کل34 ویں برسی عزیز حامد مدنی جدیدیت سے عبارت بڑی ادبی شخصیت

تحریر : ڈاکٹر محمد عرفان پاشا


اک دورِ مسافت میں کٹی عمرِ گریزاں ایسی نہ جنوں کاری ایام کہیں ہو وہ پوری بصیرت اور تحقیق کے ساتھ حقائق اور مندرجات کو اُجاگر کرتے بطور نقاد ان کے فکر و اسلوب کا دائرہ کار زندگی ادب، سائنسی رحجانات اور جدیدیت سے عبارت ہے، ادبی تنقید کے تناظر میں ان کے نقد پارے، اعلیٰ معیار اور تجرباتی عمق کے آئینہ دار ہیں

عزیز حامد مدنی کی فکر اور مشاہدہ، وسیع تخلیقی امکانات کی صورت، انہیں اپنے معاصرین میں منفرد اور اہم مقام عطا کرتا ہے، وہ فکری آزادی کے قائل تھے اس لئے انہوں نے اپنے افکار کو اپنی ذات کا قیدی نہیں بنایا بلکہ اپنے تخلیقی شعور کو فکری اور عصری بالغ نظری عطا کی۔ شعر گوئی ان کے لئے نہ تو ذریعہ معاش تھی اور نہ ہی کسی ادبی وغیرادبی تحریک سے وابستگی کا ذریعہ۔ بلکہ یہ تو ایسی سیماب پائی تھی جس میں ان کی حساسیت، فکری اپچ اور کرب و سرور کی روموجزن دکھائی دیتی۔

بطور نقاد ان کے فکر و اسلوب کا دائرہ کار زندگی ادب، سائنسی رحجانات اور جدیدیت سے عبارت ہے۔ ادبی تنقید کے تناظر میں ان کے نقد پارے، اعلیٰ معیار اور تجرباتی عمق کے آئینہ دار ہیں۔ تنقیدات کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے شعور و ادارک نے زندگی کے طرز احساس میں تلاش کی نئی جہتوں کو روشناس کیا۔ زمانی تغیرات کے زیر اثر ادبی رجحانات کو زندگی کی نامیاتی قدروں کے تناظر میں پرکھنا آسان نہیں۔ لیکن ان کی علمیت اور ژرف نگاہی کے سامنے یہ مشکل نہ رہا۔ وہ سطحی طور پر چیزوں کو جانچنے اور پرکھنے کے قائل نہ تھے بلکہ پوری بصیرت اور تحقیق کے ساتھ حقائق اور مندرجات کو اجاگر کرتے۔ ادب میں ان کا مقام، اس دیدہ وری، آفاقی فکر اور جدید حسیت کی بدولت ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔

مدنی کی تخلیقی صفات میں بطور مترجم، ایک اور جہت کا اضافہ ہوا۔ انگریزی زبان و ادب سے مکمل آگاہی کے باوصف ان کے طرز اسلوب میں مفاہیم کی صحیح تعبیر و تشریح علمی گہرائی کی مظہر ہے۔ شکسپیئر کے ڈراموں ’’اوتھیلو،‘‘اور’ ’انطونی کلوپٹرا‘ ‘کے تراجم ان کے اعلیٰ ادبی ذوق اور پراثر بیانیے کے ترجمان ہیں۔ فرانسیسی زبان و ادب سے واقفیت نے انہیں مغربی شاعری کے جدید اسالیب و رجحانات پر صرف نظر کرنے کی دعوت یوں دی کہ انہوں نے ’ جدید فرانسیسی شاعری‘ کو اردو کے قالب میں منتقل کرکے ارباب اہل فکر و ادب کو اپنی علمیت اور ترجمہ نگاری کی فنی اہلیت کا ثبوت فراہم کیا، اردو میں اس کی اشاعت کے لئے باقاعدہ طور پر فرانسیسی شعراء کے مشہور ناشر گیلی ماردسے تحریری اجازت نامہ حاصل کیا گیا۔

