سوء ادب:قسمت کا حال
ایک نو جوان اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کے لیے ایک نجومی کے پاس گیا، جس نے اس کا ہاتھ غور سے دیکھا اور بولا کہ ’’پینتالیس سال کی عمر تک تم بہت غریب رہو گے‘‘
’’اور اس کے بعد ؟‘‘ نوجوان نے بڑے اشتیاق سے پوچھا، تو نجومی بولا ’’اس کے بعد تمہیں اس کی عادت پڑ جائے گی‘‘۔
چوہا
ایک چوہا شراب کے ڈرم میں گر پڑا، کچھ دیر بعد اسے نکالا گیا تو وہ دم کے بل پر کھڑا ہو گیا اور بولا،
’’کہاں ہے بلی؟‘‘
تمام دکھ ہے
یہ نسیم سیّد کی نظموں اور غزلوں کا کلیات ہے، جسے حسین مجروح نے سائبان کی وساطت سے چھاپا ہے۔ پسِ سرورق شاعرہ کی تصویر اس شعر کے ساتھ درج ہے:
جانیو اس کو تبرّک بارگاہِ عشق کا
جب مسک جائے کوئی دھڑکن رفو مت کیجیے
دیباچے ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور زاہدہ حنا نے لکھے ہیں جبکہ پیش رفت شاعرہ کا قلمی ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق ’’نسیم سیّد فکری سطح پر، جذبہ کی سطح پر، الفاظ کی نشست و برخواست کی سطح پر اور شاعری میں تازہ رجحانات کی سطح پر یوں اٹل اور پورے قد کے ساتھ کھڑی ہے کہ سر اُٹھا کے دیکھنے اور سراہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس نے قافیہ پیمائی سے گریز کر کے معنی آفرینی کو اپنا شعار بنایا۔ شعبدہ بازی کے بجائے مشاہدے پر بھروسہ کیا۔ اس کے یہاں حقائق کے بیان میں جس کمال کی دلیری ہے، جو تہہ دار معنی آفرینی ہے، جو حسنِ بیاں ہے اس سے سرسری گزرنا ممکن نہیں۔ یہ بات میں پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ وہ نظم کی ایک قد آور اور باکمال شاعرہ ہے۔ ان کی نظمیں رشتہ ضرورت، بدن کی اپنی شریعتیں ہیں، تقیّہ، میرے فنکار، سانولی رنگت، نسانی شعور کے ارتقا کی بے مثال اور نمائندہ نظمیں ہیں‘‘۔
زاہدہ حنا کے مطابق ہماری دوستی کا آغاز دلی سے ہوا، اسی دلی سے جو اپنی داستان سرائی کیلئے صدیوں سے مشہور ہے اور جہاں مرزا اسد اللہ خاں غالب بلیماراں والے گھر میں بچوں، بوڑھوں کے ساتھ اسی داستان گو سے داستانیں سنتے ۔
یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے، زخامت 432 صفحات، قیمت 1200 روپے ہے۔ اور اب آخر میں اسی کتاب میں سے یہ خوبصورت نظم:
نظم
تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی
تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی
مل کے تم سے بڑی تنہائی سی ہو جاتی ہے
گھر تلک ساتھ اک آہٹ سی چلی آتی ہے
سب کواڑوں کو، ارادوں کو مقفل کر لو
پر یہ آہٹ ہے کہ دیواروں سے چھن آتی ہے
خاک اڑا کرتی ہے جس صحن میں سناٹے کی
واں عجب شوق کا دربار لگا ہوتا ہے
رقص کرتی ہے مرے پاؤں تلے میری زمیں
ہوش کی بزم میں میخانہ سجا ہوتا ہے
کُفل سارے مرے احساس کے، سب زنجیریں
نام لیتے ہیں کبھی جام کو ٹکراتے ہیں
خواب میرے مجھے سمجھانے چلے آتے ہیں لمحاتِ طرب
دھیان پلو سے بندھی سوچ سے ہٹ جاتا ہے
خود کو ترتیب سے رکھنے میں اٹھانے میں مجھے
مل کے ہر بار بڑا وقت بھی لگ جاتا ہے
تم سے رشتہ تو کوئی تھا نہ ہی، اب ہے کوئی
تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی
آج کا مطلع
یوں بھی ہو سکتا ہے یکدم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے