شکیب جلالی جدید اردو غزل کے نمائندے شاعر

تحریر : ذوالفقار احسن


کسی شاعر کو کسی ایک سانچے میں رکھ کر دیکھنا شروع کر دیں تو کئی ایک پرت ایسے بھی ہوں گے جو ہمیشہ مخفی رہیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک پرت ایسا ہو جو دکھائی دینے والی پرت پر حاوی نظر آئے مگر مخفی پرت پر نگاہ پڑ جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہم نے جن زاویوں کو ایسے ہی صرف نظر کر دیا تھا وہ تو نظر انداز کرنے والے نہیں تھے۔

یہی کچھ شکیب کے ساتھ ہوا ہے۔ ناقدین نے ہمیشہ اس کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے غم واندوہ، بے بسی ولاچارگی، رنج والم، سوگواری، اداسی اور ملال جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ اس کی المناک موت کو بھی سامنے رکھا ہے۔اس سے اس کے ساتھ ایک ہمدردانہ رویہ بیدار ہو جاتا ہے اور اس کی شاعری پر بحث کرنے سے پہلے ہی ناقدین اس کی موت شعروں میں تلاشنے لگتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رویہ محض رسمی اور شکیب کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ 

پروفیسر ریاض احمد شاد نے شکیب کے بارے میں لکھا ہے:’’شکیب کے حالات زندگی اتنے درد ناک ہیں کہ ایک عام سا حسد رکھنے والے شخص کو بھی رلا دیتے ہیں۔ ان حالات نے ظاہر ہے خود اس پر بڑے شدید اثرات مرتب کئے ہوں گے۔ ایسا شخص اگر رنج و الم سے بھیگی ہوئی شاعری کرے تو وہ ظاہر ہے کہ برائے فیشن نہیں ہوگی اور تاثیر کے لحاظ سے بھی بڑی نرول شاعری ہو گی، یہی وجہ ہے کہ شکیب کا نام سنتے ہی عام طور پر ایک ایسے شاعر کا تصور ذہن میں آتا ہے جو غم، اداسی، بے بسی اور غریبی کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ ایک عام قاری اس تصور کے تحت شکیب کا مطالعہ کرتا ہے اور شکیب کے حالات زندگی میں بے بسی اور بے چارگی کے عناصر کو بڑی سوگواری اور ملال کے ساتھ اس کی شاعری میں شامل کرکے شاعر کے ساتھ ہمدردی کا ثواب حاصل کرتا ہے۔ اس پر کچھ نقادوں کے ماتمی بیانات قاری کی اشکباری میں مزید اضافہ کرتے ہیں‘‘۔

ناقدین شکیب جلالی کی شاعری کو صرف اس کی موت کے حوالے سے ہی دیکھتے چلے آئے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ شکیب کے ہاں غم و اندوہ اور رنج و الم ایسے موضوعات عنقاہیں یقیناً ایسے اشعار مل جائیں گے جن میں وہ ایک بے بسی کے عالم میں سسکیاں لیتا ہوا بھی محسوس ہوتا ہے مگر شکیب نے ایک عام شاعر کی طرح زندگی کے نشیب و فراز، سماجی و معاشرتی رویوں کا بھی بنظر غائر مشاہدہ کیا، اسے بھی ایک عام شاعر کی طرح مناظر فطرت سے دلچسپی رہی۔ اسے بھی قوس قزح کے رنگ اچھے لگتے تھے۔ اسے بھی زندگی سے پیار تھا، اسے بھی خوبصورتی اچھی لگتی تھی۔ اسے بھی لہلہاتے کھیت، ندی، نالے، تتلیاں، جھیل، کنول، آسمان، بیلیں، دریچہ، جگنو، پھول، خوشبو سب اچھے لگتے تھے اور اس نے ان پر لکھا بھی ہے۔ تشبیہ اور استعاروں میں ایک تازگی کا احساس ہمیں شکیب کے ہاں ملتا ہے، وہ شعر کہتے ہوئے ایک پوری تصویر قاری کے سامنے لانے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے اور ایسا منظر نامہ پیش کرتا ہے کہ قاری کو کچھ دیر کیلئے ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

