سولہویں پارے کا خلاصہ

تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


موسیٰ و خضر علیہ السلامسولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے کے آخر میں جناب ِموسیٰ علیہ السّلام کی جنابِ خضر علیہ السّلام سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا‘ جنابِ موسیٰ علیہ السّلام حضرت خضر علیہ السّلام کی جانب سے کشتی میں سوراخ کرنے اور پھر ایک بچے کو قتل کر دینے کے عمل پر بالکل مطمئن نہ تھے۔

اس لیے انہوں نے اس پر اعتراض کیا۔ جنابِ خضر علیہ السّلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟ جناب ِموسیٰ علیہ السلام نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے اپنے سے علیحدہ کر دیجئے گا اس لیے کہ اب مزید سوال کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ جناب ِخضر اور موسیٰ علیہم السّلام اکٹھے آگے بڑھتے ہیں‘ حتیٰ کہ ایک بستی میں جا پہنچتے ہیں‘ بستی کے لوگ بڑے بے مروت تھے‘ اُن سے دونوں حضرات نے کھانا مانگا مگر بستی والوں نے دو معزز مہمانوں کی کوئی خاطر تواضع نہ کی۔ اسی بستی میں ایک جگہ ایک دیوار گرنے والی تھی‘ جناب ِخضر اس دیوار کی مرمت شروع کر دیتے ہیں۔ جب دیوار کی مرمت مکمل ہو گئی اور جناب ِخضر علیہ السلام نے وہاں سے چلنے کا ارادہ کیا تو جنابِ موسی علیہ  السّلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کا معاوضہ وصول کر سکتے تھے‘ اس سے ہم کھانا کھا لیتے۔ جنابِ خضر علیہ  السّلام نے کہا کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آ پہنچا ہے لیکن پہلے میں آپ کو ان تمام کاموں کی تعبیر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔ حضرت خضر نے جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کو بتلایا کہ کشتی میں میرے سوراخ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جس ساحل پر جاکر کشتی رکنی تھی‘ وہاں پر ایک جابر بادشاہ کی حکومت تھی جو ہر بے عیب کشتی پر جبراً قبضہ کر لیتا ہے‘ میں نے اس کشتی میں سوراخ کر دیا تا کہ کشتی کے مسکین مالک بادشاہ کے ظلم سے بچ جائیں۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا‘ وہ بڑا ہو کر خود تو گنہگار بنتا ہی‘ اپنے والدین کے ایمان کیلئے بھی خطرہ بننے والا تھا‘ اس بچے کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے والدین کو ایک نیک اور صالح بچہ عطا فرمائیں گے۔ جہاں تک تعلق ہے دیوار کی مرمت کا، تو وہ دیوار ایک ایسے گھر کی تھی جو بستی کے دو یتیم بچوں کی ملکیت ہے، اُن کا باپ ایک نیک آدمی تھا اور اس دیوار کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور خدائے کائنات چاہتا تھا کہ جب بچے جوان ہو جائیں تو پھر اپنے خزانے کو نکالیں‘ اگر دیوار گرنے سے خزانہ ظاہر ہو جاتا تو اسے بستی والے لوٹ لیتے۔ جو کچھ بھی میں نے کیا‘ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم پر کیا۔ یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکمل علم اللہ کی ذات کے پاس ہے اور وہ جتنا کسی کو دینا چاہتا ہے‘ عطا کر دیتا ہے، اگرچہ جنابِ موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسول تھے‘ لیکن اللہ نے بعض معاملات کا علم جناب ِخضر علیہ السّلام کو عطا فرمایا جن سے جناب ِموسیٰ علیہ السّلام واقف نہ تھے۔

