سولہویں پارے کا خلاصہ

تحریر : مفتی منیب الرحمن


واقعہ موسیٰ علیہ السلامسولہویں پارے میں حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السّلام کے درمیان ہونے والی گفتگو بیان کی جا رہی تھی کہ حضرت خضر علیہ السّلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: جن اَسرار کا آپ کو علم نہیں، اُن کے بارے میں آپ صبر نہیں کر پائیں گے۔

 حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا: ’’ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘۔ حضرت خضر علیہ السّلام نے کہا: ’’آپ میری پیروی کرتے ہوئے میرے کسی فعل کے بارے میں سوال نہیں کریں گے، تاوقتیکہ میں خود آپ کو بتا دوں‘‘۔ چلتے چلتے وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو حضرت خضر علیہ السّلام نے اُس کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ یہ تو آپ نے بہت بری بات کی، اس سے تو سواریوں کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السّلام نے کہا: میں نے آپ سے یہی تو کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کر پائیں گے۔ سورۂ کہف کی اس واقعہ سے متعلق آیات میں بتایا کہ راہ چلتے اُن دونوں کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی اور حضرت خضر علیہ السّلام نے اُس لڑکے کو قتل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ آپ نے ایک بے قصور شخص کو قتل کر دیا، یہ بہت براکام کیا۔ حضرت خضر علیہ السّلام نے کہا ’’میں نے تو آپ سے کہا تھاکہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اس کے بعد میں اگر آپ سے کوئی سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیے گا۔ پھر چلتے چلتے ایک بستی والوں کے پاس آئے اور اُن سے کھانا مانگا مگر اُنہوں نے میزبانی نہ کی، اس کے باوجود اُس گاؤں کی ایک دیوار گرا چاہتی تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے اُسے ٹھیک کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ان بے لحاظ لوگوں سے آپ نے مزدوری ہی لے لی ہوتی۔ حضرت خضر علیہ السّلام نے کہا: اب آپ کے اور میرے راستے جدا ہیں، میں اپنے تینوں کاموں کی حکمت آپ کو بتا دیتا ہوں۔ (1) کشتی سمند ر میں کام کرنیوالے مسکین لوگوں کی تھی اور آگے ایک ظالم بادشاہ تھا، جو ہر صحیح و سالم کشتی کو ہتھیا لیتا تھا، میں نے کشتی کو عیب دار کر دیا تاکہ اُس کی دستبرد سے بچی رہے۔ (2) لڑکے کے ماں باپ مومن تھے اور اندیشہ تھاکہ یہ بڑے ہو کر اُن کو سرکشی اورکفر میں مبتلا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُن کو ایک پاکیزہ اور زیادہ رحمدل بیٹا عطا فرمائے گا۔ (3)گاؤں میں دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اُس کے نیچے اُن کا خزانہ دفن تھا اور اُن دونوں کا باپ ایک صالح شخص تھا تو اللہ نے چاہا کہ وہ جوان ہو کر اپنے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ تینوں کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیے یعنی یہ اللہ کا حکم تھا، لیکن آپ صبر نہ کر سکے اور جلد بازی میں سوال کر بیٹھے۔

ذوالقرنین کا ذکر

 آیت 83 سے ذوالقرنین کا ذکر ہے، اللہ نے انہیں زمین میں بہت اقتدار عطا کیا، وہ ایک مہم پر نکلے اور طلوعِ آفتاب کی جگہ پہنچے تو ایک قوم کو پایا جن پر سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ پھر ایک اور مہم پہ نکلے اور سورج غروب ہونے کی جگہ جا پہنچے، پھر ایک مہم پر نکلے اور دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے، ان پہاڑوں کے اس پار ایک قوم تھی جو کوئی بات نہیں سمجھتی تھی۔ انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین! یاجوج ماجوج زمین میں فساد کر رہے ہیں، ہم آپ کو کچھ سامان مہیا کرتے ہیں آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دیں۔ ذوالقرنین نے کہا: اللہ نے مجھے طاقت دی ہے اور میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دیتا ہوں۔ اس دیوار میں لوہا اور تانبا پگھلا کر ڈالا گیا، تاکہ وہ دیوار ناقابلِ شکست ہو جائے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے رب کی رحمت سے بنی ہے اور جب میرے رب کا مقررہ وقت آئے گا تو وہ اس دیوار کو ریزہ ریزہ کر دے گا۔ آخری آیات میں اللہ نے فرمایا کہ اگر سارے سمندر اور ان جیسے اور بھی آ جائیں ، مل کر روشنائی بن جائیں تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائیں گے۔

