عوامی اور سیاسی مسائل کی سرگزشت
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی مشکلات دن بدن بڑھ رہی ہیں ۔پارٹی کے اندر اختلافات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب لاوا کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں ۔خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے بیشتر مرکزی رہنما وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے نالاں ہیں یا ان کی پالیسیوں کے خلاف۔ کچھ کو کابینہ میں حصہ نہ ملنے کا شکوہ ہے تو کوئی کابینہ سے آوٹ کئے جانے کا غم دل پر لئے بیٹھا ہے۔
یہ اختلافات ختم کرنے کیلئے پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اپنی سی کوششیں کیں، اور بھی لوگ بروئے کار آئے لیکن اختلافات کو ختم نہیں کیاجاسکا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ان اختلافات کے باعث اس طرح پھنس گئے ہیں کہ صوبے کے انتظامی معاملات میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے ۔ہمارے ذرائع کے مطابق بیوروکریسی کی ایک بڑی تعدادتبادلوں اور تعیناتیوں کی منتظر ہے لیکن حالات ایسے بن گئے ہیں کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو فی الوقت اس پر عملدرآمد نہیں کررہے ۔سب سے زیادہ بے چینی محکمہ پولیس میں ہے۔ نئے پولیس سربراہ کی آمد کے بعد بڑے پیمانے پر تبادلوں کے امکانات تھے۔بیشتر آفیسر جنہیں گزشتہ دو سالوں سے کھڈے لائن لگاگیاتھا امید کررہے تھے کہ ان کی واپسی ہوگی‘ لیکن فی الوقت یہ معاملہ التوا کا شکار ہے۔ یہی صورتحال صوبائی کابینہ کی ہے۔ اس میں متعدد وزرا پر مبینہ کرپشن اور بے قاعدگیوں کے الزامات لگ رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی نے ان لوگوں کو طلب کیا اور متعدد کو تنبیہ بھی کی ‘ اس کے باوجود کابینہ میں تبدیلی کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔یہ بات یقینی ہے کہ اگر کابینہ میں تبدیلی ہوتی ہے تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کیلئے مخالفت اور بھی بڑھے گی جس کے فی الوقت وہ متحمل نہیں ہوسکتے ۔عاطف خان گروپ اس وقت پارٹی کے اندر مضبوط ہوگیا ہے۔ جنید اکبر کے صوبائی صدر نامزد کئے جانے کے بعد انہوں نے پارٹی میں صوبائی سطح پر اپنی مرضی کی تبدیلیاں کرنی شروع کردی ہیں۔ عاطف خان کو ضلع پشاور کا صدر بنانے کا مقصد یہی ہے ۔اب مزید تبدیلیاں بھی کی جارہی ہیں ۔پارٹی عہدوں سے ان لوگوں کو ہٹانے کی تیاری شروع کردی گئی ہے جنہوں نے عام انتخابات میں اپنے امیدواروں کا ساتھ نہیں دیا یا ان کی خلاف کھڑے ہوئے۔پارٹی پالیسی کی مخالفت کرنے والے عہدیداروں سے بھی عہدے واپس لئے جارہے ہیں اور وہ حکومتی عہدیدار بھی پارٹی عہدوں سے محروم ہوجائیں گے جنہیں مختلف وزارتیں یا کسی بھی عہدہ سے نوازا گیا ہے۔ یقینی طورپر ان تمام عہدوں پر صوبائی صدر جنید اکبر اپنی مرضی کے بندے لائیں گے جس سے ایک طرف علی امین گنڈاپور کی پارٹی میں پوزیشن کمزور ہوگی تو دوسری جانب پارٹی میں اختلافات بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔ ان اختلافات کا اثر بانی پی ٹی آئی کی کی رہائی کیلئے شروع کی جانے والی تحریک پر بھی پڑے گا ۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ پارٹی کے اندر مزید دھڑے بنیں گے۔
یہ صورتحال پی ٹی آئی کیلئے کسی طورپراطمینان بخش نہیں۔ اس سے پارٹی کارکنوں میں مایوسی بڑھے گی ۔احتساب کمیٹی کی جانب سے کئے گئے فیصلوں اور اقدامات سے بھی پارٹی کے اندر بے چینی بڑھ رہی ہے۔ جس کمیٹی نے اپنے ارکان اسمبلی اور وزرا کا احتساب کرنا تھا اس کی حالت یہ ہے کہ اس کے تینوں رکن کسی ایک فیصلے پر متفق نہیں ۔سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی پراعظم سواتی کی جانب سے الزامات کے حوالے سے احتساب کمیٹی تاحال فیصلہ نہیں کرسکی ۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی کو جو ثبوت فراہم کئے گئے ان کی روشنی میں ایک رکن کا کہناہے کہ یہ کرپشن نہیں بلکہ اسے بے قاعدگی کے زمرے میں ڈالاجانا چاہئے ۔