اکیسویں پارے کا خلاصہ

اقامتِ صلوٰۃ کا حکم : اکیسویں پارے کی پہلی آیت میں تلاوتِ قرآن اور اقامتِ صلوٰۃ کا حکم ہے اور یہ کہ نماز کے منجملہ فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ اسی معیار پر ہر مسلمان اپنی نماز کی مقبولیت اور افادیت کا جائزہ لے سکتا ہے۔
نبی اُمی
رسول کریمﷺ کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ’’نبی اُمی‘‘ تھے یعنی آپﷺ نے رسمی طور پر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت پوشیدہ تھی۔ آیت 48 میں فرمایا ’’اور آپ نزولِ قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اس سے پہلے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے‘ ورنہ باطل پرست شک میں مبتلا ہو جاتے‘‘ یعنی کوئی منکر یہ کہہ سکتا تھا کہ پچھلی کتابوں کاکوئی ذخیرہ یا دفینہ ان کے ہاتھ آ گیا ہے‘ جسے پڑھ پڑھ کر یہ ہمیں سناتے ہیں۔
رازق حقیقی
آیت 59 میں فرمایا ’’اور کتنے ہی جانور ہیں جو‘ اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے‘ ان کو اللہ ہی رزق دیتا ہے اور تم کو بھی‘‘ یعنی اسباب کا اختیار کرنا بجا لیکن رازقِ حقیقی صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے۔ آیت 62 میں فرمایا گیا ہے کہ ’’رزق کی کشادگی کو کوئی اپنے لیے معیارِ فضیلت نہ سمجھے‘‘۔
سورۃ الروم
قرآنِ مجید کی حقانیت کی ایک قطعی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں مستقبل کی جو خبریں دی گئی ہیں‘ وہ ہمیشہ سچ ثابت ہوئیں۔ اہل روم اور اہلِ فارس میں لڑائیاں چلتی رہتی تھیں‘ ایک بار اہلِ فارس‘ جو مشرک تھے‘ اہلِ روم پر غالب آ گئے، چونکہ رومی اہلِ کتاب تھے چنانچہ مشرکین مکہ اہل فارس کی فتح پر خوشیاں منانے لگے‘ اس پر قرآن نے فرمایا: یہ خوشیاں عارضی ہیں‘ چند سال میں رومی فارس والوں پر غالب آ جائیں گے، قرآن کی بشارت کے عین مطابق ساتویں سال میں رومیوں کو اہل فارس پر دوبارہ فتح نصیب ہوئی۔
مادی قوت پر اترانا
آیت 9 سے بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو اپنی مادّی قوت و طاقت پر اِترا کر اللہ عزوجل کی غالب قدرت کو بھول نہیں جانا چاہیے‘ ماضی میںکتنی ہی ایسی قومیں آئیں جو مادّی قوت کی حامل تھیں لیکن آج ان کے کھنڈرات ان کی مادّی قوت کی ناپائیداری کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
نماز کے اوقات
آیت 17 سے نماز کے اوقاتِ خمسہ کی طرف اشارہ فرمایا ’’پس شام کے وقت اللہ کی تسبیح کرو اور جب تم صبح کو اٹھو اور اسی کیلئے تمام تعریفیں ہیں۔ آسمانوں اور زمینوں میں اور پچھلے پہر اور دوپہر کو‘‘ صبح اور شام میں مغرب‘ عشا اور فجر کی نمازیں آتی ہیں‘ پچھلے پہر میں عصر کی نماز اور دوپہر میں ظہر کی نماز۔
قدرت کی نشانیاں
آیت 21 سے بتایا گیا ہے کہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے انسان کیلئے اسی کی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ ان سے سکون حاصل کریں اور زوجین کے مابین محبت اور ہمدردی کا رشتہ قائم کیا۔ اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے زمین وآسمان کی تخلیق اور انسانوں کی بولیوں اور رنگوں کا تنوع ہے۔ نیند کیلئے رات اور تلاش معاش کیلئے دن کا بنانا ہے۔ اسی طرح آگے کی آیات میں قدرت کی متعدد نشانیوں کا ذکر ہے۔ آگے چل کر فرمایا کہ آپ باطل ادیان سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ کو دین فطرت پر قائم رکھیں۔
فطری خود غرضی
آیت 33 سے انسان کی فطری خود غرضی کو بیان کیا گیا ہے کہ تکلیف کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں لیکن راحت کے وقت اسے بھول جاتے ہیں بلکہ شرک کرنے لگتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہو جاتے ہیں۔
حق دینے کا حکم
آیت 38 میں قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دینے کا حکم فرمایا۔
بر و بحر میں فساد
آیت 41 میں فرمایا کہ بر و بحر میں فساد لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے بھڑا دینا بھی ایک صورت عذاب ہے۔
سورۂ لقمان
سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی اور حکم دیا کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے‘ اس کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ بے نیاز ہے اور تمام تعریفوں کا حق دار ہے۔
حضرت لقمان ؑ کی نصیحتیں