سورہ ٔمریم

سورۂ مریم میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹے (یحییٰ) کی بشارت دی۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں نبوت عطا کی، وہ پاکیزہ، متقی، ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے۔

حضرت مریم کا ذکر

 اس کے بعد حضرت مریم کا ذکر ہے کہ وہ گھر والوں سے دور چلی گئیں اور باپردہ جگہ کو اختیار کر لیا۔ ان کے پاس فرشتہ بشری شکل میں آیا اور کہا کہ میں آپ کے رب کا فرستادہ ہوں اور اس نے انہیں پاکیزہ لڑکے کی بشارت دی۔ حضرت مریم نے کہا: میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا، حالانکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ کیلئے یہ بات آسان ہے اور اللہ اسے لوگوں کیلئے نشانی بنائے گا اور اللہ کا یہ فیصلہ طے ہو چکا ہے۔ انہیں حمل ہوا اور وہ ایک دور مقام پر کھجور کے درخت کے پاس چلی گئیں۔ فرشتے نے ندا دی کہ آپ غمگین نہ ہوں، اگر کوئی بشر آپ سے سوال کرے، توکہیے کہ میں نے (چپ کے) روزے کی نذر مانی ہے اور میں کسی انسان سے کلام نہیں کروں گی۔ پھر وہ بچے کو اٹھائے قوم کے پاس گئیں تو قوم نے ملامت کی کہ یہ کیا ہوا۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا اور قوم نے کہا کہ ہم بچے سے کیسے کلام کریں؟ بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب ونبوت عطا کی ہے اور بابرکت بنایا ہے۔ 

 انبیائے کرام کا ذکر 

آیت 51 سے مختلف انبیائے کرام کا ذکر ہے۔ اسماعیل علیہ السّلام کو وعدے کے سچے،رسول، نبی اور اللہ کا پسندیدہ قرار دیا گیا۔ ادریس علیہ السلام کو صدیق نبی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا۔

گمراہ لوگ

 آیت 76سے بتایا کہ جو لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں، ان کی ابتلا میں اضافے کیلئے مہلت کی مدت بڑھا دی جاتی ہے اور جو ہدایت یافتہ ہیں، ان کو مزید استقامت نصیب ہوتی ہے اور اللہ کے ہاں ثواب اور انجامِ خیر کے اعتبار سے باقی رہنے والی نیکیاں سب سے بہتر ہیں۔ 

سورہ طٰہٰ

 ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ قرآن نصیحت کیلئے نازل ہوا اور اللہ ظاہر وباطن سب کو جانتا ہے ، وہ وحدہٗ لاشریک ہے اور اس کے سبھی نام اچھے ہیں۔

حضرت موسیٰ  ؑ پر وحی 

 آیت 10سے مَدین سے واپسی کے سفرکے دوران موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعے کا بیان ہے کہ وہ ایک جگہ اپنی اہلیہ کو ٹھہرا کر آگ لینے طور پر گئے۔ وہاں انہیں غیب سے ندا آئی کہ اے موسیٰ! میں آپ کا رب ہوں، آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں، ادباً اپنے جوتے اتار دیجئے، میں نے آپ کو چن لیا ہے اور میرے پیغامِ وحی کو توجہ سے سنئے، میں اللہ وحدہٗ لاشریک ہوں، میری بندگی کیجئے اور میری یاد کیلئے نماز قائم کیجئے۔ اسی موقع پر آپ کو معجزات عطا ہوئے اور آپ کو حکم ہوا کہ جا کرفرعون کو دعوتِ حق دیجئے۔

موسیٰ  ؑ کی دعا

 آیات 25 تا 28 میں موسیٰ علیہ السّلام کی دعا کو بیان کیا: ’’اے میرے رب میرے لئے میرا سینہ کھول دے، میرے لیے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ لوگ میری بات سمجھیں‘‘۔