شکیب جلالی کی شاعری میں رجائیت کا پہلو بڑا واضح نظر آتا ہے۔ وہ زندگی سے پیار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس میں جینے کی امنگ بھی نظر آتی ہے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ قاری کو بھی ایک امنگ اور حوصلے کی دعوت دیتا ہے۔شکیب کی شاعری میں کہاں موت کا اعلامیہ دکھائی دیتا ہے؟ ناقدین نے ہمیشہ اپنے طرف سے بھی کچھ رنج و الم اس کے کھاتے میں ڈال کر ہمدردانہ رویہ رکھ کر اس کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے، اور صرف ایک پرت پر ہی نظریں جمائے رکھی ہیں، ورنہ ایسے اشعار ناقابل فراموش ہیں، جن میں ایک جینے کی آس اور اُمنگ نظر آتی ہے، جن میں دور دور تک بھی موت کا شائبہ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک جنیوئن فنکار کے ساتھ ایسا رویہ نقصان دہ ثابت ہوا کرتا ہے۔ شکیب جلالی اردو غزل میں جہاں نئی تشبیہات و استعارے لے کر آیا وہاں وہ روایتی غم و اندوہ اور رنج و الم کو بھی اپنے ساتھ لایا جو ہماری اردو شاعری کا ایک خاصا رہا ہے اور تقریباً ہر شاعر نے رنج و الم کے اشعار کہے ہیں۔ میر تقی میر، غالب، فانی، داغ، فراز، ناصر کاظمی ، سمیت ہر شاعر نے اس موضوع پر لکھا ہے۔ اگر شکیب نے بھی رنج و الم کے اشعار کہے ہیں تو ان اشعار کو اس کی موت کے ساتھ نتھی کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ اور صرف ایک ہی رخ سے شکیب کا مطالعہ کرنا شکیب کے ساتھ زیادتی نہیں؟

ہمیں شکیب جلالی کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے قبل اس وقت کی اردو غزل کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے، اس ماحول کو بھی دیکھنا چاہئے جس ماحول میں اردو غزل زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی ایسے میں شکیب جلالی نے غزل کو نئی ڈکشن، نئے استعارے اور نئی تراکیب عطا کیں، جس سے غزل کے وقار میں اضافہ ہوا اگر یہ کہا جائے کہ یہ دور دراصل غزل کی نشاۃ ثانیہ کا دور تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ شکیب جلالی نے شاید اسی لئے کہا تھا:

شکیب اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

شکیب جلالی کی شاعری میں رجائیت کے پہلو کو قارئین سمیت ناقدین نے بھی ہمیشہ نظر انداز کرکے صرف اس کے رستے ہوئے ناسوروں کو کریدنے کی کوشش کی ہے اور اس کے ذاتی حالات، اس کی ذاتی پریشانیوں کو اس کی شاعری میں ڈھونڈنے کا کام کیا ہے۔ اگر قاری پہلے ہی سے ایک ذہن بنا لے کہ میں نے شکیب کی شاعری میں اس کی موت کا اعلامیہ تلاش کرنا ہے تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ضرور ہو جائے گا، مگر اس کے ساتھ وہ کئی دیگر موضوعات کو یکسر نظرانداز کرتا چلے جائے گا، اس رویے نے شکیب جلالی کے مجموعی تاثر کو بھی خراب کیا ہے۔ شکیب کی شاعری کے مطالعہ کے بعد ایک تاثر جو ابھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ شکیب ایک رومانوی شاعر ہے۔ اس کے ہاں رومان بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ قلبی تاثرات کو کمال ہنر مندی سے لفظوں کا پیرہن عطا کرنے کا سلیقہ رکھتا ہے۔شکیب کا مطالعہ ہمیں تعصب کی عینک اتار کر کرنا ہوگا، پھر اس شاعر کو اس کا جائز اور صحیح مقام مل سکے گا اور یہ بھی اندازہ ہوگا کہ اس نے دکھ اوریاسیت کے علاوہ بھی بہت کچھ کہہ رکھا ہے ۔

