23 مارچ 1940 قرارداد پاکستان۔۔۔۔۔۔اہم ترین سیاسی دستاویز

وہ آل انڈیا مسلم لیگ کا 34واں سالانہ اجلاس تھا جو تین روز جاری رہا۔ 22مارچ 1940ء کو شروع ہونے والایہ اجلاس 24مارچ 1940ء کو اختتام پذیر ہوا۔ آخری دن اس اجلا س میں وہ قرار داد پیش ہوئی، جسے قرار داد لاہور کہا گیا۔
چونکہ چودھری رحمت علی 1933ء میں مسلمانوں کے ایک الگ ملک کیلئے پاکستان کا نام تجویزکر چکے تھے اوراس قرار داد میں آبادی کے تناسب سے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس لیے ہندو پریس نے اسے قرارداد پاکستان کانام دیا اور اسے ناممکن کی جستجوسے تعبیرکیا۔
قرار داد میں جغرافیائی حدود میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا بعد میں جس طریقے سے تقسیم عمل میں لائی گئی اور بڑے پیمانے پر آبادیوں کا تبادلہ ہوا، قرارداد میں اس کا کوئی ذکر تھا نہ ایسا کوئی مطالبہ کیا گیا تھا۔ جغرافیائی تقسیم کے عمل میں مسلم آزاد علاقوں میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بہ طور خاص ذکر کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہندوستان کے باقی حصوں میں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق کا بھی ذکرتھا۔یہ بھی کہاگیاتھاکہ اقلیتوں کے مذہبی، سیاسی، اقتصادی، انتظامی اور دیگر مفادات کا تحفظ اکثریتی پارٹیاں اپنی صوابدیدسے نہیں کریں گی بلکہ ان کے حقوق کا تحفظ متعلقہ اقلیتوں کے اپنے مشورے سے کیا جائے گا۔ یہ بات بعد میں پاکستان کے دستور میں بھی ذکر کی گئی۔ اس اجلاس میں یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ جغرافیائی منطقوں کی حدبندی کا یہ مطالبہ منظور ہو جانے کی صورت میں پنجاب کے سکھوں کی پوزیشن شمال مغربی مسلم رقبے میں اچھی ہو جائیگی۔
قائداعظمؒ نے قراردادپیش کیے جانے کے موقع پر ایک سومنٹ تک اجلاس سے خطاب کیا جس میں آزاد اور خودمختارمنطقوں کے مطالبے کی غایت واضح کی گئی۔ اس قرادادکی منظوری کے بعد حالات وواقعات کی رفتاربہت تیزہوگئی تھی۔ اس قراردادکی منظوری کے دوہی برس کے بعد ہندوستان کے سیاسی مسئلے کے حل کیلئے برطانیہ سے کرپس مشن ہندوستان آیا، اسی سال ہندوستان چھوڑ دوکی تحریک شروع ہوئی اوراس سے اگلے ہی سال یعنی 1943ء میں لارڈویول وائسرائے بن کر ہندوستان آیا۔جس کے تقررکا واحد مقصد ہندوستان کو تقسیم سے روکناتھا لیکن ویول جیسا تجربہ کارجرنیل بھی اس جنگ میں کامیاب نہ ہو سکا۔
ہندوپریس کی جانب سے تو قراردادکی مخالفت ہوناہی تھی بعض مسلمان حلقوں نے بھی اس قرار داد کی مخالفت کی۔ ان میں کچھ تو وہ حلقے تھے جو مسلم لیگ کے زاویہ نظرسے اختلاف رکھتے تھے لیکن کچھ ایسی اطراف سے بھی مخالفانہ آوازیں سنائی دیں جن کا تعلق خودمسلم لیگ سے تھا ۔چودھری خلیق الزمان مسلم لیگ کے سربرآوردہ راہنمائوں میں شمارہوتے تھے ۔وہ1937ء میں مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈکے رکن اوربعدازاں اس کے صدر بھی رہے ۔وہ یوپی کی دستور ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہے۔1946ء میں مسلم لیگ کی جانب سے دستورسازاسمبلی کے رکن بھی رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور و ہ مشرقی پاکستان کے گورنراور انڈونیشیااور فلپائن میں پاکستان کے سفیربھی رہے۔ آخری عمرمیں انھوں نے اپنی یادداشتیں مرتب کیں جو اردو میں ’’شاہراہ پاکستان‘‘ اور انگریزی میں ’’Pathway to Pakistan ‘‘ (’’پاتھ وے ٹو پاکستان‘‘) کے نام سے شائع ہوئیں ۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے جس میں ہماری قومی تاریخ کے بہت سے پہلوؤں پر اہم مواد یکجا ہو گیاہے۔اپنی ان یادداشتوں میں چودھری صاحب نے قراردادپاکستان کے حوالے سے کچھ تحفظات کااظہار کیا اور یہ لکھاکہ ’’ یہ تجویز ایک سبجیکٹ کمیٹی سے پاس ہو کر کونسل میں آئی تھی، خدامعلوم اس کو سبجیکٹ کمیٹی میں سر سکندر حیات اور مسٹرجناحؒ نے کیسے منظور کرلیا۔ اگر میں ان جلسوں میں موجود ہوتا تو میں اس تجویز کی بنیادی ساخت اور اس کے گنجلک الفاظ کے خلاف اپنی آواز ضرور اٹھاتا اور مجھے آج بھی یقین ہے کہ یہ ریزولیوشن شاید اس شکل میں پاس نہ ہوسکتا جس میں وہ پاس ہوگیاتھا‘‘ (چودھری خلیق الزمان شاہراہِ پاکستان کراچی،انجمن اسلامیہ پاکستان اکتوبر ۱۹۶۷ء ص ۷۹۴)۔
