ہمایوں اور موٹو کی کہانی

تحریر : شکیل الرحمن


مشہور مغل بادشاہ ہمایوں کی اماں کا نام ماہم بیگم تھا، ہمایوں کے والد شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی رفیقۂ حیات کو شادی کے بعد ہی سے ماہم کہنا شروع کر دیا تھا یعنی ’’چاند‘‘ بہت ہی خوبصورت تھیں نا ہمایوں کی اماں۔ اسی لئے! ننھا ہمایوں بیمار ہوتا تو لگتا اماں بی خود بیمار ہو گئی ہیں، دن رات اپنے پیارے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ آگرہ کے لوگ ماہم بیگم کی بہت عزت کرتے تھے اور سب انہیں پیار سے اماں کہتے تھے۔

اماں ماہم بیگم بھی شہر کے لوگوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہر تہوار پر، وہ تہوار ہندوئوں کا ہو یا مسلمانوں کا، پورے قلعے پر چراغ روشن کراتیں، مٹھائیاں تقسیم کراتیں، شہر بھر کے بچوں کو بلاتیں تاکہ وہ ننھے ہمایوں کے پاس آکر کھیلیں اور خوب مٹھائیاں کھائیں۔

 اماں ماہم بیگم کو بچوں سے بیحد پیار تھا، قلعے میں جو بچے آتے ان میں ایک بہت ہی پیارا سا بچہ تھا، موٹو، بہت موٹا تھا اور خوب کھاتا تھا اسی لئے اس کا نام موٹو ہو گیا تھا۔ اماں ماہم بیگم اور ہمایوں دونوں موٹو کو بہت پسند کرتے تھے ۔ننھا موٹو اکثر آتا اور ہمایوں کے ساتھ کھیلتا دونوں دوست بن گئے تھے۔ ہاں، ہمایوں اکثر کہتا ’موٹو کھانا کم کھایا کرو ورنہ پیٹ پھٹ جائے گا‘‘۔

موٹو کے باپ کا نام ہیرا تھا جو دودھ فروخت کیا کرتا تھا اور اسی سے گزارا کرتا تھا۔ ننھے موٹو کی سب سے اچھی سواری بھینس تھی، وہ دن بھر بھینس کے اوپر بیٹھ کر اپنے پتا چی کی بھینسوں کو چراتا۔ ندی پار جو کھیت تھا موٹو وہیں اپنی بھینسوں کو چراتا تھا اور ننھا ہمایوں اور اس کی اماں ماہم بیگم دونوں قلعے کے اوپر سے اسے دیکھتے اور خوش ہوتے تھے۔ موٹو کو قلعے میں اتنا پیار ملا کہ اس کے آنے جانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ تھی۔ وہ جب چاہتا ننھے ہمایوں سے ملنے آ جاتا، اماں ماہم بیگم اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، اسی طرح کہ جس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کو کھلاتی تھیں۔

آہستہ آہستہ ہمایوں اور موٹو دونوں بڑے ہوتے گئے، وقت تیزی سے گزرتا گیا، ایک دن ہمایوں نے ضد کی کہ وہ موٹو کے ساتھ کھیت پر جائے گا اور موٹو کی طرح کسی بھینس پر بیٹھے گا۔ ہمایوں شہزادہ تھا، بہت اچھا گھڑ سوار بن رہا تھا لیکن بھینس پر بھی بیٹھنا چاہتا تھا۔ اماں ماہم بیگم نے اجازت دے دی، ہمایوں بہت خوش ہو گیا، چند سپاہیوں کی نگرانی میں کھیت پر پہنچا موٹو اپنی بھینس پر لیٹا مستی کر رہا تھا، موٹو ہمایوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو گیا، بھینس سے نیچے اتر آیا اور سپاہیوں کی مدد سے ہمایوں بھینس پر چڑھ گیا، اب تو اس کی خوشی مت پوچھو، اسے یہ سواری بہت اچھی لگ رہی تھی۔ موٹو دوسری بھینس پر بیٹھ گیا۔ دونوںجب خوب کھیل چکے تو اپنی اپنی بھینسوں سے نیچے اترے۔

ایسا ہوا بچو کہ ہمایوں جیسے ہی نیچے اترا ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا اور ہمایوں کی حالت خراب ہونے لگی۔ سپاہیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ موٹو نے جب اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی تو فوراً اپنی قمیض پھاڑ ڈالی اور ہمایوں کی ٹانگ پر زخم کے اوپر نیچے دو پٹیاں کس کر باندھ دیںتاکہ زہر نہ پھیلے۔ موٹو کی تیزی اور چستی دیکھ کر سپاہی بھی حیران رہ گئے۔ ہمایوں کو قلعہ لایا گیا موٹو بھی ساتھ ساتھ آیا۔ شاہی حکیم صاحب آئے، انہوں نے علاج کیا اور ہمایوں اچھا ہو گیا۔ شاہی حکیم صاحب نے اماں ماہم بیگم سے کہا ’’ اگر موٹو نے اس وقت ہمایوں کے پائوں پر پٹیاں نہ باندھی ہوتیں تو زہر پورے جسم میں پھیل جاتا، یہ بھینس والا موٹو بہت ذہین اور ہوشیار ہے۔‘‘ 

