سوء ادب

تحریر : ظفر اقبال


کھلا پھاٹک : ایک بار ہم لوگ مشاعرے میں شرکت کیلئے لاہور سے اسلام آباد جا رہے تھے تو ہمیں اتفاق سے چھوٹے طیارے میں جگہ ملی۔ جس نے ٹیکسی کرنے میں ہی بہت سا وقت گزار دیا۔ ہم میں سے کسی نے پوچھا اسلام آباد کتنی دیر میں پہنچیں گے تو گلزار وفا چوہدری بولے ، اگر وزیرآباد والا پھاٹک کھلا ہوا تو دو گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔

بابا جی کی رہائش 

شاعر خالد احمد ایک بار کہہ رہے تھے کہ میں ہر سال بابا بلھے شاہ کے مزار پر جاتا ہوں۔ وہاں عبادت کے علاوہ صفائی ستھرائی بھی سر انجام دیتا ہوں۔ پاس بیٹھے گلزار وفا چوہدری بولے ، تو وہ دس دن بابا جی کہاں جا کر رہتے ہیں۔

خواب رنگ

یہ سلمان ثروت کا مجموعہ نظم و غزل ہے جسے کولاج پبلیکیشنزنے چھاپا ہے ۔ سرورق وصی حیدر نے بنایا ہے اور قیمت ہزار روپے رکھی ہے۔ انتساب اپنی پہلی خواب گاہ والدہ محترمہ ساجدہ ثروت کے نام ہے۔ ابتدا میں ثروت حسین کا یہ شعر درج ہے۔

بکھر گیا کوئی احساس تو سمٹ نہ سکا 

جو خواب روٹھ گئے پھر نہ لوٹ کر آئے 

پسِ سرورق شاعر کی تصویر کے ساتھ محمد اظہار الحق کی رائے درج ہے ’’ سلمان ثروت نے جب یہ مسودا مجھے بھیجا تو ایک اطمینان اس کے شاعری پڑھنے سے پہلے ہی ذہن میں موجود تھا کہ وہ ثروت حسین کا فرزند ہے۔ 

سلمان کی شاعری ثروت کی شاعری سے بہت مختلف ہے مگر پھر بھی سلمان کی شاعری پڑھنے کے دوران ثروت مسلسل یاد آتا رہا اَلوَلَدْ سِرّ لِاَ بیہِ ، تو سلمان اپنے والد کی اقلیمِ سخن کا سچا وارث ہے۔ اس نے اپنے لیے ایک الگ جہان بنایا ہے۔ اس دنیا میں اسے آسمان کا سرا مل گیا ہے۔ خاک دان سے تعلق رکھنے کے باوجود اس کے ارد گرد خلائے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آسمان کے مضافات میں جا پہنچتا ہے اور پھر حسن کا نظارہ عرش پر کرتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا شاعر دنیا سے کنارہ کش ہو چکا ہے۔ اس دنیا کی سب سی بڑی حقیقت محبت ہے اور محبت سے اس نے اغماض نہیں برتا۔ محبت کا نہ صرف یہ کہ وہ قائل ہے بلکہ وہ اس کی تلقین بھی کرتا ہے۔ محبت میں وہ زندگی کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔

ڈاکٹر وحید احمد کے مطابق خدا ، کائنات ، تنہائی ، بے یقینی اور محبت کی طرح خواب ایک بڑا بنیادی موضوع ہے اس پر ازل سے انسان کا ذہن مرکوز ہے۔ شعور اور تحت الشعور سوچ کی کھڈی کے تانے بانے ہیں۔ سوچ کا پہناوا پہنا جا رہا ہے جس پر خواب کے نقوش ہیں۔ 

سب سے زیادہ خواب شاعر دیکھتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ شاعری خواب ناکی سے براہِ راست متاثر ہے تو غلط نہ ہوگا ۔سخن آرائی کا خمیر خواب و خیال سے اٹھتا ہے۔ شاعر کی دنیا میں ثراب اور سمندر کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنا ممکن ہے۔

اور اب اسی مجموعے میں سے یہ غزل:

غزل

ہو جاؤں گا بے ماجرا فکر و بیان میں 

آئی نہیں تھی رات یہ وہم و گمان میں 

خود سے شکست کھانا ہے کس درجہ کرب ناک 

جینا بھی جیسے موت ہو اس امتحان میں 

دل اور دماغ لے بھی چکے اپنی اپنی راہ 

تنہا میں رہ گیا ہوں کہیں درمیان میں 

میرے خیال و خواب کی دنیا اجڑ گئی 

رہتا ہے ایک رنج ہمہ وقت دھیان میں 

کتنے ہی رت جگوں کی مسافت پہ ہے سحر 

اور نیند آرہی ہے ابھی سے اڑان میں 

آیات کر رہی ہیں اشاروں میں گفتگو 

کیسی نشانیاں ہیں یہاں ہر نشان میں 

اے کاش مل ہی جائے کہیں ساتویں جہت 

اُکتا گئی ہے سوچ زمان و مکان میں 

آج کا مطلع

مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ، ظفر 

صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مطیعِ اعظم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