ہیلمٹ، ایک زندگی
سردیوں کی ایک شام تھی۔ لاہور کی سڑکوں پر دھند نے جیسے ہر منظر کو دھندلا دیا تھا۔ بازاروں میں چہل پہل تو تھی، مگر سڑکوں پر ایک عجب سا سنّاٹا تھا۔ اس دوران ایک نوجوان، جس کا نام ہارون تھا، بائیک پر سوار اپنے دوست کی شادی سے واپس آ رہا تھا۔
ہارون ایک خوش مزاج اور بے فکر نوجوان تھا۔ ہنستا، گاتا، دوستوں کے جھرمٹ میں گھرا رہتا۔ زندگی اس کیلئے ایک خوبصورت خواب جیسی تھی، جس میں صرف خوشیاں اور آزادی تھی۔
ہارون نے کبھی ہیلمٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اسے لگتا تھا کہ ہیلمٹ پہننا کمزور لوگوں کا کام ہے، یا بس پولیس کے خوف سے لیا جاتا ہے۔ ’’یار، ہیلمٹ سے آدمی کی آزادی چھن جاتی ہے۔ بال بگڑ جاتے ہیں، سانس رک جاتی ہے۔‘‘ وہ اکثر کہتا۔
اس رات بھی جب اس کی والدہ نے دروازے سے آواز دی: ’’ہارون بیٹا، ہیلمٹ پہن لو، دھند ہے باہر‘‘۔تو ہارون نے ہنستے ہوئے کہا: ’’امی، میں جہاز میں نہیں جا رہا، صرف بائیک ہے، ابھی آیا!‘‘۔
ماں خاموش ہو گئی، دل میں ایک انجانی گھبراہٹ تو تھی، لیکن وہ کچھ نہ کہہ سکیں۔
ہارون سڑک پر نکلا تو چاروں جانب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سڑکیں نم تھیں۔ اس نے کان میں ہینڈ فری لگایا، اپنی پسندیدہ موسیقی چلائی اور بائیک تیز کر دی۔ خوابوں کا سپاہی، ہوا سے باتیں کرتا ہوا، اپنی دھن میں مگن، دھند کے دھاگوں کو چیرتا چلا جا رہا تھا۔
دوسری طرف سے ایک گاڑی آ رہی تھی، جس کے ڈرائیور نے شراب پی رکھی تھی۔ دھند نے ویسے ہی منظر کو دھندلا دیا تھا اور پھر اچانک زور دار تصادم!
ہارون کی بائیک زمین سے ٹکرائی، وہ خود فضا میں اچھلا اور سر کے بل سڑک پر گرا۔ کوئی ہیلمٹ نہ تھا جو اسے بچا سکتا۔ ایک لمحہ اور سب کچھ ختم ہو گیا۔
راہگیروں نے ایمبولینس بلائی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ اسپتال پہنچتے پہنچتے ہارون کی سانسیں خاموش ہو چکی تھیں۔ اس کے دوست، جن کے ساتھ وہ ہنستا تھا، آج اس کی میت کے گرد خاموش کھڑے تھے۔ اس کی ماں کا نوحہ گلیوں میں گونج رہا تھا: ’’میں نے کہا تھا بیٹا، ہیلمٹ پہن لو، تم نے کیوں نہ سنا؟‘‘
شہر کے ایک اخبار نے اگلے دن ایک خبر چھاپی: ’’نوجوان موٹر سائیکل سوار کی جان ہیلمٹ نہ پہننے کے باعث حادثے میں ضائع‘‘۔
مبشر حسین میو کا تعلق لاہور ٹریفک پولیس سے ہے، لکھنے سے بھی لگائو رکھتے ہیں