مدنی مجموعی طور پر عہد جدید کے ادبی آدمی تھے۔ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی بے پناہ قوت اور اس کے اثرات کے بے پناہ قائل اور اس کے تیز تر تغیرات و میلانات کو ادب میں منعکس دیکھنے کے خواہشمند۔ فلسفی کی طرح ان کی نگاہ بہت دور تک دیکھتی اور ذہن بہت آگے کا سوچتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ آگے آنے والا اور آئینہ داری اور آئینہ سازی کا ہوگا جس کے لئے سائنسی بصیرت اور حیات و کائنات کے وجدان و آگہی کا اضطراب از حد ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فکر و اسلوب میں تلاش و جستجو کی حدیں انسانی بے حیثیتی کا کرب اور انقلابات زمانہ پوری معنویت کے ساتھ اجاگر ہوئے ہیں۔

شاعری ان کیلئے بقائے جاں اور تنقید تجربہ حیات تھی۔ اسی اظہار و تجربات کی دنیا میں رہتے ہوئے انہوں نے اپنے جذبوں، خوابوں اور امیدوں کو روشن رکھا اور قید سخنوری کی نقش نو کی دیدہ وری میں منتقل کرتے رہے۔

اک دور مسافت میں کٹی عمر گریزاں

ایسی نہ جنوں کاری ایام کہیں ہو

عزیزحامد مدنی رائے پور(مدھیہ پردیش) کے نہایت علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ دورانگلشیہ میں انگریزی تعلیم کے فیوض اور جدید فکری رجحانات کے زیر اثر ان کے دادا اور نانا نے میڈیسن کی تعلیم حاصل کی اور طبابت کے معزز پیشے سے منسلک رہے۔ ان کے والد محمد حامد ساقی نے  1898ء میں اینگلو محمڈن اورینٹل کالج علی گڑھ سے گریجویٹ کیا۔ فارسی اور اردو میں شاعری کرتے اور مولانا شبلی نعمانی کے معتقد اور شاگرد عزیز تھے۔  والدہ سادہ اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ علمی خانوادے سے تعلق کے باوصف، اپنے بچوں کی تربیت میں اخلاقی و تہذیبی ضابطوں کو ہمیشہ ملحوظ خاص رکھتیں۔ والد کے دوستوں کی صحبت نے بھی مدنی کی ذہنی تربیت اعلیٰ اخلاقی و فکری سطح پر انہیں قدیم و جدید تغیرات سے آشنائی عطا کی۔بڑے بھائی محمد سعید حامد پیشے کے لحاظ سے ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے۔ نہایت شفیق، حلیم الطبع اور پروقار شخصیت کے مالک۔ مدنی کو پاکستان اپنے ہمراہ لائے اور ساری زندگی ان کی معاونت و رہنمائی کرتے رہے۔

عزیز حامد مدنی 15جون 1922ء کو  پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز رائے پور کے پرائمری سکول سے ہوا۔ والد نے ان کی تعلیم و تربیت کیلئے محمد زمان خان (جو پروفیسر چکرورتی کے شاگرد، سر سید احمد خان کے دور میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بطور پروفیسر منسلک رہے) کو ذاتی ٹیوٹرمقرر کیا۔ انہوں نے مدنی میں ریاضی کا شغف پیدا کیا اور نہایت اعلیٰ خطوط پر ان کی ذہنی و اخلاقی تربیت سرانجام دیں۔ سکول میں فارسی محمد اسحاق صاحب نے پڑھائی جو علی گڑھ یونیورسٹی سے فارسی میں ماسٹرز تھے اور اسی یونیورسٹی میں بعد ازاں پروفیسر مقرر ہوئے۔ عربی زبان سے واقفیت نہایت جید عالموں سے حاصل کی۔ کالج میں اردو اور فارسی صفی حیدر دانش نے پڑھائی۔ گریجویشن میں ان کے مضامین فارسی، فلسفہ اور انگریزی ادب تھے۔

انہوں نے ماسٹرز کیلئے انگریزی ادب کا انتخاب کرتے ہوئے 1943ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ایف جے فلیڈن، پروفیسر خواجہ منظور حسین اور پروفیسر سرور صاحب کے شاگرد رہے۔ ہر ایک کامل استاد کی حیثیت رکھتا۔ انہیں ادب کے قدیم و جدید رجحانات اور فکری زاویوں سے مکمل آگاہی حاصل تھی۔

