چوبیسویں پارے کاخلاصہ

تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


سورۃ الزمر: چوبیسویں پارے کا آغاز سورۂ زمر سے ہوتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچی بات اس تک پہنچ گئی تو اسے جھٹلا دیا۔

جھوٹ باندھنے والے لوگوں میں وہ تمام گروہ شامل ہیں جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک کیا۔ کفارِ مکہ نے بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ اسی طرح عیسائیوں نے سیدنا مسیح علیہ السلام کو جبکہ یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ یہ تمام گروہ اس بات سے غافل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کو کافروں کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ 

سچائی کی دعوت

اللہ تعالیٰ رسول اللہﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سچائی کی دعوت لے کر آئے اور جس کسی نے آپﷺ کی تصدیق کی‘ وہ اہلِ تقویٰ ہیں اور ان لوگوں کیلئے پروردگارِ عالم کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے‘ جو وہ چاہیں گے۔

کتاب ہدایت

 اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے آپﷺ پر کتاب کو نازل کیا ہے، پس جو ہدایت کو قبول کریگا اپنی ذات کیلئے کریگا اور جو کوئی رو گردانی کریگا‘ اس کا نقصان اسی کو سہنا پڑے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ کو کافر طرح طرح کی باتیں کرکے ایذا پہنچاتے اور رسول اللہﷺ ان پر رنجیدہ ہو جاتے کہ آپ ان کو صراطِ مستقیم کی دعوت دیتے ہیں اور وہ آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جو ہدایت کو قبول کرے گا تو وہ اپنے فائدے کیلئے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہو گا اس کا نقصان اسی کی ذات کو ہو گا۔

اللہ بخشنے والا ہے

 اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر ظلم کر چکے ہو‘ میری رحمت سے ناامید نہ ہو‘ بیشک اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔

قیامت کی منظر کشی

 اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی منظر کشی بھی کی ہے کہ قیامت کے دن تمام زمین اللہ کی مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ اس سے آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو آسمان اور زمین میں جتنے رہنے والے ہیں‘ سب بے ہوش ہو جائیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا۔ پھر دوسری بار اس میں پھونک ماری جائے گی تو وہ کھڑے ہوکر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور تمام اعمال نامے کھول کر رکھے جائیں گے اور انبیاء کرام اور شہداء لائے جائیں گے اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ہر جان کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

سورۃ المومن

سورۃ الزمر کے بعد سورۂ مومن ہے۔ اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے والا اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔

مقرب فرشتے

 اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے عرشِ عظیم کو اٹھانے والے فرشتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ عرشِ عظیم کو اٹھانے والے فرشتے اور جو فرشتے اس (عرش) کے ارد گرد جمع ہیں‘ یہ سب اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان والوں کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تُو نے اپنی رحمت اور علم کے ذریعے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے پس تو ان لوگوں کو معاف کر دے جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی اور تو انہیں جہنم کے عذاب سے نجات دے۔ اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے ہمراہ ان کے ماں باپ، بیویوں اور اولادوں میں سے ان لوگوں کو بھی داخل فرما‘ جو نیکی کی راہ پر چلے ہوں، بیشک تو زبردست حکمتوں والا ہے۔اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ عرشِ عظیم کو اٹھا نے والے فرشتے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی حمد اور تسبیح کو بیان کرتے ہیں اور زمین پر موجود اہلِ ایمان کے لیے دعا ئے مغفرت بھی کرتے ہیں۔

قیامت کی ہولناکیاں

اس سورۂ مبارکہ میں قیامت کی ہولناکیوں کا بھی ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ شدید غضبناک ہوں گے اور تکرار سے یہ آواز بلند فرمائیں گے ’’آج کے دن کسی کی بادشاہی ہے؟‘‘ اور پھر خود ہی جواب دیں گے کہ ’’اللہ واحد و قہار کی بادشاہی ہے‘‘۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس عزم کا بھی ذکر کیا کہ اس نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تھا تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے اور تیرے پروردگار کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر اس متکبرکے شر سے جو یومِ حساب پر یقین نہیں رکھتا۔

دربار فرعون میں اہل ایمان

 اس سورۂ میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے قبیلے کے ایک مومن شخص کا ذکر کیا ہے جو دربارِ فرعون میں اعلیٰ منصب پر فائز تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا۔ جب فرعون نے موسیٰ  ؑ کو شہید کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس صاحبِ ایمان شخص نے اس موقع پر حضرت موسیٰ  ؑکی علانیہ حمایت کی اور اپنے ایمان کا بر ملا اظہار کیا۔ اس نے فرعونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو جو صرف یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس کھلی نشانیاں بھی لے کر آیا؟ اگر بالفرض وہ جھوٹا ہو گا تو اس کے گناہ کا وبال اسی پر ہو گا، اگر وہ سچا ہوا اور جس عذاب کی وہ وعید سناتا ہے‘ وہ لازماً تم پر نازل ہو کر رہے گا۔ یقینا اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور جھوٹا ہو۔ اس شخص نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ تم پر بھی پچھلی امتوں‘قومِ نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور دوسرے جھٹلانے والوں کی طرح عذاب نہ نازل ہو جائے۔ تم ایک ایسے شخص کو جھٹلا رہے ہو جو اللہ کا رسول ہونے کا دعویدار ہے، حالانکہ اس سے قبل یوسف علیہ السلام بھی تمہارے پاس اپنے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اس مومن کے ایمان کو قبول کر لیا اور اس کو فرعون کے مکر سے نجات دلا دی۔ 

اللہ کی مدد

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم مدد کریں گے اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان کی دنیا میں بھی اور تب جب قیامت قائم ہو گی۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائوں کو سنوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں ان کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔

سورہ حم السجدہ

سورۂ مومن کے بعد سورۂ حم السجدہ ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآنِ مجید کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہﷺ لوگوں کو ڈرائیں اور ان کو بشارت دیں مگر لوگوںکی اکثریت قرآنِ مجید کی دعوت سے اعراض کرتی ہے اور کہتی ہے ہمارے کان اور دل آپ کی دعوت کو سننے اور ماننے سے قاصر ہیں۔ یہ کافروں کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کھلی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔

زکوٰۃ نہ دینے والوں کو تنبیہ

 اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسے لوگ مشرک اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں‘ ان کے مدمقابل جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کرنے والے ہیں‘ ان کیلئے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے اجر کو تیار کیا ہے۔

 قومِ عاد و ثمود پر عذاب

 اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد و ثمود پر آنے والے عذابوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ قومِ عاد کے لوگ اپنی قوت پر نازاں تھے اور اس بات کو بھول چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو ان کو بنانے والا‘ ان کا خالق و مالک ہے‘ ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اس طرح قومِ ثمود کو اللہ تعالیٰ نے اپنی واضح نشانیاں دکھلائیں لیکن وہ قوم اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھ کر بھی بغاوت پر آمادہ و تیار رہی۔

جنت کی بشارت

 اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور انہوں نے اس پر استقامت کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ ان پر موت کے وقت فرشتوں کا نزول فرمائے گا اور فرشتے ان کو کہیں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھائو‘ تم کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

چھبیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الاحقاف: اس سورہ میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا تاکیدی حکم ہے اور ماں نے حمل اور وضع حمل کے دوران جو بے پناہ مشقتیں اٹھائیں، ان کا ذکر ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے، چونکہ حدیث کی رو سے دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے، اس لیے فقہا نے فرمایا کہ ممکنہ طور پر کم ازکم مدتِ حمل چھ ماہ ہے۔ پھر قرآنِ مجید نے بتایا کہ صالح اولاد پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اس کی ان نعمتوں کا جو اس نے اس پر اور اس کے والدین پر کیں، شکر ادا کرنے کی توفیق طلب کرتی ہے۔ اس بات کی دعا بھی کہ مجھے اپنا پسندیدہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور میری اولاد کی بھی اصلاح فرما اور میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اور میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔

چھبیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الاحقاف: قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کا آغاز سورۃ الاحقاف سے ہوتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شرک کرتے ہیں‘ ان کو کہیے کہ اگر وہ سچے ہیں تو کوئی سابقہ کتاب یا علم کا ٹکڑا اپنے موقف کی دلیل کے طور پر لے کر آئیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا‘ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پکارتا ہے‘ جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کے پکارنے سے غافل ہیں۔

پچیسویں پارے کاخلاصہ

اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں : پارے کا آغاز سورہ حم سجدہ سے ہوتا ہے ۔ پارے کی ابتدا میں بتایا گیا ہے کہ قیامت‘ شگوفوں سے نکلنے والے پھلوں‘ حمل اور وضع حمل کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جائے گا۔

پچیسویں پارے کاخلاصہ

اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں: قرآنِ پاک کے پچیسویں پارے کا آغاز سورہ حم سجدہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پچیسویں پارے کے شروع میں ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘ اسی طرح ہر اُگنے والے پھل کا علم اس کے پاس ہے اور ہر عورت کے حمل اور اس کے بچے کی پیدائش کا علم اللہ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بنانے والے ہیں‘ اس لیے ان سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔

چوبیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الزمر: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور حق کو جھٹلانے والے کو جہنمی قرار دیا گیا اور سچے دین کو لے کر آنے والے‘ یعنی رسول اللہﷺ اور ان کی تصدیق کرنے والے (مفسرین نے اس سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مراد لیا ہے) کو متقی قرار دیا گیا ہے۔ آیت 38 میں بتایاکہ اللہ کی قدرت پر کسی کا بس نہیں چلتا۔

تئیسویں پارے کاخلاصہ

معبودِبرحقاس پارے کی ابتدا میں بجائے اس کے کہ مشرکین کے باطل معبودوں کی مذمت کی جاتی‘ نہایت حکیمانہ انداز میں فرمایا: ’’میں اس معبود کی عبادت کیوں نہ کروں‘ جس نے مجھے پیدا کیا اور تم بھی اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘ کیا میں معبودبرحق کو چھوڑ کر ان (بتوں) کو معبود قرار دوں کہ اگر رحمن مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی شفاعت میرے کسی کام نہ آئے اور نہ ہی وہ مجھے نجات دے سکیں‘‘۔