بچے آپ کی محبت کے طلبگار!
بعض والدین بڑی حاکمانہ بلکہ جابرانہ طبیعت رکھتے ہیں۔ وہ بچے کا کہنا مان لینے میں اپنی سب کی توہین سمجھتے ہیں۔ والدین کا رویہ جابرانہ نہیں بلکہ مشفقانہ ہونا چاہیے، انہیں بچوں کی جائز خواہشات کا احترام کرنا چاہیے اور انہیں پورا کر دینے میں خوشی محسوس کرنی چاہئے۔
بغاوت اور ایذا پسندی عام طور پر کسی محرومی کے رد عمل کے طور پر ظہور پذیر ہوتی ہے۔ نکتہ چینی اور والدین کی بے جا ضد بھی بعض اوقات بغاوت کا سبب بنتی ہے۔ بغاوت کی وجوہ میں سب سے اہم جسمانی اور ذہنی ایذا ہے۔ اگر بچے کو جسمانی یا ذہنی ایذادی جائے گی تو تقریباً وہ باغی ہو جائے گا، اس لئے کہ تشدد اور جارحیت کا ردعمل بھی ان سے کچھ مختلف نہیں ہوتا۔ سرکش، باغی اور تشدد پسند بچے کیلئے آپ گھر میں ایسے مشاغل متعین کر سکتے ہیں جن میں یہ زور آوری دکھا سکے اور ان کی طبیعت کے اشتعال اور ابال کو نکالنے کا راستہ ملے، مثلاً گھر میں باغبانی اور پھول بوٹوں کی آبیاری کے کام میں آپ اپنے ایسے بچے سے ہی مدد لیں۔ زمین کو کھودنا خاصا سخت کام ہے ۔ اس کو بچہ اس غرض سے کرتا ہے کہ وہ اس میں بیج بوئے گا اور خوش رنگ پھول بوٹے اُگیں گے تو اس صورت میں اس سخت کام کے ساتھ ایک خوشگوار تصور کی وابستگی اور کچھ حاصل ہونے کا احساس سے مطمئن و مسرور رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چیزیں اس کے جمالیاتی ذوق اور تعمیری جبلت کی تسکین کا بھی باعث بنتی ہیں۔
گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں بھی آپ اپنے بچوں سے کام لے سکتے ہیں۔ پالتو جانوروں کیلئے دڑبے بنانا، ٹھونک پیٹ کے چھوٹے چھوٹے کام، معمولی گھریلو چیزوں کی مرمت، یہ سب وہ کام ہیں جنہیں آپ اپنے سرکش بچے سے کروا کر اور بعد میں اس کی پیٹھ ٹھونک کر اور شاباش دے کر اسے نہ صرف مطمئن و آسودہ خاطر کر سکتے ہیں بلکہ خود نمائی کا یہ موقع بہم پہنچا کر غیر محسوس طور پر اس کیلئے اصلاح اور بہتری کی طرف مائل ہونے کا ایک اچھا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔
عام طور پر بچوں کی شرارت مصیبت سمجھی جاتی ہے اور گھر والے شریر بچوں کے ہاتھ تنگ رہتے ہیں۔ شرارت بچوں میں ذہانت اور زندگی کا ثبوت ہے۔ شریر بچوں کے چہروں پر ذہنت کی ایک مخصوص چمک اور رکائوٹ کاپر تو ہوتا ہے۔ آنکھیں گہری اور چمک دار عموماً سیماب وار اور بے قرار ہوتی ہیں۔ ایسے بچوں میں بجلی کی سی تڑپ اور جینے کی سی جھپک ہوتی ہے۔ غبی اور کند ذہن بچوں کے چہرے جذبات سے عادی اور آنکھیں خالی خالی ہوتی ہیں، ان میں احساس کی فراوانی بھی نہیں ہوتی۔ شریر بچوں سے خائف یا بددل ہونے کے بجائے ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ان کی ذہانت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں تاکہ بڑے ہو کر وہ اس سے مفید مطلب لے سکیں۔ شریر بچوں کیلئے کھیل متعین کیجئے جن میں ذہانت استعمال ہوتی ہو۔ انہیں پہیلیاں بوجھنے کے علاوہ حساب کے چھوٹے چھوٹے مسئلے اور سوال حل کرنے کو دیجئے۔
رات ہی کا وقت مطالعے کیلئے سکون کا وقت ہوتا ہے اور یہی ان پروگراموں کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ٹی وی سے بچے کی معلومات اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس کے نقصانات بھی اپنی جگہ ہیں۔ صورت حال کو بہتر بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین بچے کو ٹی وی والے ایریاسے نکال کر اور ان کے مطالعے کے کمرے میں پہنچا کر درواز بند کر دیں تاکہ یہ سکون سے اپنی کتابیں پڑھ سکیں۔