شکیب جلالی یکم اکتوبر1934ء کو قصبہ جلالی تحصیل و  ضلع علی گڑھ(انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی رکھا گیا۔ شکیب جلالی کے والد سید صغیر حسین اور ان کے دادا سید شفاعت حسین دونوں محکمہ پولیس میں ملازمت کرتے تھے۔ اس کا ذکر امتیاز کلثوم نے اپنے ایم اے کی سطح کے تحقیقی مقالے میں بھی کیا ہے۔ اس مقالے کا ذکر کرتے ہوئے شہزاد احمد کچھ یوں بیان کرتے ہیں:’’شکیب کے دادا سید شفاعت حسین اور اس کے والد سید صغیر حسین رضوی دونوں پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتے تھے( ظہیر کاشمیری کے بعد یہ دوسرے ہم عصر شاعر ہیں جن کے والد پولیس میں ملازم تھے) دادا اور والد دونوں ملازمت کے سلسلے میں یوپی کے مختلف علاقوں میں تعینات ہوتے رہے مگر ان کا وطن جلالی(علی گڑھ) تھا۔ عملی طور پر شکیب کے دادا بدایوں میں آ کر آباد ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں بدایوں میں پیری مریدی کا مرض عام تھا۔ یہی سانحہ صغیر حسین صاحب کو پیش آیا۔ وہ اس چکر میں ایسے پڑے کہ دنیا کا ہوش نہ رہا اور کچھ عرصے کے بعد وہ پاگل قرار پائے اور پہلے بریلی اور اس کے بعد بنارس کے پاگل خانے میں داخل کر دیئے گئے۔ایک ٹرین حادثے میں ان کی والدہ کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں اور کچھ دن بعد وہ ہلاک ہو گئیں۔ اس  وقت شکیب کی عمر نو برس تھی۔ چنانچہ یہ واقعہ بری طرح ان کے ذہن میں نقش ہو گیا اور پھر ساری عمر کسی نہ کسی طرح ان پر اثر انداز ہوتا رہا۔ فرائیڈ کہتا ہے کہ بچے کی عمر خواہ کچھ بھی ہو والد کے انتقال کے بعد ہی وہ پوری طرح فرد بنتا ہے مگر شکیب کا سلسلہ عجیب تھا ۔اس کے والد زندہ بھی تھے مگر نہ ہونے کے برابر کیونکہ وہ ذہنی ہسپتال یں داخل کرائے جا چکے تھے، شکیب میں احساس ذمہ داری اس قدر تھا کہ وہ بچپن ہی میں اپنی بہنوں سے یہ کہتے تھے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ میں زندہ ہوں، تمام گھر کو سنبھال لوں گا‘‘۔

جدید اردو غزل کا یہ نمائندہ شاعر12نومبر 1966ء کو ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے روٹھ گیا۔ اس کی زندگی کا ٹمٹماتا ہوا چراغ گل ہو گیا۔ اور یہ شرف بھی سرگودھا کے حصے میں آیا کہ وفات کے بعد شکیب جلالی کو سرگودھا میں ہی دفن کیا گیا۔ اس حوالے سے اس کے انتہائی قریبی دوست افضل منہاس کہتے ہیں:

آج سرگودھا کی مٹی کتنی افضل ہو گئی

اس کے دامن میں شکیب جیسا سخن ور سو گیا

چند اشعار 

موتی کیا کیا نہ پڑے ہیں تہ دریا لیکن

برف لہروں کی، کوئی توڑنے والا ہی نہیں

………………

چلو گے ساتھ میرے آ گہی کی سرحد تک

یہ رہگزار اترتی ہے گہرے پانی میں

………………

کیوں رو رہے ہو راہ کے اندھے چراغ کو

کیا بجھ گیا ہوا سے لہو کا شرار بھی

………………

کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے

عریانیوں کو اوڑھ لیا شال کی طرح

………………

کتنے طوفان اٹھے، کتنے ستارے ٹوٹے

پھر بھی ڈوبا نہیں اب تک دل بیدار یہاں

………………

کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم

ڈوبے تھے گہری رات میں کالے نہیں ہوئے

………………

توڑ کر حلقہ شب ڈال کے تاروں پہ کمند

آدمی عرصہ آفاق پہ چھا جائے گا

………………

ٹھوکر سے میرا پائوں تو زخمی ہوا ضرور

رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا

………………

پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں

پھر آئینے میں چوم لیا اپنے آپ کو

………………

تعریف کیا ہو قامت دلدار کی شکیب

تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو

………………

غزل

خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے

یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں

میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ہو جائے

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں

خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے

مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی

نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہو جائے

شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