جناب ذوالقرنین کا قصہ

اس کے بعد سورۃ الکہف میں جنابِ ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کا قصہ بیان ہوا ہے کہ ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج سے بچائو کیلئے پگھلے ہوئے تانبے اور لوہے سے ایک مضبوط حفاظتی دیوار بنا دی۔ سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توانائیوں کو دنیا کی زیب و زینت کیلئے وقف اور صرف کرنے والے لوگوں کے اعمال کو بدترین اعمال قرار دیا اور فرمایا کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بہترین کاموں میں مشغول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ میری ملاقات اور نشانیوں کا انکار کرنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کے اعمال برباد ہو جائیں گے اور قیامت کے دن ان کا کوئی وزن نہیں ہو گا۔

سورہ مریم

سورۃالکہف کے بعد سورۂ مریم ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے  عیسیٰ علیہ السّلام کی معجزاتی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ جناب ذکریا علیہ السّلام جناب مریمؑ کے کفیل اور خالو تھے۔ جب انہوں نے سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس بے موسمی پھل دیکھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی: اے پروردگار! تو مجھے بھی صالح اولاد عطا فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے ذکریا علیہ السلام کی فریاد کو سن کر ان کو بڑھاپے میں جناب یحییٰ علیہ السلام سے نوازا۔ 

سیدہ مریم کو بیٹے کی بشارت

اسی طرح جناب مریم علیہا السلام کے پاس جناب جبرائیل علیہ السّلام آتے ہیں اور ان کو ایک صالح بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔ آپ کہتی ہیں :کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جبکہ میں نے تو کسی مرد کی خلوت کو بھی اختیار نہیں کیا۔ جبرائیل امین کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو پھر وہ کام وسائل و اسباب کا محتاج نہیں رہتا۔ وہ کُن کہتا ہے تو چیزیں رونما ہو جاتی ہیں۔ سیدہ مریم علیہا السلام کے ہاں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں تو سیدہ مریم لو گوں کے طعن و تشنیع کے خوف سے بے قرار ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دل کو مضبوط فرماتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب آپ کی ملاقات کسی انسان سے ہو تو آپ نے کہنا ہے کہ میں نے رحمن کیلئے روزہ رکھا ہوا ہے‘ اس لیے میں کسی کے ساتھ کلام نہیں کروں گی۔ جب آپ بستی میں داخل ہوتی ہیں تو بستی کے لوگ آپ کی جھولی میں بچے کو دیکھ کر کہتے ہیں: اے ہارون کی بہن! اے عمران کی بیٹی! نہ تو تمہارا باپ برا آدمی تھا اور نہ تمہاری ماں نے خیانت کی تھی‘ یہ تم نے کیا کر دیا؟ حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی جانب اشارہ کیا۔ جناب عیسیٰ علیہ السّلام نے مریم علیہا  السّلام کی گود میں سے آواز دی: میں اللہ کا بندہ ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ گود میں لیٹے بچے کی آواز سن کر لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔

سورہ طٰہٰ

 سورہ مریم کے بعد سورہ طٰہٰ ہے۔ سور ہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کی کوہ طور پر اپنے ساتھ ہو نے والی ملاقات کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السّلام کوہِ طور پر تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ موسیٰ علیہ السّلام آ پ کے ہاتھ میں کیا ہے؟ جناب ِموسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کو اپنی چھڑی زمین پر پھینکنے کا حکم دیا۔ جب چھڑی زمین پر گری تو بہت بڑے اژدہے کی شکل اختیار کر گئی اور جنابِ موسیٰ علیہ السّلام خوف زدہ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ِموسیٰ علیہ السّلام کو عصا پکڑنے کا حکم دیا اور کہاکہ اسے پکڑ لیں‘ یہ دوبارہ اپنی شکل میں واپس آ جائے گی۔

