سوء ادب:قسمت کا حال

تحریر : ظفر اقبال


ایک نو جوان اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کے لیے ایک نجومی کے پاس گیا، جس نے اس کا ہاتھ غور سے دیکھا اور بولا کہ ’’پینتالیس سال کی عمر تک تم بہت غریب رہو گے‘‘

’’اور اس کے بعد ؟‘‘ نوجوان نے بڑے اشتیاق سے پوچھا، تو نجومی بولا ’’اس کے بعد تمہیں اس کی عادت پڑ جائے گی‘‘۔

چوہا

ایک چوہا شراب کے ڈرم میں گر پڑا، کچھ دیر بعد اسے نکالا گیا تو وہ دم کے بل پر کھڑا ہو گیا اور بولا،

’’کہاں ہے بلی؟‘‘

تمام دکھ ہے

یہ نسیم سیّد کی نظموں اور غزلوں کا کلیات ہے، جسے حسین مجروح نے سائبان کی وساطت سے چھاپا ہے۔ پسِ سرورق شاعرہ کی تصویر اس شعر کے ساتھ درج ہے: 

جانیو اس کو تبرّک بارگاہِ عشق کا 

جب مسک جائے کوئی دھڑکن رفو مت کیجیے 

دیباچے ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور زاہدہ حنا نے لکھے ہیں جبکہ پیش رفت شاعرہ کا قلمی ہے۔

 ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق ’’نسیم سیّد فکری سطح پر، جذبہ کی سطح پر، الفاظ کی نشست و برخواست کی سطح پر اور شاعری میں تازہ رجحانات کی سطح پر یوں اٹل اور پورے قد کے ساتھ کھڑی ہے کہ سر اُٹھا کے دیکھنے اور سراہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس نے قافیہ پیمائی سے گریز کر کے معنی آفرینی کو اپنا شعار بنایا۔ شعبدہ بازی کے بجائے مشاہدے پر بھروسہ کیا۔ اس کے یہاں حقائق کے بیان میں جس کمال کی دلیری ہے، جو تہہ دار معنی آفرینی ہے، جو حسنِ بیاں ہے اس سے سرسری گزرنا ممکن نہیں۔ یہ بات میں پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ وہ نظم کی ایک قد آور اور باکمال شاعرہ ہے۔ ان کی نظمیں رشتہ ضرورت، بدن کی اپنی شریعتیں ہیں، تقیّہ، میرے فنکار، سانولی رنگت، نسانی شعور کے ارتقا کی بے مثال اور نمائندہ نظمیں ہیں‘‘۔

 زاہدہ حنا کے مطابق ہماری دوستی کا آغاز دلی سے ہوا، اسی دلی سے جو اپنی داستان سرائی کیلئے صدیوں سے مشہور ہے اور جہاں مرزا اسد اللہ خاں غالب بلیماراں والے گھر میں بچوں، بوڑھوں کے ساتھ اسی داستان گو سے داستانیں سنتے ۔ 

یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے، زخامت 432 صفحات، قیمت 1200 روپے ہے۔ اور اب آخر میں اسی کتاب میں سے یہ خوبصورت نظم: 

نظم

تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی 

تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی 

مل کے تم سے بڑی تنہائی سی ہو جاتی ہے

گھر تلک ساتھ اک آہٹ سی چلی آتی ہے 

سب کواڑوں کو، ارادوں کو مقفل کر لو 

پر یہ آہٹ ہے کہ دیواروں سے چھن آتی ہے 

خاک اڑا کرتی ہے جس صحن میں سناٹے کی 

واں عجب شوق کا دربار لگا ہوتا ہے 

رقص کرتی ہے مرے پاؤں تلے میری زمیں 

ہوش کی بزم میں میخانہ سجا ہوتا ہے 

کُفل سارے مرے احساس کے، سب زنجیریں 

نام لیتے ہیں کبھی جام کو ٹکراتے ہیں 

خواب میرے مجھے سمجھانے چلے آتے ہیں لمحاتِ طرب 

دھیان پلو سے بندھی سوچ سے ہٹ جاتا ہے 

خود کو ترتیب سے رکھنے میں اٹھانے میں مجھے 

مل کے ہر بار بڑا وقت بھی لگ جاتا ہے 

تم سے رشتہ تو کوئی تھا نہ ہی، اب ہے کوئی 

تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی 

آج کا مطلع

یوں بھی ہو سکتا ہے یکدم کوئی اچھا لگ جائے 

بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