دوسرے رکن کا موقف ہے کہ یہ کرپشن ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ تیسرے رکن نے اس حوالے سے خاموشی اختیارکررکھی ہے۔ دیگر وزرا کے حوالے سے کمیٹی کے پاس جو شکایات آئی تھیں ان پر بھی یا تو فیصلہ نہیں کیاجاسکا یا پھر خاموشی اختیار کرلی گئی ہے ،وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی اب عاطف خان،تیمور سلیم جھگڑا اور کامران بنگش کے حوالے سے کھل کر بول رہے ہیں جس سے نت نئے تنازعات جنم لے رہے ہیں ۔پارٹی کے اندر تناو ٔ کی کیفیت ہے اور اس کے اثرات صوبائی کابینہ کے اجلاسوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود مائنز اینڈمنرلزبل کو کابینہ سے منظور کے باوجود اسمبلی سے منظور نہیں کرواسکے ،ایسا بھی نہیں کہ اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت نہیں بلکہ ایوان میں پاکستان تحریک انصاف کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہے لیکن اس بل کی سب سے زیادہ مخالفت پی ٹی آئی کے ارکان نے کی۔ گزشتہ روز اس حوالے سے سپیکر کی ہدایت پر دوبارہ ارکان اسمبلی کی بریفنگ کا انتظام کیاگیا جس میں متعلق محکمے کے افسران ارکان اسمبلی کو بل کے حوالے سے مطمئن کرنے میں ناکام رہے ۔اپوزیشن ارکان نے اس بریفنگ میں شرکت نہیں کی ۔اے این پی پہلے ہی اس بل کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کرچکی ہے۔
آئندہ دو ماہ میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بجٹ کو ایوان سے پاس کرانے کا مرحلہ بھی درپیش ہوگا۔ اس بات کاامکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ کوئی اپنے ہی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ کی مخالفت کرے ہاں اس بل کی طرح اس پر تنقید ہوسکتی ہے۔ یہ صوبائی حکومت کا ایک طرح سے پہلا بجٹ ہوگا جو اس نے خود ایک سال کی محنت کے بعد تیار کیاہوگا۔اس بجٹ سے نہ صرف وزرا اور ارکان اسمبلی بلکہ عوام بھی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ ملازمت پیشہ طبقہ تو خاص طورپر اس بجٹ میں تنخواہوں میں مناسب اضافے کاخواہشمند ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کوئی فلیگ شپ منصوبہ تو شروع نہ کرسکے ،یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس بجٹ میں بی آرٹی یا صحت کارڈ جیسامنصوبہ شروع کیاجاسکے۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے ڈویژنل ہیڈکوارٹرزمیں بی آرٹی جیسی سروس شروع کرنے کااعلان کیاگیاتھا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس منصوبے کیلئے بجٹ میں خطیر رقم رکھی جاسکتی ہے، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سوات،ایبٹ آباد اور دیگربڑے شہروں میں ان منصوبوں کی افادیت ہے بھی یا نہیں؟ سوات یا ایبٹ آباد جیسی جگہ پر بغیر فزیبیلیٹی رپورٹ کے ایسا منصوبہ شروع کیا جانا پیسوں کا ضیاع ہوگا۔کچھ ایسی ہی صورتحال پشاور میں تھی جب بغیر پی سی ون کے بی آرٹی پر کام شروع کردیاگیا اور آناً فاناًپورے شہرکو کھود ڈالاگیا،جس سے کئی ماہ تک شہریوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی تھیں۔ اگرچہ یہ منصوبہ اب نہایت مفید ثابت ہورہاہے لیکن اس پر آنے والی لاگت اور موجودہ اخراجات خاصے زیادہ ہیں۔پی ٹی آئی کو ماضی کی دو حکومتوں کی طرح اس بار بھی صحت،تعلیم اور امن وامان پر فوکس رکھنا چاہیے۔ ہسپتالوں کی حالت دگرگوں ہے ،سرکاری سکولوں میں تعلیمی معیار گرگیا ہے جبکہ امن وامان کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ان تین شعبوں پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کو دوبارہ توجہ دینی ہوگی۔ صوبے میں بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانا بھی اشدضروری ہے۔ موجود بلدیاتی نظام غیر مؤثر ہے اور اس کاعوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی پی ٹی آئی کے منشور کا اہم نقطہ تھا لیکن اب یہ اختیارات محض وزیراعلیٰ ہاؤس تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