یونیورسٹی میں مدنی کو رفیق علی خان( بہاولپور کالج کے پروفیسر) اور شمس الزماں خان( فلسفے کے فرسٹ کلاس ماسٹرز) کی سنگت حاصل رہی۔ یونیورسٹی میں پڑھتے ایک سال ہی ہوا تھا کہ چھٹیوں میں مدنی انجمن ترقی اردو کی کانفرنس میں شرکت کرنے گئے۔ اس دوران والدہ کی وفات کی اندوہناک خبر ملی، واپس رائے پور گئے اور پھر یونیورسٹی واپس نہ جا سکے۔ والدہ کی جدائی کا صدمہ اس طرح ذہن و دل پر اثر انداز ہوا کہ پڑھائی سے دل اچاٹ ہو گیا۔علی گڑھ یونیورسٹی میں گزرے ماہ و سال ان کیلئے عظیم سرمائے کی حیثیت رکھتے تھے ۔ بعد ازاں ایک وقفے کے بعد مدنی نے ناگپوریونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کیا۔

قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں مدنی اپنے بڑے بھائی محمد سعید حامد کے ہمراہ کراچی تشریف لے آئے۔ اپنی عملی زندگی کی ابتداء بطور لیکچر لاہور کالج سے کی۔ اس دوران کچھ عرصے صحافیانہ ذمہ داریاں بھی سرانجام دیں۔ بعد ازاں اسلامیہ کالج کراچی میں درس و تدریس سے منسلک رہے۔ جب کراچی میں ریڈیو پاکستان کا آغاز ہوا تو لیکچر ر شپ کو خیر باد کہہ کر اس محکمے میں بطور پروگرام آرگنائز ملازمت اختیار کی اور ساری عمر اسی ادارے سے منسلک رہے۔ ریڈیو پاکستان میں مختلف عہدوں پر فائز رہے جس میں اسسٹنٹ ڈائریکر، ڈائریکٹر پبلسٹی پروگرام، انچارج آف ایکسٹرنل، سروسز وغیرہ شامل تھے۔1974ء میں ان کا ٹرانسفر راولپنڈی ریڈیو سٹیشن کر دیا گیا جہاں آٹھ برس ڈائریکٹر پروگرام رہے۔1982ء میں ایک ہولناک کار ایکسیڈنٹ  میں ان کی دائیں ٹانگ کو شدید نقصان پہنچا۔ اس زخم کو مندمل ہونے میں تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ صرف ہوا۔ ایک سال وہ بیساکھی کے سہارے اپنے جسم و جاں کا بوجھ اٹھاتے رہے۔ اس شدید ذہنی و نفسیاتی کرب کے دوران ان کے اہل خانہ اور رفقاء نے ان کی بھرپور معاونت کی۔ صحت یابی کے بعد کچھ عرصے وہ مظفر آباد ریڈیو سٹیشن سے بھی منسلک رہے۔ریٹائر منٹ کے بعد وہ مستقل طور پر کراچی آ گئے۔

1990ء کے اوائل میں مدنی پر یہ جانکاہ انکشاف ہوا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ کچھ لاپروا طبیعت اور کچھ علاج نہ کرانے کی ضد کے باعث اس موذی مرض نے انہیں پوری طرح اپنے ظالم شکنجے میں لے لیا۔ اس دوران رفقاء کی بھرپور توجہ انہیں ریڈیو تھراپی اور کیموپھراپی کے صبر آزما اور مشکل عمل سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ عطا کرتی رہی۔ بیماری میں بھی ان کے شب و روز اپنے احباب کے ساتھ جدید شاعری کے امکانات اور عصری ادب کی صورت حال پر گفت و شنید اور چوتھے اور آخری مجموعہ کلام ’گلِ آدم‘ کو تربیت دینے میں صرف ہوتے۔ زندگی نے انہیں اتنی مہلت نہ دی کہ وہ دنیائے ادب کو ’گل آدم‘ اور ’ جدید فرانسیسی شاعری‘ جیسی تحقیقی تصنیف سے روشناس کراتے۔

21اپریل 1991ء کی سہ پہر انہیں شدید علالت کے باعث ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کیا گیا جہاں 23اپریل کی شب دنیائے ادب کی یہ علم افروز شخصیت دار فانی سے کوچ کر گئی۔کل عزیز حامد مدنی کی34 ویں برسی ہے۔

