سترہویں پارے کا خلاصہ

تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


سورۂ انبیاءسترہویں پارے کا آغاز سورۃ الانبیاء سے ہوتا ہے۔ سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔

 اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دین سمجھنے کا طریقہ بھی بتلایا کہ اگر کسی شے کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے اس بارے میں سوال کر لینا چاہیے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ اس نے زمین اور آسمان کو کھیل تماشے کیلئے نہیں بنایا، اگر اس نے کھیل ہی کھیلنا ہوتا تو وہ کسی اور طریقے سے بھی یہ کام کر سکتا تھا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اس نے ہر چیز کو پانی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

انسان کی آزمائش

 اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اللہ انسانوں کو اچھے اور برے حالات سے آزماتا ہے۔ جب حالات اچھے ہوں تو انسان کو شکرادا کرنا چاہیے اور جب حالات برے ہوں تو انسان کو صبر کرنا چاہیے۔

میزان عدل

اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کو تولنے کیلئے میزان عدل قائم کریں گے اور اس میزان میں ظلم والی کوئی بات نہیں ہو گی اور جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا وہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہو گی۔

حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ

اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی جوانی کے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں کیا ہیں‘ جن کی تم عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ اور دادائوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم اور تمہارے باپ کھلی گمراہی میں تھے۔ انہوں نے کہا: کیا تم واقعی ہمارے پاس حق لے کر آئے ہو یا یونہی مذاق کر رہے ہو؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمہارا رب آسمان اور زمین کا رب ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں اس بات کے حق ہونے کی گواہی دیتا ہوں، اللہ کی قسم جب تم لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جائو گے تو میں تمہارے بتوں کے خلاف ضرور کارروائی کروں گا۔ پس ابراہیم علیہ السلام نے ان کی عدم موجودگی میں بت کدے میں داخل ہوکر بتوں کو توڑ ڈالا۔ جب قوم کے لوگ بت کدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے بتوں کو ٹوٹا ہوا دیکھا۔ انہوں نے کہا: جس نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنایا ہے وہ یقینا ظالم آدمی ہے۔  لوگوں نے کہا: ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) نامی ایک نوجوان کو ان بتوں کے بارے میں باتیں کرتے سنا تھا۔ انہوں نے کہا: تم اسے سب کے سامنے لائو تاکہ لوگ اسے دیکھیں۔ جب انہیں بلایا گیا تو لوگوں نے پوچھا: اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تم نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنایا ہے؟ انہوں نے کہا: اس بڑے بت نے یہ کیا ہو گا‘ اگر یہ بت بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔ پھر انہوں نے اپنے دل میں اس بات پر غور کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے‘ حقیقت میں تم لوگ ہی ظالم ہو۔ مگر پھر بھی وہ حقیقت کو قبول کرنے سے انکاری ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ بت بولتے نہیں۔ جناب ابراہیم علیہ السلام نے کہا: تو کیا تم لوگ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی نقصان۔ تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ اس واضح دعوتِ توحید پر بستی کے لوگ بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دو اور اگر اپنے معبودوں کی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کیلئے آگ کو بھڑکایا گیا۔ جب آگ خوب بھڑ ک اٹھی تو ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی ’’حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے‘‘۔جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو اللہ نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: انہوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سازش کرنا چاہی تو ہم نے انہیں بڑا خسارہ پانے والا بنا دیا۔

ایوب ؑ کا صبر

اس سورت میں اللہ نے جناب دائود اور سلیمان علیہم السلام کی حکومت کا اور ایوب علیہ السلام کے صبر کا ذکر بھی کیا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام شدید بیماری کے باوجود اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ ا لسلام کی دعا قبول کرکے آپ کی تمام مشکلات کو دور فرما دیا۔

یونس ؑ کا واقعہ

اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں جناب یونس علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ آپ جب مچھلی کے پیٹ میں غم کی شدت سے دوچار تھے تو آپ علیہ السلام نے پروردگار عالم کو ندا دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اس کی ذات پاک ہے اس تکلیف سے جو مجھ کو پہنچی ہے اور بے شک یہ تکلیف مجھے اپنی وجہ سے آئی ہے، تو اللہ نے جناب یونس علیہ السلام کی فریاد کو سن کر ان کے دکھوں کو دور فرما دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرما دیا کہ جو کوئی بھی حالتِ غم میں جناب یونس علیہ السلام کی طرح اللہ کی تسبیح کرے گا تو اللہ جناب یونس علیہ السلام ہی کی طرح اس کے غم کو دور فرمائیں گے۔ 

انبیاء کا ذکر

سورۃ الانبیاء میں انبیاء کرام کا ذکر ہوا کہ جب بھی انہیں کوئی مشکل پڑی یا کوئی حاجت پیش آئی تو انہوں نے اللہ کو پکارا اور اللہ نے ان کی پکار کو نہ صرف شرفِ قبولیت بخشا بلکہ ان کی تکلیف و مصیبت کو ان پر سے دور بھی کیا اور ان کے مناصب اور عظمت میں اضافہ فرمایا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے منصب جلیلہ کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دو جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

سورۃ الحج

 سورۃ الانبیاء کے بعد سورۂ حج ہے۔ سورہ حج کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرایا اور ارشاد فرمایا کہ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑا ہے۔ اور اس زلزلے کی وجہ سے حاملہ اپنے حمل کو گرا دے گی اور دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو پرے پھینک دے گی اور لوگ حالتِ نشہ میں نظر آئیں گے یعنی اپنے حواس کھو بیٹھیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب انتہائی شدید ہو گا۔

غزوہ بدر

اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے معرکے کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس میں ایک ہی قبیلے کے لوگ آپس میں ٹکرا گئے تھے اور یہ جنگ نسل، رنگ یا علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدۂ توحید کی بنیاد پر ہوئی تھی۔

حج کا اعلان

اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کیلے خانہ کعبہ کی جگہ کو مقرر فرما دیا اور ان سے کہا کہ آپ کسی بھی چیز میں میرا شریک نہ ٹھہرایے اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے شرک اور بت پرستی سے پاک رکھیے اور آپ لوگوں میں حج کا اعلان کریں تاکہ وہ آپ کے پاس پیدل چل کر اور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہوکر دور دراز علاقوں سے آئیں۔ وہ اپنے لیے دینی اور دنیوی فوائد کو حاصل کر سکیں اور گنتی کے مخصوص دنوں میں ان چوپایوں کو اللہ کے نام پر ذبح کریں جو اللہ نے بطور روزی انہیں دیے ہیں۔ پس تم لوگ اس کا گوشت خود بھی کھائو اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلائو۔

قربانی

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کی قبولیت کیلئے تقویٰ کو شرط قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان مظلوم مسلمانوں کو جہاد کی اجازت بھی دی ہے کہ جن کو بغیر کسی جرم کے ان کے گھروں سے ایمان کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔

شرک

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے شرک کی تردید کی ہے کہ جن معبودانِ باطل کو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ سارے جمع ہو کر ایک مکھی کو بھی نہیں بنا سکتے اور مکھی بنانا تو دور کی بات ہے اگر مکھی ان سے جبراً کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اس کو واپس بھی نہیں پلٹا سکتے۔

دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

اکیسویں پارے کا خلاصہ

نماز کا حکم: قرآنِ مجید‘ فرقانِ حمید کے اکیسویں پارے کا آغاز سورۃ العنکبوت سے ہوتا ہے۔ اکیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ‘ اپنے حبیبﷺ سے فرماتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے‘ اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔

اعتکاف،رضائے الٰہی کے حصول کا راستہ

اسلام نے رہبانیت اختیارکرنے یا تارک الدنیا ہونے کو پسند نہیں کیا بلکہ دنیاوی امورکے ساتھ ساتھ دینی امورکو سرانجام دینے کاحکم دیا ہے۔ اس کا نعم البدل اعتکاف کی صورت میں عطا فرمایاجو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے۔ اعتکاف مسنون و افضل عبادت ہے، اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ ہر سال اعتکاف کرتے تھے۔ اعتکاف کے بہت سارے دینی و روحانی فوائد و ثمرات ہیں، جو معتکف کو پورا سال نصیب ہوتے ہیں۔

رمضان کا آخری عشرہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزاریں

رمضان سارا ہی عبادت کا مہینہ ہے مگر اس کے آخری عشرے کی عبادات کی خاص فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ رمضان کے آخری دس دنوں میں اپنے اہل و عیال کو عبادت کیلئے خصوصی ترغیب دلانا نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرنا ہے ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو تا تو نبی ﷺ (عبادت کیلئے)کمر بستہ ہو جاتے ، راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی جگاتے‘‘ (صحیح البخاری: 2024)۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں:رسول اللہ ﷺعام دنوں کی نسبت آخری عشرے میں خوب محنت اور کوشش کرتے (صحیح مسلم:2788)۔

مسائل اور ان کا حل

روزے کی حالت میں غسل کا طریقہ سوال : روزے کی حالت میں غسل کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟(مبین، کراچی)

بیسویں پارے کا خلاصہ

جلالت و قدرت:بیسویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ استفہامی انداز میں اپنی جلالت و قدرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا‘ آسمان سے بارش برسا کر بارونق باغات کس نے اگائے‘

بیسویں پارے کا خلاصہ

سورۂ نمل: بیسویں پارے کا آغاز سورۂ نمل سے ہوتا ہے۔ اس پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی قوتِ تخلیق اور توحیدکا ذکر کیا ہے۔