نہری تنازع، سندھ کی سیاست کا محور

تحریر : طلحہ ہاشمی


نہروں کے تنازع نے پورے ملک کی نظریں سندھ پر لگا دی ہیں۔ حیدرآباد میں جلسہ عام سے خطاب میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے واضح کردیا تھا کہ دریائے سندھ پر نہریں قبول نہیں، وفاق فوری طور پر منصوبہ ختم کرے بصورت دیگر حکومت کی حمایت واپس لے لیں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ شہباز شریف سندھ کے عوام کی وجہ سے آج وزیراعظم ہیں۔انہوں نے حکومت کو زراعت کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی میں ساتھ بیٹھنے کی پیشکش کی۔ بلاول بھٹو کا لہجہ دبنگ اور سنگ و آتش سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے عمرکوٹ کے حالیہ ضمنی الیکشن کا ذکر کیا اور تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے ایک ساتھ ہونے پر تنقید کی۔ بولے کہ عوام نے دونوں کو شکست سے دوچار کردیا۔ پی پی کے ووٹرز نے اسلام آباد کو بھی شکست دے دی۔ بلاول بھٹو کا پیغام بڑی تیزی سے حکومت کو سمجھ آگیا شاید اسی لیے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے دو دن میں دو بار سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن سے رابطہ کیا اور نہری تنازع کو مشاورت سے حل پر اتفاق کیا گیا۔ اب یہ اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ جو بات پہلے دن کی گئی ہو وہی بات دوسرے دن بھی کی جائے۔ یقینی طور پر اندرون خانہ کچھ طے ہورہا ہے جو جلد سامنے آجائے گا۔ البتہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کئی دہائیوں سے دنیا میں رائج طریقہ کار حکومت کے سامنے رکھ دیا۔ بولے کہ ریگستان آباد کرنے کی کیا ضرورت ہے، پہلے سے زیر کاشت رقبے کی صلاحیت بڑھائی جائے، ٹیکنالوجی اور پانی اور نئے بیج کو استعمال کیا جائے۔ انہوں نے نہری تنازع پر صوبے میں مختلف تنظیموں کے احتجاج کی حمایت کی لیکن ساتھ ہی کہا کہ عوام کو تکلیف نہ دیں۔ ہمارے لیے حیران کن بات یہ ہے کہ وہ خود حکومت ہیں، انہوں نے فصلوں کی بہتری اور پیداوار بڑھانے کے لیے اب تک کیا کیا منصوبے پیش کیے اور کتنوں پر عمل درآمد جاری ہے؟ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ سندھ میں مختلف تنظیموں نے نہروں کے خلاف احتجاج کیا اور پیپلز پارٹی کو بھی اپنی ساکھ بچانے کے لیے منصوبے کے خلاف میدان میں اترنا پڑا ہے، تاہم پیپلز پارٹی رہنما اس الزام کی نفی کرتے ہیں۔ 

نئی ٹیکنالوجی کی بات ہو رہی ہے تو تازہ خبر یہ ہے کہ اسلام آباد میں جناح سکوائر مری روڈ پر انڈر پاس بن رہا ہے اور منصوبے کو 35دن میں مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے ، دوسری طرف کراچی میں زیرتعمیر منصوبوں پر نظر ڈالیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔ ایک بار کریم آباد پر بننے والے انڈر پاس کا دورہ کرلیں، ایسا لگتا ہے کہ صدیاں بیت گئیں لیکن انڈر پاس ہنوز زیرتعمیر ہے۔ منصوبے پر کام کرنے والے افراد کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ دوچار مشینیں بھی نظر آجائیں گی۔ منصوبے کے اطراف میں لاکھوں افراد رہائش پذیر ہیں، بازار ہیں۔ کاروبار اور طرزِ رہائش تباہ و برباد ہوچکا ہے لیکن تیز رفتاری نہ پہلے کبھی نظر آئی نہ اب نظر آرہی ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی روڈ پر چلے جائیں تو جسم اور دماغ دونوں کی چولیں ہل جائیں گی، مصروف اوقات میں گھنٹوں ٹریفک جام معمول ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جو تھوڑی بہت سڑک رہ گئی ہے وہ بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ اس پر گاڑیاں تک پارک نظر آتی ہیں۔ نظر نہیں آتی تو حکومت کی رِٹ نظر نہیں آتی۔عوام کہاں جائیں کس سے فریاد کریں؟

عوام کا ذکر ہے تو یہ بھی جان لیں کہ خیرپور کے قریب قومی شاہراہ پر ببرلو بائی پاس پر دھرنے نے سندھ اور پنجاب کے درمیان ٹریفک کو معطل کر رکھا ہے۔ بڑی تعداد میں مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، سب سے اہم یہ کہ سینکڑوں ٹرکوں میں مال مویشی ہیں جو فروخت کے لیے کراچی لائے جارہے ہیں، شدید گرمی نے گاڑی والوں اور جانوروں کا بُرا حال کردیا ہے۔ مظاہرین کو چاہیے کہ کچھ خیال کریں اور مال بردار گاڑیوں کے گزرنے کے لیے راستہ چھوڑدیں کیونکہ وہ بھی عوام ہی ہیں جو پریشانی کا شکار ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام نے بھی دھرنوں اور سندھ پنجاب بارڈر بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ عوام کے حق کی بات ہے تو عوام کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے۔

بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں پنجاب کے کسانوں کو درپیش مسائل پر بھی بات کی، جس پر وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا ردعمل سامنے آیا۔ بقول اُن کے بلاول بھٹو کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے ہاری کی بات نہیں کی۔ بولیں کہ پنجاب آج کل جلوسوں دھرنوں اور نعروں کا گڑھ بنا ہوا ہے، یہ کسی نہ کسی مافیا سے منسلک ہیں، کچھ سیاسی پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں، کسانوں کے نام پر سیاست کی جارہی ہے اور بلاول بھٹو نے بھی تڑکا لگا دیا اور پنجاب کی قیادت کے لیے تلخ جملے استعمال کیے لیکن اگر میں کوئی سوال پوچھوں تو وہ توہین ہوجاتی ہے۔ عظمیٰ بخاری کے بیان کا جواب ترجمان سندھ حکومت سمعتا افضال سید نے دیا۔انہوں نے کہا کہ پانی کسان کی زندگی ہے اور نہری منصوبے کی مخالفت کا مطلب کسانوں کے نام پر سیاست نہیں۔

ملک میں احتجاج، دھرنوں اور مظاہروں کا سماں ہے ،ان میں سب سے اہم احتجاج غزہ کے مظلوم مسلمانوں کیلئے ہے۔ اس پر پوری قوم کا اتفاق ہے کہ اسرائیل نہتے مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔جماعت اسلامی نے 26اپریل کو ملک گیر شٹر ڈاؤن کی اپیل کہ ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما ہڑتال کامیاب بنانے کیلئے تاجروں سے رابطے کررہے ہیں۔ تاجروں کی جانب سے بھی ہڑتال کی حمایت کی جارہی ہے جس سے ہڑتال کی کال مؤثر ہوتی نظر آرہی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کم عمرنظر آنے والی خواتین رہیں بیماریوں سے محفوظ

خوبصورتی خواتین کی بہت بڑی کمزوری ہے۔کم وبیش ہر خاتون کم عمر ،پر کشش اور جاذب نظر دکھائی دینا چاہتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی کو سراہا جائے۔

5 چیزیں جو آپ کو گنجا کر سکتی ہیں!

مرد ہوں یا خواتین، دونوں اپنے بالوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بالوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بالوں کی جتنی دیکھ بھال کی جائے وہ ٹوٹتے بھی اسی رفتار سے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو بالوں کے ٹوٹنے کی رفتار میں کمی لائی جاسکتی ہے اور گنج پن کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بچوں میں ڈائریا

بعض اوقات شیرخوار بچے زیادہ پاخانے کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا بچہ دن میں چھ پاخانے کرنے لگتا ہے۔ پاخانوں کی تعداد بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہت سے بچے ہر بار دودھ پی کر پاخانہ کر دیتے ہیں لیکن یہ عام طور پر گاڑھے اور لیس دار ہوتے ہیں۔

آج کا پکوان:پودینہ گوشت

اجزاء:گوشت آدھا کلو (ہڈی والا)،ادرک کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،لہسن کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،کالی مرچ تھوڑی سی (پسی ہوئی)،گرم مصالحہ حسب ضرورت،سرخ مرچ حسب ضرورت،کوکنگ آئل حسب ضرورت،سرکہ سفید دو چمچ،نمک حسب ضرورت، ہرا دھنیا ،پودینہ،پیاز ایک عدد ،دہی ایک کپ

یادرفتگاں: آج 75ویں برسی حسرت موہانی نئے عہد اور ماحول کے آئینہ دار

غزل کو نئی زندگی اور بانکپن بخشنے والے اردو کے قادرالکلام شاعرحسرت موہانی کی آج 75 ویں برسی ہے۔ان کا اصل نام سید فضل الحسن جبکہ تخلص حسرت تھا اور بھارت کے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔حسرت 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔

سوء ادب:عقلمند گھوڑے

ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور شدید زخمی ہونے سے بے ہوش ہو گیا۔ سنسان اور ویران علاقہ تھا، اِس لیے کسی طرف سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ کوئی مدد کو آئے، چنانچہ گھوڑے نے اپنے دانتوں کی مدد سے اسے پیٹی سے اٹھایا اور سیدھا ہسپتال لے گیا لیکن وہ ویٹرنری ہسپتال تھا۔