فرعون کو تبلیغ کا حکم

 اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کو فرعون کے سامنے جا کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ جناب ِموسیٰ علیہ السّلام نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار میرے سینے کو کھول دے، میرے معاملے کو آسان کر دے، میری زبان سے گرہ کو دور کر دے تاکہ لوگ میری بات کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور میرے اہلِ خانہ میں سے جناب ِہارون کو میرا مددگار بنا دے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السّلام کی دعا کو سن لیا اور جنابِ ہارون علیہ السّلام کو آپ کا نائب بنا دیا۔ آپؑ دربارِ فرعون میں آئے تو فرعون نے اپنی قوم کی حمایت حاصل کرنے کیلئے آپؑ سے سوال کیا کہ میری قوم کے وہ لوگ جو ہم سے پہلے مر چکے ہیں‘ آپؑ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جناب ِموسیٰ علیہ السّلام کا ذہن علم و حکمت سے پُر تھا، آپؑ نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ہے اور میرا پروردگار نہ کبھی بھولا ہے اور نہ کبھی گمراہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو دریا میں غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی۔ 

موسیٰ  ؑ کی اللہ سے ملاقات

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کو اپنی ملاقات کیلئے بلایا۔ جب جنابِ موسیٰ علیہ السّلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو رہے تھے تو قومِ موسیٰ نے ان کی عدم موجودگی میں سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ موسیٰ علیہ  السّلام جب واپس پلٹے تو اپنی قوم کو شرک کی دلدل میں اترا دیکھ کر انتہائی غضبناک ہوئے اور جنابِ ہارون علیہ السّلام سے پوچھا کہ آپ نے اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کی؟ جنابِ ہارون علیہ السّلام نے کہا کہ میں نے ان پر سختی اس لیے نہیں کی کہ کہیں یہ لوگ منتشر نہ ہو جائیں۔ جنابِ موسیٰ علیہ السّلام کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو آگ لگا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہا دیا اور اس جھوٹے معبود کی بے بسی اور بے وقعتی کو بنی اسرائیل پر ثابت کر دیا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید میں مذکور واقعات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

سولہویں پارے کا خلاصہ

واقعہ موسیٰ علیہ السلامسولہویں پارے میں حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السّلام کے درمیان ہونے والی گفتگو بیان کی جا رہی تھی کہ حضرت خضر علیہ السّلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: جن اَسرار کا آپ کو علم نہیں، اُن کے بارے میں آپ صبر نہیں کر پائیں گے۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورہ بنی اسرائیل: سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کے معجزۂ معراج کی پہلی منزل‘ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے۔ یہ تاریخ نبوت‘ تاریخِ ملائک اور تاریخِ انسانیت میں سب سے حیرت انگیز اور عقلوں کو دنگ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس کی مزید تفصیلات سورۃ النجم اور احادیث میں مذکور ہیں۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورۂ بنی اسرائیل: پندرھویں پارے کا آغاز سورۂ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

چودھویں پارے کا خلاصہ

اہل جہنم: چودھویں پارے کی پہلی آیت کا شانِ نزول حدیث میں آیا کہ اہل جہنم جب جہنم میں جمع ہوں گے تو جہنمی ان گناہگار مسلمانوں پر طعن کریں گے کہ تم تو مسلمان تھے‘ پھر بھی ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائے گا تو کفار تمنا کریں گے کہ کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے اور اس مرحلے پر نجات پا لیتے۔

چودھویں پارے کا خلاصہ

فرشتوں کا اتارنا: چودھویں پارے کا آغاز سورۃ الحجر سے ہوتا ہے۔ چودھویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ کافر رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے فرشتوں کو کیوں لے کر نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فرشتوں کو تو ہم عذاب دینے کیلئے اتارتے ہیں اور جب فرشتوں کا نزول ہو جاتا ہے تو پھر اقوام کو مہلت نہیں دی جاتی۔

زکوٰۃ کے شرعی مسائل

’’اور نماز پڑھا کرو،اور زکوٰۃ دیاکرو‘‘(سورۃ النور) معدنیات پر 1/5، بارانی زمین پر 1/10، غیر بارانی زمین پر 1/20، سونا،چاندی اور مال تجارت پر 1/40 زکوٰۃ کی شرح مقرر ہے