ہیلمٹ، ایک زندگی

تحریر : مبشر حسین میو


سردیوں کی ایک شام تھی۔ لاہور کی سڑکوں پر دھند نے جیسے ہر منظر کو دھندلا دیا تھا۔ بازاروں میں چہل پہل تو تھی، مگر سڑکوں پر ایک عجب سا سنّاٹا تھا۔ اس دوران ایک نوجوان، جس کا نام ہارون تھا، بائیک پر سوار اپنے دوست کی شادی سے واپس آ رہا تھا۔

ہارون ایک خوش مزاج اور بے فکر نوجوان تھا۔ ہنستا، گاتا، دوستوں کے جھرمٹ میں گھرا رہتا۔ زندگی اس کیلئے ایک خوبصورت خواب جیسی تھی، جس میں صرف خوشیاں اور آزادی تھی۔ 

ہارون نے کبھی ہیلمٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اسے لگتا تھا کہ ہیلمٹ پہننا کمزور لوگوں کا کام ہے، یا بس پولیس کے خوف سے لیا جاتا ہے۔ ’’یار، ہیلمٹ سے آدمی کی آزادی چھن جاتی ہے۔ بال بگڑ جاتے ہیں، سانس رک جاتی ہے۔‘‘ وہ اکثر کہتا۔

اس رات بھی جب اس کی والدہ نے دروازے سے آواز دی: ’’ہارون بیٹا، ہیلمٹ پہن لو، دھند ہے باہر‘‘۔تو ہارون نے ہنستے ہوئے کہا: ’’امی، میں جہاز میں نہیں جا رہا، صرف بائیک ہے، ابھی آیا!‘‘۔

ماں خاموش ہو گئی، دل میں ایک انجانی گھبراہٹ تو تھی، لیکن وہ کچھ نہ کہہ سکیں۔

ہارون سڑک پر نکلا تو چاروں جانب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سڑکیں نم تھیں۔ اس نے کان میں ہینڈ فری لگایا، اپنی پسندیدہ موسیقی چلائی اور بائیک تیز کر دی۔ خوابوں کا سپاہی، ہوا سے باتیں کرتا ہوا، اپنی دھن میں مگن، دھند کے دھاگوں کو چیرتا چلا جا رہا تھا۔

دوسری طرف سے ایک گاڑی آ رہی تھی، جس کے ڈرائیور نے شراب پی رکھی تھی۔ دھند نے ویسے ہی منظر کو دھندلا دیا تھا اور پھر اچانک زور دار تصادم!

ہارون کی بائیک زمین سے ٹکرائی، وہ خود فضا میں اچھلا اور سر کے بل سڑک پر گرا۔ کوئی ہیلمٹ نہ تھا جو اسے بچا سکتا۔ ایک لمحہ اور سب کچھ ختم ہو گیا۔

راہگیروں نے ایمبولینس بلائی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ اسپتال پہنچتے پہنچتے ہارون کی سانسیں خاموش ہو چکی تھیں۔ اس کے دوست، جن کے ساتھ وہ ہنستا تھا، آج اس کی میت کے گرد خاموش کھڑے تھے۔ اس کی ماں کا نوحہ گلیوں میں گونج رہا تھا: ’’میں نے کہا تھا بیٹا، ہیلمٹ پہن لو، تم نے کیوں نہ سنا؟‘‘

شہر کے ایک اخبار نے اگلے دن ایک خبر چھاپی: ’’نوجوان موٹر سائیکل سوار کی جان ہیلمٹ نہ پہننے کے باعث حادثے میں ضائع‘‘۔

مبشر حسین میو کا تعلق لاہور ٹریفک پولیس سے ہے، لکھنے سے بھی لگائو رکھتے ہیں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