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کیں‘ وہ یہ ہیں: (1) شرک سے اجتناب (2)اللہ اور ماں باپ کا شکر گزار ہونا (3)والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا‘ اس مقام پر قرآن نے اولاد کیلئے ماں کی مشقتوں کا بھی ذکر کیا (4) اگر خدانخواستہ کسی کے ماں باپ مشرک ہوں تو ان کے دباؤ پر شرک میں مبتلا نہ ہونا لیکن اس کے باوجود دنیوی امور میں ماں باپ کے ساتھ بدستور نیک برتاؤ کرنا (5) پابندی سے نماز قائم کرنا (6) نیکی کاحکم دینا اور برائی سے روکنا (7) لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آنا (8) زمین میں اکڑ کر نہیں بلکہ عاجزی سے چلنا (9) چال اور گفتار میں تواضع اختیار کرنا وغیرہ۔
حجرت لقمان ؑحکیم و دانا
حضرت لقمان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، زیادہ واضح قول یہ ہے کہ وہ ایک حکیم اور دانا شخص تھے، اللہ نے انہیں فکر سلیم عطا کی تھی۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت وجلالت‘ تسخیرِکائنات‘ تسخیرِ شمس و قمر‘ نظام لیل و نہار اور دیگر بے پایاں نعمتوں کا ذکر ہے۔
درخت قلم، سمندر روشنائی
آیت 27 میں فرمایا کہ اگر زمین کے سارے درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی اور اس میں سات سمندر کا اضافہ ہو جائے (اور یہ اللہ کے کلمات کو لکھنے لگیں) تو قلمیں ختم ہو جائیں گی‘ سمندر خشک ہو جائیں گے لیکن اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔
سورۃ السجدہ
آیت 15 میں فرمایا کہ ہماری آیات پر ایمان وہ لوگ لاتے ہیں کہ جب ان آیات کے ذریعے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اپنے رب کی تسبیح اور حمد کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں‘ تکبر نہیں کرتے‘ ان کے پہلو (عبادتِ الٰہی میں مشغولیت کی وجہ سے) بستروں سے دور رہتے ہیں‘ وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کا یقین رکھتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔
مومن اور فاسق
مزید فرمایا کہ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے‘ باعمل مومنین کیلئے جنت کی صورت میں اللہ نے مہمانی تیار کر رکھی ہے جبکہ فاسقوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
صبر کا اجر
آیت 24 میں فرمایا ’’جن لوگوں نے صبر وتحمل کو اپنا وتیرہ بنا لیا تو ہم نے اُنہیں لوگوں کے منصبِ امامت پر فائز کر دیا‘‘۔
سورۃ الاحزاب
رسول کریمﷺ کے عہد کی تمام باطل قوتیں مجتمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئیں۔ ’’حزب‘‘ جماعت کو کہتے ہیں اور ’’احزاب‘‘ کے معنی ہیں جماعتیں‘ یعنی عہدِ رسالت میں مسلمانوں کے خلاف کفار اور مشرکین اور منافقین کی یہ اجتماعی یلغار تھی‘ جسے بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید ونصرت سے ناکام ونامراد فرمایا اور یہی واقعہ اس سورۂ مبارکہ کا مرکزی موضوع ہے۔
منہ بولے بیٹے
آیت 4 میں فرمایا گیاہے کہ اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے‘ یعنی کفر اور ایمان‘ ہدایت اور گمراہی اور حق و باطل ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اسی آیت میں فرمایا کہ کسی کے منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹوں کے حکم میں نہیں‘ یہ لوگوں کی خود ساختہ باتیں ہیں۔ مزید فرمایا کہ لوگوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کرکے پکارو‘ اللہ کے نزدیک یہی بات مبنی برانصاف ہے اور اگر ان کے حقیقی باپوں کا پتا نہ چلے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ آیت 6 میں فرمایا کہ نبی مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں اور نبی کی بیویاں مومنوں کی روحانی مائیں ہیں۔
غزوہ احزاب
آیت 8 سے بیان کیا کہ غزوۂ احزاب (اسے غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں) کے موقع پر کفار ہر جانب سے جمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ اس موقع پر اہل ایمان کی آزمائش کی گئی اور انہیں شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا‘ یہاں تک کہ منافق اور جن کے دلوں میں شک کی بیماری تھی‘ کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کر رکھا تھا‘ وہ محض دھوکا تھا۔ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے مومنو! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسے (غیبی) لشکر بھیجے‘ جنہیں تم نے دیکھا نہیں اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر کفار ایک ماہ تک مسلمانوں کا محاصرہ کیے رہے‘ بالآخر طوفانی آندھی آئی‘ کفار کے خیمے اکھڑ گئے، بظاہر انہیں اپنی کامیابی کا یقین تھا‘ انہیں ناکام اور نامراد ہوکر واپس جانا پڑا، اسی کو نصرتِ الٰہی کہتے ہیں۔