حامد غصے سے چلانے لگا۔ لوگ جمع ہو گئے، لوگوں نے بھی سمجھایا کہ ظلم مت کرو، ظالم کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ ظالم کو ذلیل کر دیتے ہیں۔
حامد نہ مانا اور اس نے کہا کہ ہمارافیصلہ قاضی صاحب کریں گے۔ یہ کہہ کر وہ ہارون کو لے کر عدالت کی طرف روانہ ہوا۔ ہارون نے راستہ میںاپنے بھائی علی کو بھی بلا لیاکہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے اور اس کی مدد کرے۔
علی ایک سمجھدار اور عقلمند شخص تھا وہ جانتا تھا کہ حامد بہت لالچی آدمی ہے۔ یہ تینوں قاضی کے پاس عدالت پہنچے۔حامد نے قاضی سے کہا جناب والا!ہارون نے میری بیکری کی چیزوں کی خوشبو سونگھی اور اب یہ اس کے پیسے نہیں دے رہا۔ آپ انصاف کریں اور مجھے میرا حق اس سے دلوائیے۔
زاہد حامد کی بات سن رہا تھا وہ آگے بڑھا اور قاضی صاحب سے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس کی اجرت ادا کردوں ۔قاضی صاحب نے اجازت دے دی۔
علی نے جیب سے سکوں سے بھری ہوئی تھیلی نکالی اور حامد کے کان کے قریب تھیلی کو ہلایاجس سے سکوں کی چھن چھن پیدا ہوئی۔زاہد نے حامد سے کہا کہ تجھے سکوں کی آواز سنائی دی؟ حامد نے کہا ہاں مجھے آواز سنائی دی ۔علی نے کہایہ آواز سننا اجرت ہے اس سونگھنے کی جو ہارون نے سونگھا۔
قاضی صاحب علی کی عقلمندی سے بہت خوش ہوئے اور ہارون کو آزاد کر دیا اور پورے شہر میں اعلان کروا دیا کہ حامد ایک لالچی آدمی ہے۔ اب جو لوگ پہلے حامد سے محبت کرتے تھے اس کی لالچ اور غریبوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے اس سے نفرت کرنے لگے۔