یادرفتگاں: آج 75ویں برسی حسرت موہانی نئے عہد اور ماحول کے آئینہ دار

تحریر : ڈاکٹر محمد عرفان پاشا


غزل کو نئی زندگی اور بانکپن بخشنے والے اردو کے قادرالکلام شاعرحسرت موہانی کی آج 75 ویں برسی ہے۔ان کا اصل نام سید فضل الحسن جبکہ تخلص حسرت تھا اور بھارت کے قصبہ موہان ضلع انائو میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔حسرت 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے تھے۔

آج جب کہ شاعری کا مقصد محض اظہار و ابلاغ تک محدود نہیں ہے،بلکہ شعر میں شعریت کی تلاش تک جا پہنچا ہے۔ ایسے میں حسرت موہانی کی شاعری پر ہماری نگاہ ٹھہرتی ہے اوریہ معلوم ہوتا ہے کہ حسرت موہانی بھی اردو شاعری کی تاریخ میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں۔ ان کی شاعری اپنے عہد کا آئینہ ہے۔ اس عہد میں جب پرانی قدریں دم توڑ رہی تھیں اور نئی قدریں پیدا ہو رہی تھیں۔ یہ وہ پرآشوب عہد تھا کہ سماجی، سیاسی اور معاشی، بحران تخلیق کار کی دنیا میں بھی ایک ہلچل بپا کئے ہوئے تھا۔ یہی عوامل حسرت موہانی کی شاعری کے بھی محرک بنے۔ غزل گوئی میں عشق و عاشقی کا تذکرہ نہ ہو، تصور کے موضوعات پر اظہار خیال نہ ہو تو پھر غزل کی روایت میں اجتہاد کی صورت نظر آتی ہے جیسا کہ جدید شاعروں نے اپنی شاعری میں رویہ اپنایا ہے۔ حسرت کی شاعری بھی ان تمام موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ حسرت کی شاعری پر نگاہ ڈالنے سے پہلے ان کے عہد پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ اس کی روشنی میں حسرت کی شاعری کے موضوعات اور ان کے فن کی جدت کا تجزیہ کر سکیں۔

حسرت موہانی کا زمانہ 1857ء کے بعد کا زمانہ ہے، ان کا بچپن اس دور انتشار سے گزرا ہے جس میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے انتشار اور تباہی کے بعد ایک سکوت کی کیفیت طاری تھی ۔سینکڑوں برس کی مسلم تہذیب کا چراغ مدھم ہوتا جا رہا تھا اور مغربی تہذیب کی مینا کاری سے اس میں کچھ نئے نقوش پیدا ہو رہے تھے جو کبھی صاحب اقتدار رہے تھے، محکومیوں کے دردو داغ سے آشنا ہو رہے تھے، دوسری طرف وہ صورت حال رفتہ رفتہ سامنے آ رہی تھی، جو ’ ’ہوم رول لیگ‘‘ کے ذریعہ خوش آئند مستقبل کی تصویر دکھا رہی تھی۔ غرض کہ اس دور کا ہر شاعر و ادیب امید و یاس کے دوراہے پر کھڑا تھا۔ حسرت بھی اس دور کے بطن سے ابھرے تھے اور نئے دور کی تصویر دیکھ رہے تھے۔ زندگی میں انہوں نے انقلاب کی صورت اس وقت دیکھی جب ہندوستانی پھر سے اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہوئے۔ قومی جذبات، سیاسی اور سماجی بیداری کی لہر طلبہ کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ علی گڑھ تحریک اپنی مکمل شکل میں 1870ء کے لگ بھگ شروع ہوئی ۔یہ تحریک ایک سیاسی، سماجی اور تعلیمی تحریک ہی نہیں تھی بلکہ ایک ابدی تحریک بھی تھی۔ یہ اردو ادب میں پہلی منظم تحریک تھی، جس نے اسے نئے عہد اور ماحول کا آئینہ دار بنایا۔ سر سید کی اصلاحی تحریک نے اردو ادب کو خواب و خیال اور طوطا مینا کی دنیا سے نکال کر حقائق، سائنس، فلسفہ، مذہبیات،سیاست، تاریخ، سوانح اور تنقید کی دنیا میں لانے کی کامیاب کوشش کی۔سر سید نے ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعہ نثر و نظم کی دنیا بدل ڈالی اور حالی ’’ مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ لکھ کر ’’ دنیائے شعر و ادب‘‘ میں انقلاب لانے کا سبب بنے۔ غالب کو غزل کی تنگ دامانی کا شکوہ تھا۔ حالی نے غزل کی اصلاح پر زور دیا تھا کیونکہ غزلیہ شاعری روبہ انحطاط تھی۔ حالی کی ’’ مسدس‘‘ اردو کی پہلی نظم ہے جو اس بات کا ثبوت پیش کرنے کیلئے کافی ہے کہ حالی اردو شاعری سے کیا توقع رکھتے تھے؟۔