 

منتخب کلام

دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں

یہ آدمی کی خدائی کا وقت ہے کہ نہیں

کہو ستارہ شناسو فلک کا حال، کہو

رخوں سے پردہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں

ہوا کی نرم روی سے جواں ہوا ہے کوئی

فریبِ تنگ قبائی کا وقت ہے کہ نہیں

خلل پذیر ہوا ربط مہر و ماہ میں وقت

بتا یہ تجھ سے جدائی کا وقت ہے کہ نہیں

الگ سیاستِ درباں سے دل میں ہے اک بات

یہ وقت میری رسائی کا وقت ہے کہ نہیں

دلوں کو مرکز اسرار کر گئی جونگہ

اسی نگہ کی گدائی کا وقت ہے کہ نہیں

تمام منظر کون و مکاں ہے بے ترتیب

یہ تیری جلوہ نمائی کا وقت ہے کہ نہیں

منتخب اشعار

طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش

ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں

……………

جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے

وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا

……………

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے

گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

……………

مانا کہ زندگی میں ہے ضد کا بھی اک مقام

تم آدمی ہو بات تو سن لو خدا نہیں

……………

میری وفا ہے اس کی اداسی کا ایک باب

مدت ہوئی ہے جس سے مجھے اب ملے ہوئے

……………

خوں ہوا دل کہ پشیمان صداقت ہے وفا

خوش ہوا جی کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ

……………

خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات

رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا

……………

غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں

ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے

……………

زہر کا جام ہی دے زہر بھی ہے آب حیات

خشک سالی کی تو ہو جائے تلافی ساقی

……………

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کم عمرنظر آنے والی خواتین رہیں بیماریوں سے محفوظ

خوبصورتی خواتین کی بہت بڑی کمزوری ہے۔کم وبیش ہر خاتون کم عمر ،پر کشش اور جاذب نظر دکھائی دینا چاہتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی کو سراہا جائے۔

5 چیزیں جو آپ کو گنجا کر سکتی ہیں!

مرد ہوں یا خواتین، دونوں اپنے بالوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بالوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بالوں کی جتنی دیکھ بھال کی جائے وہ ٹوٹتے بھی اسی رفتار سے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو بالوں کے ٹوٹنے کی رفتار میں کمی لائی جاسکتی ہے اور گنج پن کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بچوں میں ڈائریا

بعض اوقات شیرخوار بچے زیادہ پاخانے کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا بچہ دن میں چھ پاخانے کرنے لگتا ہے۔ پاخانوں کی تعداد بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہت سے بچے ہر بار دودھ پی کر پاخانہ کر دیتے ہیں لیکن یہ عام طور پر گاڑھے اور لیس دار ہوتے ہیں۔

آج کا پکوان:پودینہ گوشت

اجزاء:گوشت آدھا کلو (ہڈی والا)،ادرک کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،لہسن کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،کالی مرچ تھوڑی سی (پسی ہوئی)،گرم مصالحہ حسب ضرورت،سرخ مرچ حسب ضرورت،کوکنگ آئل حسب ضرورت،سرکہ سفید دو چمچ،نمک حسب ضرورت، ہرا دھنیا ،پودینہ،پیاز ایک عدد ،دہی ایک کپ

یادرفتگاں: آج 75ویں برسی حسرت موہانی نئے عہد اور ماحول کے آئینہ دار

غزل کو نئی زندگی اور بانکپن بخشنے والے اردو کے قادرالکلام شاعرحسرت موہانی کی آج 75 ویں برسی ہے۔ان کا اصل نام سید فضل الحسن جبکہ تخلص حسرت تھا اور بھارت کے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔حسرت 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔

سوء ادب:عقلمند گھوڑے

ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور شدید زخمی ہونے سے بے ہوش ہو گیا۔ سنسان اور ویران علاقہ تھا، اِس لیے کسی طرف سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ کوئی مدد کو آئے، چنانچہ گھوڑے نے اپنے دانتوں کی مدد سے اسے پیٹی سے اٹھایا اور سیدھا ہسپتال لے گیا لیکن وہ ویٹرنری ہسپتال تھا۔