چوبیسویں پارے کاخلاصہ

تحریر : مفتی منیب الرحمن


سورۃ الزمر: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور حق کو جھٹلانے والے کو جہنمی قرار دیا گیا اور سچے دین کو لے کر آنے والے‘ یعنی رسول اللہﷺ اور ان کی تصدیق کرنے والے (مفسرین نے اس سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مراد لیا ہے) کو متقی قرار دیا گیا ہے۔ آیت 38 میں بتایاکہ اللہ کی قدرت پر کسی کا بس نہیں چلتا۔

رسول اللہ ﷺکو تسلی

آیت41 میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے آپ پر حق پر مبنی کتاب نازل کی‘ سو جو ہدایت کو اختیار کریگا‘ اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جو گمراہی کو اختیار کریگا‘ اس کا وبال اسی پر ہوگا‘ آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

نیندعارضی موت

 اگلی آیت میں نیند کو عارضی موت سے تعبیر کیا اور بتایا کہ نیند اور موت میں اتنا ہی فرق ہے کہ موت کی صورت میں بندے کی روح عارضی طور پر نہیں‘ بلکہ مدتِ دراز کیلئے قبض کرلی جاتی ہے۔

مال و دولت

 آیت 47 میں بے پناہ دولت جمع کرنے والوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ زمین کی ساری دولت کے مالک بن جائیں اور اس کے برابر اور بھی ان کو مل جائے اور وہ قیامت کے دن یہ سب کچھ دے کر عذاب سے اپنی گردن چھڑانا چاہیں تو بھی ان کی گلو خلاصی نہیں ہو سکے گی۔

 گناہگارانِ امت کو بشارت

آیت 53 میں گناہگارانِ امت کو بشارت دی گئی کہ ’’(اے رسولؐ!) کہہ دیجئے اے میرے وہ بندو جو گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کر چکے ہو‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا‘ یقینا وہ بہت بخشنے والا‘ بہت مہربان ہے‘‘۔ یعنی جو اللہ کی راہ سے بھٹک چکا ہے‘ اسے امید دلائی گئی ہے کہ سچی توبہ کے ذریعے واپسی کا راستہ باقی ہے۔

اہل جنت و جہنم کا استقبال

 آیت 71 میں بتایاگیا ہے کہ کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور وہاں ان کا استقبال توہین آمیز انداز میں ہو گا‘ جبکہ اہلِ ایمان کو اکرام کے ساتھ جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور وہاں ان کا استقبال اعزاز و اکرام کے ساتھ ہو گا۔

سورۃ المؤمن

 اس سورۂ مبارکہ کی آیت 2 میں اللہ کے بندوں کو ایک بار پھر نویدِ مغفرت دیتے ہوئے فرمایا: ’’وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا‘ (سرکشوں کو ) سخت عذاب دینے والا ہے اور (نیکو کاروں پر) بڑا احسان فرمانے والا ہے‘‘۔

مقرب فرشتے

 آیت7 میں فرمایا: ’’وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں‘ وہ سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنوں کیلئے مغفرت طلب کرتے ہیں‘ (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے‘ سو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی اتباع کی ہے‘ ان کی مغفرت فرما اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا‘‘۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ اللہ کے مقرب فرشتے نہ صرف اس کے تائب بندوں کیلئے‘ بلکہ ان کے صالح آبائو اجداد‘ ان کی بیویوں اور ان کی اولاد کیلئے بھی جنت کی دائمی نعمتوں کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ 

پورا پورا انصاف

آیت 17 میں بتایا کہ قیامت کے دن سب کے ساتھ پورا پورا انصاف ہوگا۔ وہاں ظالموں کا کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں ہوگا‘ اللہ خیانت کرنے والی آنکھوں اور سینوں میں چھپے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ 

موسیٰ  ؑ کا تذکرہ

آیت 23 میں بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے اپنی نشانیاں اور روشن معجزے عطا کرکے فرعون‘ ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو انہوں نے انہیں (معاذ اللہ) جادوگر اور جھوٹا قرار دیا اور اس کے بعد انہی واقعات کا ذکر ہے‘ جو اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ آیت 37 میں بتایا کہ فرعون نے ہامان سے کہا: میرے لیے ایک بلند عمارت بناؤ تاکہ میں آسمانوں کے راستوں تک پہنچوں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کے بارے میں خبر لوں اور میرا گمان تو یہ ہے کہ (معاذ اللہ) یہ جھوٹے ہیں اور اسی طرح فرعون کے برے عمل کو اس کے نزدیک خوشنما بنا دیا گیا اور (اس کی سرکشی کے سبب) اسے سیدھے راستے سے روک دیا گیا۔

نیک و برے لوگوں کا انجام

 آیت 46 میں فرمایاگیا ہے : جس نے برا کام کیا‘ اس کو صرف اسی کے برابر سزا دی جائے گی اور جس مرد وعورت نے ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کیا تو وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے‘ جہاں انہیں بے حساب رزق عطا کیا جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ بے شک اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ سو‘ اللہ نے مخالفین کی سازشوں سے انہیں محفوظ رکھا اور فرعونیوں کو بدترین عذاب نے گھیر لیا‘ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ پر پیش کیا جاتاہے اور جس دن قیامت آئے گی‘ (یہ حکم دیا جائے گا کہ) آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں ڈال دو۔

دروغہ جہنم

 آیت 49 میں بتایا گیا ہے کہ جہنمی‘ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے رب کو بلاؤ کہ ہمارے ساتھ عذاب میں ایک دن کی تخفیف کر دے‘ جہنم کا محافظ عملہ ان سے کہے گا کہ کیا دنیا میں تمہارے پاس رسول نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے؟ وہ اقرار کریں گے۔ آگے چل کر فرمایا کہ قیامت میں ظالموں کی عذر خواہی ان کے کوئی کام نہیں آئے گی‘ ان کیلئے لعنت ہے اور برا گھر ہے۔ 

انبیاء پر ایمان

 آیت 77 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت رسول بھیجے‘ ہم نے ان میں سے بعض کے واقعات آپ کے سامنے بیان کیے ہیں اور بعض کے واقعات بیان نہیں کیے‘‘۔ البتہ سورۂ ہود کی آیت 120 میں فرمایا: ’’ہم آپ کے سامنے تمام رسولوں کی خبریں بیان کر رہے ہیں‘‘ یعنی رسول اللہﷺ کو تمام انبیائے کرام کے احوال بتا دیے گئے تھے۔ قرآن میں جن انبیائے کرام کے نام بتائے گئے ان پر نام بہ نام ایمان لانا فرضِ عین اور دیگر انبیائے کرام ؑپر تعداد کے تعین کے بغیر اجمالی طور پر ایمان لانا فرض ہے۔

سورہ حٰمٓ السجدہ

 اس سورۂ مبارکہ کی آیت 5 میں کفار کی انتہائی سرکشی کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور انہوں نے کہا: جس دین کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں، ہمارے دلوں میں اس پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں لاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، سو آپ اپنے کام سے کام رکھیے اور ہم اپنے ڈھب پر کاربند رہیں گے‘‘، یعنی وہ کسی بھی طور پر قبولِ حق کیلئے تیار نہیں تھے۔ آیت 9 سے ایک بار پھرکائنات کی تخلیق کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت و جلالت کا ذکر ہے،  ان کھلی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود منکر قوموں کی سرکشی کا ذکر ہے۔

قوم عاد کی سرکشی:

 آیت 15 سے قومِ عاد کی سرکشی کا ذکر ہے کہ انہیں اپنی مادی طاقت پر بڑا ناز تھا اور کہتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر بھی کوئی زبردست ہے؟ ان کو جواب دیا گیا کہ تم سے بڑا زبردست وہ اللہ ہے، جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر قومِ عاد پر منحوس دنوں میں خوفناک آواز والی آندھی بھیجی اور ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا، قومِ ثمود کا انجام بھی برا ہوا۔

اعضاء کی گواہی

 آیت 19 سے بیان ہوا کہ قیامت کے دن اللہ کے دشمنوں کو جمع کرکے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو جب وہ جہنم تک پہنچیں گے تو ان کے کان، آنکھیں اور ان کی جلدیں ان کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گی، کفار اپنی جلدوں سے کہیں گے: تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ (ان کے اعضاء) جواب دیں گے: ہمیں اسی اللہ نے قوتِ گویائی عطا کی، جس نے ہر چیز کو بولنا سکھایا اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا اور اسی کی جانب لوٹائے جاؤ گے۔

اہل ایمان کی روح

 آیت 30 سے بتایا کہ ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اہلِ ایمان کی روح جب اس دنیا سے پرواز کرے گی تو اس کے استقبال کیلئے فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم نہ کسی آنے والی بات کا خوف کرو اور نہ کسی گزشتہ بات کا رنج و ملال اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، پھر انہیں بتایا جائے گا کہ اللہ غفور الرحیم نے ان کیلئے جنت میں ضیافت کا اہتمام فرمایا ہے اور وہاں وہ جس نعمت کی بھی خواہش کریں گے انہیں دستیاب ہو گی۔

نیکی اور بدی برابر نہیں

 آیت 24 میں بتایا کہ نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں، دوسروں کی بدی کا جواب نیکی سے دو، اس کے نتیجے میں تمہارا مخالف تمہارا سرگرم اور پُرجوش دوست بن جائے گا۔

حیات بعد الموت

 آیت 39 سے اللہ تعالیٰ نے حیات بعد الموت کے ثبوت کیلئے حسی مثال دی کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک، بنجر اور غیر آباد ہوتی ہے تو ہم اس پر بارش کا پانی نازل کرتے ہیں، جس کے ذریعے وہ سرسبز اور شاداب ہو جاتی ہے اور نمو یعنی نباتات اگانے اور بڑھانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، جو زمین کیلئے حیات ہے؛ پس جو اللہ بے جان زمین میں جان ڈالتاہے، وہی آخرت میں مردوں کو زندہ کرے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

صدقہ فطر، مقصد و احکام

جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے

جمعتہ الوداع ! ماہ مبارک کے وداع ہونے کا وقت قریب آ گیا

ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو جمعۃالوداع کہتے ہیں۔ الوداع کے لغوی معنی رخصت کرنے کے ہیں چونکہ یہ آخری جمعۃ المبارک ماہ صیام کو الوداع کہتا ہے اس لئے اس کو جمعۃ الوداع کہتے ہیں۔ جمعۃ الوداع اسلامی شان و شوکت کا ایک عظیم اجتماع عام ہے۔ یہ اپنے اندر بے پناہ روحانی نورانی کیفیتیں رکھتا ہے اور یہ جمعہ اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام گنتی کے وداع ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ جس میں مسلمانوں کیلئے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

سجدہ تلاوت کے چند مسائل

قرآن منبع ہدایت ہے، جب اس کی تلاوت تمام آداب، شرائط اور اس کے حقوق ادا کر کے نہایت غور و خوض سے کی جائے تو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرماتے ہیں اور علم و حکمت کے دریا بہا دیتے ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کے احکام میں سے ایک حکم سجدہ تلاوت بھی ہے کہ متعین آیات کریمہ کی تلاوت کرنے اور سننے کے بعد سجدہ کرنا واجب ہوتا ہے۔

اٹھائیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ المجادلہ: اس سورۂ مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ صحابیہ خولہؓ بنت ثعلبہ کے ساتھ ان کے شوہر اوسؓ بن صامت نے ظِہار کر لیا تھا۔ ظِہارکے ذریعے زمانۂ جاہلیت میں بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی تھی۔ حضرت خولہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: پہلے میں جوان تھی‘ حسین تھی اب میری عمر ڈھل چکی ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ انہیں شوہر کے پاس چھوڑتی ہوں تو ہلاک ہو جائیں گے اور میرے پاس کفالت کیلئے مال نہیں ہے۔

اٹھائیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ المجادلہ: قرآنِ پاک کے 28ویں پارے کا آغاز سورۃ المجادلہ سے ہوتا ہے۔ سورۂ مجادلہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ جن کے شوہر نے ناراضی میں ان کو کہہ دیا تھا کہ تم میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہو۔ یہ درحقیقت عربوں کا ایک رواج تھا جسے ’ظِہار‘ کہا جاتا تھا۔

لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے افضل شب

’’جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شب قدر میں قیام کیا تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘(صحیح بخاری و مسلم شریف)