انگوٹھی خواتین کا پسندیدہ زیور

تحریر : سارہ خان


عورت اور زیورات ایک دوسرے کیلئے ہمیشہ ہی سے لازم و ملزوم رہے ہیں۔ان کے بغیر تو خواتین کی تیاری بھی ادھوری معلوم ہوتی ہے جب کہ میچنگ جیولری کے بغیر شخصیت مین نکھار پیدا نہیں ہوتا۔ زیورات کا تصور بہت قدیم ہے موہن جوڈارو اور گندھارا کی تہذیب پر نظر ڈالیں تو وہاں سے ملنے والے آثارِ قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کی خواتین بھی زیورات کی شوقین تھیں۔

خواتین مختلف زیورات استعمال کرتی ہیں جب کہ انگلی میں پہنی جانے والی انگوٹھی ایسا زیور ہے جو پسندیدگی کے ساتھ ساتھ جذبات کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ اب اس میں جدید ڈیزائن ،رنگ اور مختلف قسم کی دھاتوں اور پتھروں کے استعمال سے جدت آگئی ہے،پتھر اور نگینہ جڑی انگوٹھیاں خواتین کو بے حد پسند ہوتی ہیں۔

انگوٹھی چوں کہ ہلکا پھلکا زیور ہے اس لیے انہیں بغیر کوفت کے پہنا جاسکتا ہے۔منگنی کا فنکشن تو جڑا ہی انگوٹھی سے ہے۔اس کے بغیر منگنی کا تصور ہی مکمل نہیں ہوتا،پاکستان میں عموما سونے،چاندی اور ہیرے کی انگوٹھیاںمنگنی میں پہنائی جاتی ہیں۔

سٹین لیس اسٹیل اور سن شائن سے بنی انگوٹھیاں آج کل بے حد مقبول ہیں۔ان کی خاصیت یہ ہے کہ ان کی رنگت خراب نہیں ہوتی۔اگر یہی انگوٹھیاں انگلیوں کی ساخت ،جسامت اور رنگ کے اعتبار سے پہنی جائیںتو ہاتھوں کی خوب صورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

نازک انگلیوں میں نازک انگوٹھیاں ہی اچھی لگتی ہیں۔ اسی طرح موٹی اور بھاری انگلیوں پر نازک انگوٹھیاں اور چھلے بھدے معلوم ہوتے ہیں۔ 

انگوٹھیاںمحض خواتین میں ہی مقبول نہیں بلکہ مردوں میں بھی ان کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔جس  میں سونے چاندی اور انواع و اقسام کے پتھروں کی انگوٹھیاں شامل ہیں۔اس کے علاوہ انٹیک بھی خواتین اور مردوں دونوں میں یکساں مقبول ہیں۔

انگوٹھیاں محض ہاتھوں میں ہی نہیں پہنی جاتیں بلکہ پائوں میں بھی پہنی جاتی ہیں۔انہیں بچھوا یا ٹورنگ (Toe Ring)کہا جاتا ہے۔ٹورنگ کا تصور بھارت سے آیا ہے کیوں کہ بھارت میں خواتین اس زیور کو سہاگ کی علامت تصور کرتی ہیں۔ اس لیے شادی بیاہ کے موقع پر دلہا دلہن ایک دوسرے کو ٹورنگ پہناتے ہیں۔

یہ روایت پاکستان میں بھی تیزی سے مقبول ہورہی ہے اور اکثر گھرانوں میں دلہن کو ٹورنگ پہنائے جاتے ہیں ٹورنگ کے فیشن کا تصور امریکہ ،یورپ سمیت مغربی دنیا میں بھی بھارت سے ہی گیااور وہاں بھی اس نے خاصی مقبولیت حاصل کرلی۔فیشن کی دل دادہ غیر شادی شدہ لڑکیوں میں بھی اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہاہے۔ 

بھارت میں سونے کو متبرک دھات تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے سونے کا استعمال ٹورنگ میں نہیں کیا جاتا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ تصور بھی ماند پڑتا جا رہا ہے۔یہ فیشن ابھی اتنا عام نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ٹورنگ محض گنی چنی مارکیٹوںمیں ہی دستیاب ہیں لیکن اس فیشن کی مقبولت دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی زیورات کی طرح آئندہ برسوں میں اس کی مارکیٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