اعلان فرعون

 آیت 38 سے موسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کے وقت کے حالات کا ذکر ہے۔ فرعون نے حکم دے رکھا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہر گھر میں پیدا ہونے والے بیٹے کو قتل کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السّلام کی ماں کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ وہ اپنے نومولود بیٹے کو ایک صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیں، اللہ کے حکم سے یہ تابوت کنارے لگے گا اور اللہ کے دشمن (فرعون) کے ہاتھ لگ جائے گا۔ موسیٰ علیہ السّلام کی والدہ نے ایساہی کیا تاکہ رب کی نگرانی میں موسیٰ علیہ السّلام کی پرورش ہو۔ 

فرعون کو دعوتِ حق

آیت 43 سے موسیٰ و ہارون علیہما السّلام کو حکم ہوا کہ آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں، وہ سرکش ہو چکا ہے، اسے نرمی کے ساتھ دعوتِ حق دیں، شاید وہ نصیحت حاصل کر لے۔ وہ دونوں فرعون کے پاس گئے اور کہا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں، بنی اسرائیل کو اذیت نہ دو اور انہیں ہمارے ساتھ بھیج دو۔ فرعون نے اللہ کی ذات کے بارے میں موسیٰ وہارون علیہما السّلام سے مجادلہ کیا، ان پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا اور پھر اپنے جادوگروں کو بلاکر مقررہ دن پر مقابلے کا چیلنج دیا۔ 

پہاڑ ریزہ ریزہ

آیت 105 سے فرمایا: لوگ آپ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب اُنہیں ریزہ ریزہ کردے گا اور پوری زمین ہموار میدان کی طرح ہو جائے گی۔

شفاعت

 آیت 109میں فرمایاگیا کہ آج اللہ کی بارگاہ میں کسی کو مجالِ شفاعت نہیں ہو گی، سوائے اُس کے جسے وہ اِذنِ شفاعت عطا کرے اور جس کے قول سے وہ راضی ہو۔

اجتہادی خطا

 آیت 115 سے اس بات کا ذکرہے کہ آدم علیہ السلام جو جنت میں درخت کے قریب چلے گئے، تو یہ اُن کی بھول اور اجتہادی خطا تھی، انہوں نے قصداً اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی نہیں کی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

سولہویں پارے کا خلاصہ

موسیٰ و خضر علیہ السلامسولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے کے آخر میں جناب ِموسیٰ علیہ السّلام کی جنابِ خضر علیہ السّلام سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا‘ جنابِ موسیٰ علیہ السّلام حضرت خضر علیہ السّلام کی جانب سے کشتی میں سوراخ کرنے اور پھر ایک بچے کو قتل کر دینے کے عمل پر بالکل مطمئن نہ تھے۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورہ بنی اسرائیل: سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کے معجزۂ معراج کی پہلی منزل‘ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے۔ یہ تاریخ نبوت‘ تاریخِ ملائک اور تاریخِ انسانیت میں سب سے حیرت انگیز اور عقلوں کو دنگ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس کی مزید تفصیلات سورۃ النجم اور احادیث میں مذکور ہیں۔

پندرھویں پارے کا خلاصہ

سورۂ بنی اسرائیل: پندرھویں پارے کا آغاز سورۂ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

چودھویں پارے کا خلاصہ

اہل جہنم: چودھویں پارے کی پہلی آیت کا شانِ نزول حدیث میں آیا کہ اہل جہنم جب جہنم میں جمع ہوں گے تو جہنمی ان گناہگار مسلمانوں پر طعن کریں گے کہ تم تو مسلمان تھے‘ پھر بھی ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائے گا تو کفار تمنا کریں گے کہ کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے اور اس مرحلے پر نجات پا لیتے۔

چودھویں پارے کا خلاصہ

فرشتوں کا اتارنا: چودھویں پارے کا آغاز سورۃ الحجر سے ہوتا ہے۔ چودھویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ کافر رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے فرشتوں کو کیوں لے کر نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فرشتوں کو تو ہم عذاب دینے کیلئے اتارتے ہیں اور جب فرشتوں کا نزول ہو جاتا ہے تو پھر اقوام کو مہلت نہیں دی جاتی۔

زکوٰۃ کے شرعی مسائل

’’اور نماز پڑھا کرو،اور زکوٰۃ دیاکرو‘‘(سورۃ النور) معدنیات پر 1/5، بارانی زمین پر 1/10، غیر بارانی زمین پر 1/20، سونا،چاندی اور مال تجارت پر 1/40 زکوٰۃ کی شرح مقرر ہے