یوم مزدور اور اس کے تقاضے!

تحریر : سلما ن عثمانی


آج بھی مزدور طبقہ مشکل ترین زندگی گزار رہا ہے،ان پر توجہ دینا اشد ضروری

اسلام میں مزدوروں کے بہت سے حقوق ہیں، جن کا اسلام نے انتہائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مزدور ہی اس قوم کا اثاثہ ہیں جو روزانہ تازہ کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے،کسی بھی ملک، قوم اور معاشرے کی ترقی میں مزدوروں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ حق تلفی بھی انہی کی، کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے مزدور کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور مزدور اسے اپنا مقدر سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ ہمارے سماج میں مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ مزدوری ہر کوئی کرتا ہے مگر سب کے درجات الگ ہوتے ہیں۔ ہر مزدور اپنے میدان میں اپنی بساط بھر مزدوری کرتا ہے اور اجرت حاصل کر کے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتا ہے۔ اسلام نے محنت کو بڑا مقام عطا کیا ہے اور محنت شخص کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’خود کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے‘‘ (طبرانی)۔

آپﷺ کو مزدوروں کے حقوق کا اس حد تک پاس تھا کہ وصال سے قبل آپﷺ نے اپنی  امت کیلئے جو آخری وصیت فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھو اور ان لوگوں کا بھی جو تمہارے زیر دست ہیں (مسند احمد، ابو داؤد)۔ آپﷺ نے مزید فرمایا تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں خود جھگڑوں گا، ان میں سے ایک وہ ہو گا جس نے کسی سے کام کروایا، کام تو اس سے پورا لیا مگر اسے مزدوری پوری ادا نہ کی(صحیح بخاری)۔ 

یکم مئی کو مزدور کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جسے ’’لیبر ڈے‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کیوں منایا جاتا ہے اور کب سے،ماضی میں تقریباً دو سو سال قبل پوری دنیا میں مزدوروں کی حالت قابل رحم تھی۔ مزدور کی زندگی جانور سے بد تر ہوا کرتی تھی، مزدوروں سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ دن میں 16، 16 گھنٹے کا م لیا جاتا اور مناسب اجرت بھی نہیں دی جاتی تھی۔غرض کہ ہر طرح سے مزدوروں کے ساتھ ناانصافی کی جاتی اور ان کا بھر پور استحصال کیا جاتا۔ کام کرنے کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے، ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ فیکٹری، کمپنی یا مل کی طرف سے مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاسکے۔ 

مزدور کی ملازمت کا فیصلہ آجر کی مرضی پر ہوتا۔ ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا تھا اور چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ان تمام مسائل کو حل کرنے کیلئے امریکہ اور یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں۔ 1884ء میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبریونینز نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کچھ مطالبے رکھے گئے جن میں سب سے اہم مطالبہ مزدوروں کے کام کرنے کے16گھنٹوں کو کم کر کے8گھنٹے کیا جائے۔ مزدوروں کا کہنا تھا 8گھنٹے کام کیلئے8گھنٹے آرام کیلئے اور8گھنٹے ہماری مرضی سے گزارنے کیلئے۔ اس مطالبے پر یکم مئی سے عمل کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی،لیکن اس مطالبہ کو تمام قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں یکم مئی کو ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک مطالبات مانے نہیں جاتے یہ تحریک جاری رہے گی۔ 

16گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں 8گھنٹے کام کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ اسی وجہ سے اپریل1886ء تک تقریباً ڈھائی لاکھ سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہو گئے۔ اس تحریک کا آغاز امریکہ کہ شہر شگاگوسے ہوا۔ ہڑتال سے نپٹنے کیلئے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔ یہ اسلحہ اور دیگر سامان پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے مہیا کیا تھا۔ تاریخ کا آغاز یکم مئی سے ہوگیا۔ پہلے روز ہڑتال بہت کامیاب رہی دوسرے دن یعنی2مئی کو بھی ہڑتال بہت کامیاب اور پر امن رہی لیکن تیسرے دن ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پر امن اور نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے چار مزدور ہلاک اور متعدد زخمی ہو گے۔اس واقعہ کے خلاف تحریک کے منتظمین نے اگلے ہی روز4 مئی کو ایک بڑے احتجاجی جلسے کا اعلان کیا۔ جلسہ پرامن تھا،لیکن آخری مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے اچانک فائرنگ شروع کردی۔ پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین میں سے ان پر گرنیڈ سے حملہ کیاگیا ہے،جس کی وجہ سے ایک پولیس والا ہلاک اور کئی زخمی ہوئے، اس حملے کو بہانہ بناکر پولیس نے گھر گھر چھاپے مارے اور بائیں بازو اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ ایک جعلی مقدمے میں آ ٹھ مز دور رہنماؤں کو سزائے موت دی گئی تھی۔

