اسماعیل میرٹھی بڑوں کی باتیں بچوں کے لہجے میں کرنے والے

انہیں محض بچوں کا شاعر سمجھنا ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے اسماعیل میرٹھی کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا یہ عالم ہے کہ لاکھوں کروڑوں نوخیز ذہنوں کی آبیاری میں ان کی کتابوں سے مدد ملی
گھنگور گھٹا تُلی کھڑی تھی
پر، بوند ابھی نہیں پڑی تھی
آج سے تقریباً سو ،ڈیڑھ سو سال پہلے اردو نظم کے آسمان کی حالت کچھ ایسی ہی تھی، اور دیکھتے ہی دیکھتے پیاسی زمین پر بوندیں پڑنے لگیں، آزاد 1830ء میں، حالی1837ء میں اور اسماعیل1844ء میں پیدا ہوئے۔ نئے ادبی اور سماجی شعور کے قائد سر سید احمد خاں کو ان پر نہ صرف ذہنی بلکہ زمانی تقدم بھی حاصل تھا۔ وہ 1917ء میں عالم وجود میں آئے تھے۔ شبلی جو عمر میں ان سب سے چھوٹے تھے، 1857ء میں اس حشر خیز زمانے میں پیدا ہوئے جب سامراجیت اور آزادی میں معرکے کی ٹکر ہوئی۔ اس سے اگرچہ آئندہ ایک صدی کیلئے محکومیت کی بنیاد مضبوط ہو گئی۔اس شکست کے بطن سے وہ آفتاب تازہ بھی پیدا ہوا جس نے آگے چل کر ہر سماجی، ذہنی اور ادبی تحریک کو روشنی بھی دی اور حرارت بھی۔
سن ستاون کے بعد گویا جدید اثرات اور نئی روشنی کی شاہراہ کھل گئی تھی، اردو میں جدید نظم کی ابتدا انہیں اثرات کا نتیجہ تھی۔ نئی نظم کے آغاز کے سلسلے میں شعرالہند اور گُل رعنا میں ’’ تاریخی دیانتداری اور واقعہ نگاری‘‘ کا جو ’’خون کیا گیا تھا‘‘ دتا تر یہ کیفی نے اس کی طرف توجہ دلائی اور محمد حسین آزاد کی سینہ فگاری‘‘ کی داد دیتے ہوئے پہلی بار انجمن پنجاب کے تاریخ ساز مشاعرہ (منعقدہ 1874ء) کی گمشدہ کڑیاں ملا دیں۔ شاید انہیں اس کا احساس نہیں تھا کہ اس وقت پورا آسمان گھٹائوں سے بھرا ہوا تھا اور کئی بوندیں آگے پیچھے پڑ رہی تھیں۔
قلق میرٹھ میں انسپکٹر کے دفتر میں ترجمہ کا کام کرتے تھے۔ یہیں اسماعیل بھی 1860ء سے 1867ء تک ان کے ساتھی رہے۔ دونوں غالب کے شاگرد تھے اور اس رشتہ سے استاد بھائی بھی تھے۔ اسماعیل کی اوّلین نظموں کا مجموعہ جو ’’ریزہ جواہر‘‘ کے نام سے1880ء میں شائع ہوا، اس میں محمد حسین آزاد کے انجمن پنجاب والے مشاعرہ سے چھ برس پہلے کی 1867ء اور 1868ء کی لکھی ہوئی چھ نظمیں شامل ہیں۔ غرض جدید نظم کی بوندیں مشاعرہ پنجاب سے کئی برس پہلے پڑنا شروع ہو گئی تھیں جس کام کو قلق میرٹھی نے شروع کیا تھا، اسماعیل، آزاد، حالی اور ان کے ساتھیوں نے اسے آگے بڑھایا۔
پھرایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا
بارش کا پہلا قطرہ، اسماعیل میرٹھی
ادبی تحقیق کا کام، پرانی رایوں کی صحت کرنا، نئے حقائق کو سامنے لانا اور افراد و کارناموں کے مقام و مرتبہ کی تعین میں مدد دینا ہے۔
بچوں کا ادب اسماعیل میرٹھی کی ادبی شخصیت کا محض ایک رخ ہے۔ ان کا شمار جدید نظم کے ہیئتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں بھی ہونا چاہیے وہ صرف ’’ عجیب چڑیا‘‘ ’’ گھوڑا‘‘، ’’اونٹ‘‘، ’’ملمع کی انگوٹھی‘‘، ’’محنت سے راحت‘‘ اور’’ہر کام میں کمال اچھاہے‘‘ کے شاعر نہیں تھے۔ انہوں نے ’’مناقشہ ہوا و آفتاب مکالمہ سیف و قلم‘‘، ’’ بادمراد‘‘، ’’شفق‘‘، ’’تاروں بھری رات‘‘ اور ’’ آثار سلف‘‘ جیسی نظمیں بھی لکھیں۔ آزاد اور حالی نے جدید نظم کیلئے زیادہ تر مثنوی اور مسدس کے فارم کو برتا تھا۔ اسماعیل نے ان کے علاوہ مثلث، مربع اور مخمس سے بھی کام لیا۔ انہوں نے بے قافیہ نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ’’چڑیا کے بچے‘‘ اور ایسی نظمیں بھی جن میں مروجہ بحروں کے اوزان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے مصرع ترتیب دیئے گئے ہیں۔’’تاروں بھری رات‘‘ بعد میں حلقہ ارباب ذوق کے شاعروں اور ترقی پسند شاعروں نے آزاد نظم اور نظم مغریٰ کے جو تجربے کئے، ان سے بہت پہلے عبدالحلیم شرر، نظم طبا طبائی اور نادر کا کوروی اور ان سے بھی پہلے اسماعیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چکے تھے۔
نقادوں کا خیال ہے کہ اقبالؒ کے ’’شاہین‘‘ کا سلسلہ اسماعیل میرٹھی کی شاعری تک پہنچتا ہے، انہوں نے اسماعیل کی نظم ’’آثار سلف‘‘ کا حوالہ دیا ہے جس کے ایک بند میں اسلاف کی شجاعت اور اولوالعزمی کی بنا پر انہیں ’ ’شاہین‘‘ اور ’’شہباز‘‘ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ اسماعیل کو صرف بچوں کا شاعر سمجھنا ایسی ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ اسماعیل میرٹھیؔ کی تمام تحریروں کا خطاب بڑوں سے نہ سہی لیکن ان کے مقاصد کم اہم یا کم اعلیٰ نہیں تھے۔