اماں ماہم بیگم اور شہنشاہ بابر دونوں موٹو سے بہت خوش ہوئے، موٹو کو اپنے قلعے میں رکھ لیا، اس کی تعلیم تربیت کا انتظام کیا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا شروع کیا۔ جب شہنشاہ بابر کا انتقال ہو گیا اور ہمایوں بادشاہ بنا تو اماں ماہم بیگم نے ہمایوں کو یاد دلایا کہ کس طرح کھیت میں ناگ نے اسے کاٹا تھا اور کس طرح موٹو نے پٹیاں باندھ کر اس کی زندگی بچائی تھی۔ ہمایوں کو واقعہ یاد تھا، وہ موٹو کو بہت پیار کرتا تھا اور اسے اپنا دوست سمجھتا تھا، ہمایوں نے پوچھا ’’اماں بیگم میں موٹو کے لئے کیا کروں؟‘‘۔ا ماں بیگم نے کہا ’’ موٹو کو اپنا ذاتی سپہ سالار بنا لو، وہ تمہارا سچا دوست ہے‘‘۔

ہمایوں نے فوراً حکم نامہ جاری کیا، موٹو شہنشاہ ہمایوں کا ذاتی سپہ سالار بن گیا، اماں بیگم بہت خوش ہوئیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو خوب پیار کیا۔

ہمایوں نے موٹو سے کہا ’’ دیکھو موٹو کھانا زیادہ کھائو گے تو اور بھی موٹے ہو جائو گے، دوڑ میں سپاہی آگے نکل جائیں گے اور سپہ سالار پیچھے رہ جائے گا‘‘ سب ہنسنے لگے۔

جانتے ہو بچو، یہی موٹو سپہ سالار بساون کے نام سے مشہور ہوا اور جانے کتنے دشمنوں کو شاہی فوج کا سردار بن کر شکست دی۔ ہمایوں اور بساون عرف موٹو کے پیار کی کہانی بھلا کون بھول سکتا ہے!۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

کم عمرنظر آنے والی خواتین رہیں بیماریوں سے محفوظ

خوبصورتی خواتین کی بہت بڑی کمزوری ہے۔کم وبیش ہر خاتون کم عمر ،پر کشش اور جاذب نظر دکھائی دینا چاہتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی کو سراہا جائے۔

5 چیزیں جو آپ کو گنجا کر سکتی ہیں!

مرد ہوں یا خواتین، دونوں اپنے بالوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بالوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بالوں کی جتنی دیکھ بھال کی جائے وہ ٹوٹتے بھی اسی رفتار سے ہیں۔ اگر احتیاط کی جائے اور چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو بالوں کے ٹوٹنے کی رفتار میں کمی لائی جاسکتی ہے اور گنج پن کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

بچوں میں ڈائریا

بعض اوقات شیرخوار بچے زیادہ پاخانے کرتے ہیں۔ پندرہ دن کا بچہ دن میں چھ پاخانے کرنے لگتا ہے۔ پاخانوں کی تعداد بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہت سے بچے ہر بار دودھ پی کر پاخانہ کر دیتے ہیں لیکن یہ عام طور پر گاڑھے اور لیس دار ہوتے ہیں۔

آج کا پکوان:پودینہ گوشت

اجزاء:گوشت آدھا کلو (ہڈی والا)،ادرک کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،لہسن کا پیسٹ ڈیڑھ کھانے کا چمچ،کالی مرچ تھوڑی سی (پسی ہوئی)،گرم مصالحہ حسب ضرورت،سرخ مرچ حسب ضرورت،کوکنگ آئل حسب ضرورت،سرکہ سفید دو چمچ،نمک حسب ضرورت، ہرا دھنیا ،پودینہ،پیاز ایک عدد ،دہی ایک کپ

یادرفتگاں: آج 75ویں برسی حسرت موہانی نئے عہد اور ماحول کے آئینہ دار

غزل کو نئی زندگی اور بانکپن بخشنے والے اردو کے قادرالکلام شاعرحسرت موہانی کی آج 75 ویں برسی ہے۔ان کا اصل نام سید فضل الحسن جبکہ تخلص حسرت تھا اور بھارت کے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔حسرت 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔

سوء ادب:عقلمند گھوڑے

ایک شخص گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کہیں جا رہا تھا کہ حادثے کا شکار ہوگیا اور شدید زخمی ہونے سے بے ہوش ہو گیا۔ سنسان اور ویران علاقہ تھا، اِس لیے کسی طرف سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ کوئی مدد کو آئے، چنانچہ گھوڑے نے اپنے دانتوں کی مدد سے اسے پیٹی سے اٹھایا اور سیدھا ہسپتال لے گیا لیکن وہ ویٹرنری ہسپتال تھا۔