البرٹ پار سن‘ آ گسٹ سپائز‘ایڈولف فشر اور جارج ا ینجل کو 11 نومبر1887ء کو پھانسی دے دی گئی۔لوئیس لنگ نے جیل میں خود کشی کرلی اور باقی تینوں کو1893ء میں معاف کر کے رہا کر دیا گیا۔ مئی کی اس مزدور تحریک نے آنے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے متعلق شعور میں انتہائی اضافہ کیا۔ایک نوجوان لڑکی ایما گولڈ نے کہا تھا کہ مئی1886ء کے واقعات کے بعد میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے سیاسی شعور کی پیدائش اس واقعے کے بعد ہو ئی۔ 

جب مزدوروں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپناسفید جھنڈا ایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کرکے ہوا میں لہرا دیا اس کے بعد مزدور تحریک کا جھنڈا ہمیشہ سرخ رہا۔

برصغیر پاک وہند میں مزدوروں کے اتحاد کو یاد کیا جائے تو اس کی مثال 1862ء میں اپریل مئی کے دوران تقریباً 2100مزدوروں کے ذریعے ہاوڑہ ریلوے اسٹیشن پر کی گئی ہڑتال ہے، اس ہڑتال میں بھی مزدوروں کا اصل مطالبہ کام کے اوقات کو گھٹا کر8 گھنٹے کرنا تھا۔ یکم مئی کو ’’یومِ مزدور‘‘ کے طور پر ہندستان میں 1932ء میں منایا گیا، جس کے بعد سے ہر سال یوم مزدور منایا جانے لگا۔

مزدور طبقے کی عالمی تحریک بڑی تیزی سے پھیلی اور چالیس پچاس برسوں میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مزدور طبقے کا انقلابی سرخ پرچم لہرانے لگا۔اس تحریک اور ان کوششوں سے فیکٹری، مل، کارخانے اور ذرائع آمد ورفت کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے والے مزدوروں کو کسی حد تک راحت مل سکی اور انہیں ان کا حق بھی مل رہا ہے، مگر آج بھی مزدوروں کا ایک طبقہ مشکل ترین زندگی گزار رہا ہے۔ یہ وہ مزدور ہوتے ہیں، جو صبح ہوتے ہی مزدوری کے انتظار میں سڑک کے کنارے، کسی نکڑ یا چوک پر کھڑے ہو کر اپنی روزی کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسے مزدوروں کی جانب توجہ دی جائے، تو ہو سکتا ہے ان کی مشکل آسان ہو جائے۔

آج جہاں مزدوروں کے حقوق سلب کرلئے گئے ہیں وہاں صورتحال یہ ہے کہ حکومتوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود معیشت میں بہتری آنے کی بجائے مزیدابتری آئی ہے،بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ کردیا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں سنگین سیاسی و معاشی بحران ہے جس کی وجہ سے کاروبار بند ہیں، کارخانے اور صنعتی یونٹ شدید دباؤکا شکار ہیں،کارخانوں اور فیکٹریوں کو تالے لگ رہے ہیں،ہزاروں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں جس کے اثرات ان سے وابستہ خاندانوں اور زیر کفالت لاکھوں افراد پر پڑ رہے ہیں۔ 

مزدوروں کا عالمی دن کار خانوں، کھیتوں، کھلیانوں، کانوں اور دیگر کار گاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ عالمی سطح پر مزدوروں کا یہ دن بڑے اہتمام کے ساتھ منا کر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ طبقہ آج بھی سرمایہ داری نظام کے زیرتسلط بری طرح پس رہا ہے جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ موجودہ مہنگائی سے عام آدمی تو متاثر ہوا ہی ہے جبکہ مزدور طبقہ تو عملاً زندہ درگور ہو چکا ہے۔ روزانہ 12 سے 14 گھنٹے کام کرنے والے مزدور کو اتنی اجرت بھی نہیں ملتی جس سے وہ اپنے گھر کی کفالت کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقہ میں خودکشی کا رجحان عام ہے۔ عالمی سطح پر مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا دن منا کر فرض پورا نہیں ہو جاتا اور نہ ہی حکومتوں کو کاغذی کارروائیوں میں ان کی اجرت بڑھا کر مطمئن ہوجانا چاہیے۔ مزدور ایک قابل رحم طبقہ ہے، مہنگائی کے تناسب سے ہی ان کی اجرت مقرر ہونی چاہیے اور ان کے حالات بہتر بنانے کیلئے مروجہ قوانین پر سختی سے عملدرامد کیا جائے، تب ہی ان کے ساتھ یکجہتی کے تقاضے پورے ہوسکیں گے۔ 

 

 ریمنڈ لیوین نے عالم یوم مزدور کی تجویزپیش کی

1889ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء کو یومِ مئی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ اس دن کی تقریبات بہت کامیاب رہیں۔اس کے بعد یہ دن ’’عالمی یوم مزدور‘‘ کے طور پر منایا جانے لگا سوائے امریکہ‘ کینیڈا اورجنوبی افریقہ کے۔  جنوبی افریقہ میں غالباً نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد یوم مئی وہاں بھی منایا جا۰نے لگا۔یکم مئی پوری دنیامیں ’’یومِ مزدور‘‘ کی شکل میں منایا جانے لگا اور دھیرے دھیرے دوسرے ممالک نے بھی یکم مئی کو ’’یومِ مزدور‘‘ کے طور پر منانا شروع کر دیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