’’ہندوستانی ادب کے معمار‘‘ کے مصنف عادل اسیر دہلوی لکھتے ہیں کہ اسماعیل میرٹھی کی ولادت 12نومبر 1844ء کو میرٹھ میں ہوئی۔ محلے کا نام مشاخان تھا ۔ اب یہ علاقہ اسماعیل نگر کے نام سے معروف ہے۔اس محلے کو اندر کوٹ اور بالائے قلعہ بھی کہتے تھے۔اسماعیل میرٹھی کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا،ان کا نسبی سلسلہ حضرت محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا سے جا ملتا ہے۔اسماعیل میرٹھی کے والد شیخ پیر بخش 1838ء میں قصبہ لاوڑ سے میرٹھ منتقل ہو گئے تھے اورمیرٹھ میں انہوں نے مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔
پرانے زمانے میں شرفاء کا دستور تھا کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کا انتظام گھر پر ہی کیا جاتا تھااس کے بعد مکتب بھیجا جاتا تھا۔ اسماعیل میرٹھی کی ابتدائی تعلیم کا انتظام بھی گھر پر ہی کیا گیا۔ اس اہم کام کو ان کے والد شیخ پیر بخش نے خود ذمہ داری سے کیا اور انہیں فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھائیں۔ جب اسماعیل دس سال کے ہو گئے تو قرآن کی تعلیم کا آغاز ہوا اور اپنی خداد صلاحیت کی بنا پر صرف پانچ مہینے کی قلیل مدت میں قرآن مجید کا ناظرہ ختم کر لیا۔ مزید تعلیم کیلئے ان کو مرزا رحیم بیگ کے مدرسہ بھیجا گیا۔مرزا رحیم بیگ معلمی کا پیشہ اختیار کرنے سے پہلے سپاہی تھے لیکن اپنے علمی ذوق و شوق کی بناء پر ملازمت سے کنارہ کش ہو کر درس و تدریس کا پیشہ اختیار کر لیا تھا۔ ان کے تمام شاگردوں میں سب سے زیادہ شہرت اور ناموری اسماعیل میرٹھی نے حاصل کی۔
اسماعیل میرٹھی نے 16 سال کی ہی عمر میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت کر لی۔ 1867ء میں ان کا تقرر سہارنپور میں فارسی کے استاد کی حیثیت سے ہو گیا جہاں انھوں نے تین سال کام کیا اور پھر میرٹھ اپنے پرانے دفتر میں آ گئے۔ 1888ء میں ان کو آگرہ کے سنرل نارمل اسکول میں فارسی کا استاد مقرر کیا گیا۔ وہیں سے وہ 1899 میں ریٹائر ہو کر مستقل میرٹھ میں مقیم ہو گئے۔ ان کی صحت کبھی اچھی نہیں رہی۔حقّہ بہت پیتے تھے جس کی وجہ سے برانکائٹس میں بھی مبتلا تھے۔ یکم نومبر7 191ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں حکومت وقت نے ان کو ’’خان صاحب ‘‘ کا خطاب بھی دیا۔
تعریف اس خدا کی!
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
پاؤں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی
اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بوٹے کیا خوش نما اگائے
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے
اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا
میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا
سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا
پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تو نے مینہ کا نشاں بنایا
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا
غزل
بزمِ ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں
ہے یہ تیری ہی صدا غیر کی آواز نہیں
کہہ سکے کون وہ کیا ہے مگر از روئے یقیں
گل نہیں شمع نہیں سروسرافراز نہیں
دل ہو بے لوث تو کیا وجہ تسلی ہو دروغ
طائر مردہ مگر طعمہ شہباز نہیں
بلبلوں کا تھا جہاں صحن چمن میں انبوہ
آج چڑیا بھی وہاں زمزمہ پرداز نہیں
بھاگ ویرانہ دنیا سے کہ اس منزل میں
نزلِ مہمان بجز مائدہ آز نہیں
دلبری جذب محبت کا کرشمہ ہے فقط
کچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دل کی تسخیر ہے شیریں سخنی پر موقوف
کچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دستِ قدرت نے مجھے آپ بنایا ہے تو پھر
کون سا کام ہے میرا کہ خدا ساز نہیں
منتخب اشعار
کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں
جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں
٭٭٭
دوستی اور کسی غرض کے لئے
وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں
٭٭٭
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا
٭٭٭
ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے
٭٭٭
ہے اشک و آہ راس ہمارے مزاج کو
یعنی پلے ہوئے اسی آب و ہوا کے ہیں
٭٭٭
یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں
٭٭٭
چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا
٭٭٭
اغیار کیوں دخیل ہیں بزم سرور میں
مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں
٭٭٭
خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو
ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا
٭٭٭
اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں