مائنز اینڈ منرلز بل،وزیر اعلیٰ کا امتحان
خیبرپختونخوا حکومت کا مائنز اینڈ منرلز بل2025 متنازع ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت، جس نے اس بل کو پیش اور منظور کرنا تھا وہ خود ہی اسے متنازعہ بنارہی ہے۔
بل کے مندرجات کسی نے نہیں دیکھے لیکن سب سے بڑا اعتراض جو اس بل پر کیاجا رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ بل وفاق کی طرف سے آیا ہے۔ بل وفاق سے بھیجا گیا ہے یا یہیں تیار ہوا اس سے قطع نظر سوال یہ بنتا ہے کہ اس بل کو صوبائی کابینہ سے منظور کیوں کرایاگیا؟کابینہ سے منظوری کے بعد اسے جیسے ہی اسمبلی میں پیش کیاگیا حکومتی بینچوں سے ہنگامہ شروع ہو گیا۔ حکومت اپنے ارکان کو مطمئن کرنے میں تاحال ناکام نظرآتی ہے۔ بل پر خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومتی ارکان کی جانب سے تنقید کی گئی اور کہاگیاکہ یہ صوبے کے وسائل وفاق کے حوالے کرنے کے مترادف ہے جبکہ اٹھارہویں ترمیم کی رُو سے صوبوں کے وسائل پر وفاق کا حق نہیں۔جن ارکانِ اسمبلی نے اس بل کی مخالفت کی ان میں سے زیادہ تر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مخالف گروپ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ اس بل کی صرف مخالف گروپ نے مخالفت کی ہے، کابینہ کے کچھ ارکان بھی اسے منظور کرنے کے حق میں نہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض وزرا کا یہ کہنا ہے کہ اس بل کو کسی صورت منظور نہیں ہوناچاہئے۔ رہی سہی کسر اُن ارکان اسمبلی نے پوری کردی جن کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ بل کے حوالے سے پہلے بانی پی ٹی آئی سے تبادلۂ خیال کیاجائے اور ان کی منظوری کے بعد اسے اسمبلی میں پیش کیاجائے۔
سپیکر کی جانب سے بلائے گئے ارکانِ اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے بیس سے زائد ایم پی ایز اس بل کے حوالے سے بریفنگ سنے بغیر ہال سے چلے گئے۔ جن افرادنے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اُن کا مطالبہ تھا کہ پہلے اس بل کی منظوری بانی پی ٹی آئی سے لی جائے اس کے بعد ہی وہ اسے سنیں گے اور منظور کریں گے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اس بل کی منظوری کے حق میں ہیں اور ان کی جانب سے اس کے حق میں بیانات بھی آچکے ہیں لیکن وہ پارٹی کے لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام نظرآتے ہیں۔
کابینہ کی منظوری کے بعد اگر یہ بل ایوان سے منظور نہیں ہوتا اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنے وزرا سمیت ارکانِ اسمبلی کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو یہ حکومت کیلئے ایک چارج شیٹ ہوگی۔ اس بل کو پیش کرنے کے بعد وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ایک طرف اُن پر اس بل کو منظور نہ کرنے کا دباؤ ہے تو دوسری طرف پارٹی اوربانی پی ٹی آئی کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ان پر مکمل اعتمادکااظہارکیا ہے اوران کے پاس پہلے سے زیادہ اختیارات ہیں لیکن حالیہ واقعات کچھ اور ہی عندیہ دے رہے ہیں۔
پارٹی کے اندرونی اختلافات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ انہیں ختم کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ پارٹی کی مرکزی قیادت بھی مختلف گروپوں کی ضد کے آگے بے بس ہے۔ اس بل سے پیداہونے والے اختلافات نے اس خلیج کو گہرا کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی کوشش ہے کہ کسی طرح یہ بل پاس ہوجائے لیکن اب اپوزیشن جماعتیں بھی اس کی مخالفت میں سامنے آگئی ہیں۔ اے این پی نے اس بل کی مخالفت کی ہے اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کااعلان کیاہے۔ جے یو آئی اور پیپلزپارٹی بھی اس کے حق میں نہیں۔یوں لگ رہا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی طرح اس بل کو بھی سیاسی مقاصد کیلئے متنازع بنایاجارہا ہے۔ اگراس بل میں متنازع شقیں ہیں تو انہیں اسمبلی میں بحث کرکے نکالا جاسکتا ہے۔ سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کی جانب سے بھی ارکانِ اسمبلی کو یہی کہاگیاہے کہ وہ اس بل پر اعتراضات اور تجاویز تحریری طورپر جمع کروائیں تاکہ اس پر بحث کی جاسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بل پر ماہرین کی رائے لی جائے۔ ابھی تک جن ارکان اسمبلی سے اس بل کے بارے سوال کیاہے اُن میں سے کسی نے بھی بل کو نہیں پڑھا تھا۔وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپورنے تویہاں تک کہہ دیا کہ ایک مافیا اپنے ذاتی مفاد کیلئے اس بل کی مخالفت کر رہا ہے۔ قیمتی معدنیات کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں جو قوانین ہیں وہ ناکافی ہیں اور ان میں سقم پائے جاتے ہیں۔ ان قوانین سے صوبائی حکومت یا صوبے کوکوئی فائدہ نہیں ہورہا بلکہ صوبے کے معدنی وسائل صوبے سے باہر جارہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع اور شمالی علاقہ جات ان معدنیات سے بھرے پڑے ہیں اگر مناسب قانون سازی ہوجائے اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچتے ہیں تو اس سے دہشت گردی سے متاثرہ اس صوبے میں خوشحالی آئے گی مگر بدقسمتی سے اس پر سیاست کی جارہی ہے۔ اس بل کو کسی کی رہائی سے جوڑنا بھی غیر ضروری ہے۔ خیبرپختونخوا کے وسائل محدود ہیں، لوگوں کے پاس روزگار نہیں ایسے میں معدنیات کے نئے ذخائر ڈھونڈکر اور ان پر کام شروع کرکے صوبے کو خوشحال بنایاجاسکتا ہے اورعوام کو روزگار مل سکتا ہے۔حکومت اور اپوزیشن اس بل کی مخالفت میں متحد ہیں، اب اس حوالے سے ایک خصوصی اجلاس 21اپریل کوہونے جارہا ہے جس میں اس پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان ِاسمبلی کو بریفنگ دی جائے گی۔
بجائے یہ کہ اس بل کو متنازع بنایاجائے اگر اس میں کوئی شقیں ایسی ہیں جن پر اعتراض ہے تو انہیں نکالاجائے۔وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپورارکانِ اسمبلی کو اس بل کی منظوری پر قائل کربھی لیتے ہیں تو اب اس کو اتنامتنازع بنایاجاچکاہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اسے نہیں چھوڑے گا اور بل کی منظوری کی صورت میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی پارٹی کے اندر مخالفت بڑھ جائے گی۔ ایسا لگ رہاہے کہ حکومت خود بھی اس بل کو متنازع بناناچاہتی تھی۔ جس عجلت میں یہ بل پیش کیاگیا اور کابینہ سے منظوری لی گئی یہ اچنبھے کی بات ہے۔ وزیراعلیٰ اب جتنا اس بل کی منظوری کیلئے زور لگارہے ہیں اتنی ہی اس کی مخالفت بڑھتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی طوفان اٹھادیاگیا ہے اور اس میں دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی کی پالیسیوں میں اس جماعت کے سوشل میڈیا کا خاصا عمل دخل ہے۔ اس بل کی منظوری وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کو رام کرپاتے ہیں اور اس بل کو منظور کرواتے ہیں؟ بہرحال یہ واضح ہے کہ پی ٹی آئی اور کارکنوں کو مطمئن کرنے کیلئے اب اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں بھی ضرور کی جائیں گی، خواہ وہ علامتی ہی کیوں نہ ہوں،بصورت دیگر جارحانہ اننگز کھیلنے والے علی امین گنڈاپور کیلئے ایک اور باونسی پچ تیار ہوگی۔