یہ قراردادمولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ مولوی صاحب کے قرار دادپیش کرنے کے بعد چودھری خلیق الزمان نے خطاب کیا۔ انھوں نے قرارداد کی تائید کی اورکہاکہ ان حالات کوسمجھنے کی ضرورت ہے، جنھوں نے مسلمانوں کو علیحدگی کے مطالبے پرمجبور کیا۔انھوں نے کہا اس مطالبے کے پس منظر میں سب سے پہلے برطانیہ کی یہ پالیسی دکھائی دیتی ہے۔ جس میں اس نے ہندوستان کوایک قوم قراردے کر یہاں اکثریت اور اقلیت کااصول نافذ کیا جس نے معاملے کو وہاں تک پہنچادیا جہاں تک یہ حقیقت میں نہیں تھا۔ دوسرے نمبر پر کانگرس اس مطالبے کی ذمہ دار ہے جس نے اپنے اکثریتی صوبوں میں اقلیتوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ان حالات کے نتیجے میں مسلمانوں نے اپنے وجود میں خطرے کومحسوس کیا اور یہ سمجھ لیا کہ اگر وہ اپنی شناخت کوبرقراررکھنا چاہتے ہیں تو انھیں جدوجہد کرنا ہو گی۔ تیسرے علیحدگی کامطالبہ کیے جانے کی ایک وجہ ان مسلمانوں کی سرگرمیاں ہیں جنھوں نے مخالف تنظیموں یا کانگرس میں شامل ہو کرمسلمانوں کو تقسیم کیا ۔
انھوں نے اپنی تقریر میں مولانا ابوالکلام آزاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولانا کے خیال میں مسلمانوں کو تقسیم کامطالبہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنا دفاع کرنے کیلئے کافی مضبوط ہیں۔ چودھری خلیق الزمان کاکہنا تھا کہ اگر تو دفاع تلوار کی بنیاد پر کیاجائے توپھر ہندوستان کے نو کروڑ مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں لیکن یہاں سوال قوت کانہیں ووٹ کا ہے۔ انھوں نے ایک مسلم لیگی ،جو کسی کانگرسی کادوست تھا، کے حوالے سے بتایا کہ اگر کانگرس مسلمان کانگرسیوں کی ہدایت پر چلی تو اسے یقین تھا کہ ہندوستان میں خانہ جنگی جنم لے گی۔ انھوں نے اقلیتی صوبوں میں بسنے والے مسلمانوں سے کہا کہ انھیں ہندوستان کے ہندوانڈیا اورمسلم انڈیامیں تقسیم ہو جانے پر خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے یہی بات پنجاب اوربنگال کی اقلیتوں سے بھی کہی ۔انھوں نے اس بات پرتنقید کی کہ کانگرس ہمیشہ منفی طرز عمل اختیار کرتی رہی اور اس نے کبھی تعمیری تجاویز پیش نہیں کیں۔
اس تقریرکو سامنے رکھاجائے تو ہم نے اوپر چودھری خلیق الزمان کی خود نوشت سوانح سے جو اقتباس پیش کیاہے اس کی بوالعجبی واضح ہوجاتی ہے۔ چودھری صاحب نے قراردادپاکستان کے حوالے سے دوسری بات یہ کی ہے کہ ’’ صرف دو تقریریں اس ریزولیویشن پر مسلم لیگ کی طرف سے آفیشل روداد میں شامل ہیں یعنی ایک مسٹر فضل الحق کی اور دوسری میری‘‘ ۔
مارچ 1940ء کے اجلاس کی جس روداد کا اوپر ذکر ہوا اس میں مستقبل کے ہندوستانی دستورکیلئے پیش کی گئی قرارداد کا متن اور اس دستور میں مسلمانوں کی پوزیشن تفصیل سے پیش کی گئی ہے۔ قائداعظم کی تقریر بہت مفصل اور ہندومسلم تنازع کے تمام پہلوئوں کااحاطہ کرنے والی ہے اوران تمام واقعات کا تجزیہ پیش کرتی ہے جو بالآخر مسلمانو ں کی جانب سے تقسیم کے مطالبے پرمنتج ہوئی۔قائداعظم کے خطاب کے بعد ہندوستان کیلئے مستقبل کے دستور کے حوالے سے مسلم لیگ کے اس ستائیسویں سالانہ اجلاس میں وہ تاریخی قرارداد پیش کی گئی جسے مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور اور ہندوستانی پریس نے قراردادِ پاکستان قراردیا۔ قرارداد کامتن صفحہ 27 سے 29 تک ہے اس کے بعد قرارداد کی تائید میں ہونے والی تقریروں کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔سب سے پہلے وزیراعظم بنگال مولوی فضل الحق کی تقریر کاخلاصہ ہے جنھوں نے یہ قرارداد پیش کی ۔ان کے بعد سب سے پہلے چودھری خلیق الزماں کی تقریرہے جس کا خلاصہ اوپرپیش کیاگیا۔ چودھری خلیق الزمان کے بعد مرکزی دستور ساز اسمبلی کے رکن مولاناظفر علی خان نے اجلاس سے خطاب کیا اس اجلاس میں انھوں نے قائداعظم کی ہدایت پر قراردادِ لاہور کافی البدیہ اردو ترجمہ بھی پیش کیا تھا۔
وقت نے ثابت کیاکہ دنیاکی تاریخ میں ایسے کسی ریزولیوشن کی مثال نہیں ملتی کہ جس کی بناپر کوئی ملک معرض وجود میں آگیاہو۔ اس لحاظ سے یہ ایک اہم ترین سیاسی دستاویز ہے۔