ان تمام عوامل نے حسرت کی زندگی کو بھی متاثر کیا اور حسرت کی شاعری کو بھی۔ اس لئے حسرت نے اپنے اسلاف کی طرح گل و بلبل کی کہانی نہیں چھیڑی اور قصہ چشم و رخسار سے اجتناب کی خواہش ظاہر کی، مگر حسرت صوفی کا دل لے کر پیش ہوئے تھے، حسن مجازی میں حسن حقیقی کے متلاشی تھے۔ اسی لئے انہوں نے غزل میں اپنے زمانے کی عام نہج سے ہٹ کر ایک راہ اپنائی۔ایسے حالات میں حسرت غزل گوئی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں، اور جب ہم ان کو پڑھتے ہیں تو ہمیں ان کی غزلوں میں سنجیدگی، پاکیزگی، روحانیت، حقیقت، درد و اثر، سوزو گداز اور خلوص و محبت کے نشانات ملتے ہیں۔ ان کی غزلوں کو پڑھنے  سے ہمارے اندر زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ غزل کے تن مردہ میں جان آ گئی ہے، اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اردو غزل میں توانائی لا کر اسے ایک واضح سمت عطا کی۔

حسرت موہانی کی شخصیت مختلف خانوں میں بٹی ہوئی تھی اور ہر خانے میں رہ کر انہوں نے کارنامے انجام دیئے تھے۔ حسرت کا کوئی مطالعہ ان کارناموں کو پیش نظر رکھے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حسرت موہانی کی شاعری کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی ہے کہ ان کے دوسرے کارناموں کو لوگوں نے فراموش کر دیا، حالانکہ وہ صرف ایک اچھے شاعر ہی نہیںبلکہ ایک اچھے تذکرہ نگار، نقاد، صحافی اور سیاست دان بھی تھے۔ وہ اگر ایک طرف جدوجہد آزادی میں پیش پیش رہے تو دوسری طرف شعر و ادب کی تاریخ میں بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں وہ بیک وقت اسلاف کی صحت مند روات کے امین بھی تھے۔

حسرت موہانی کی شخصیت کی تشکیل میں علی گڑھ کالج کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1884ء میں اردو مڈل کے امتحان میں پورے صوبے میں اوّل آئے۔ بی اے کا امتحان دیا اور نتیجہ نکلنے سے قبل، رسالہ ’’ اردوئے معلیٰ‘‘ نکالا اور سیاست و صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ دراصل یہیں سے ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

حسرت کی شاعری پر ان کے خاندان کے علمی اور ادبی ماحول کا بڑا اثر تھا۔ وہ لڑکپن سے ہی نسیم دہلوی کے کلام سے بے حد متاثر تھے۔ اسی لئے انہوں نے ان کے شاگرد امیر اللہ تسلیم لکھنوی سے اصلاح لینے کا فیصلہ کیا اور ان کے سلسلہ تلمذ میں داخل ہو گئے۔حسرت کا دیوان پہلی بار فروری 1914ء میں شائع ہوا تھا’’ کلیات حسرت‘‘ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ ان کی پہلی غزل 1893ء کی ہے اور آخری غزل 1950ء کی، یعنی ان کی شاعری کا کل زمانہ 58سال پر محیط ہے۔ اس مدت پر پھیلی ہوئی فنی کاوش بہرطور اپنی ابتدا کی منزل سے ارتقا تک ایک تسلسل رکھتی ہے اور اس عرصے میں حسرت کا فن آگے کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔سید سلیمان ندوی کا یہ کہنا کہ حسرت نے غزل کو لکھنئو کے تصنع سے الگ کیا اور غالب کی مشکل گوئی کے کوچے سے نکالا۔(حالانکہ یہی مشکل گوئی تو غالب کے فن کی جان ہے۔)

حسرت کی شاعری ان کے عشق کی داستان ہے، وہ محبوب مجازی ہو یا حقیقی دونوں معاملے میں حسرت پر خلوص ہیں۔ انہوں نے عشق مجازی کی کیفیتوں کو جس نزاکت اور لطافت سے پیش کیا ہے وہ انہیں کا حصہ ہے۔ ان کا عشق ماورائی نہیں بلکہ ان کے یہاں میر و مومن کی طرح ارضیت نمایاں ہے۔ ان کے اشعار میں ایک چلتے پھرتے محبوب کی پرچھائیاں صاف نظر آتی ہیں۔ پھر ان کے محبوب کے نازو انداز بھی خیالی نہیں۔ ان کے یہاں جہاں عشق کی داخلی کیفیات اور قلبی و اردات کا بیان ہے۔ وہیں محبوب کے ناز و انداز، قدو قامت اور جمال رخ زیبا کا ذکر بھی ہے۔ان کے یہاں داخلیت اور خارجیت کا ایک مرکب اور متزاج ملتا ہے۔ ان کے کلام میں میر کے عشق کی بلندی ،مصحفی کا حسیاتی انداز اور مومن کی معاملہ بندی اس طرح گھل مل گئی ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حسرت نے جذبہ اور جمال کی آمیزش سے اردو غزل کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا۔ 

حسرت نہ صرف ایک قدیم روایت عظمیٰ کی آخری بڑی یادگار ہیں، بلکہ اردو غزل میں برائے نام جو کچھ بھی نئی تحریک کے اثرات پائے جاتے ہیں اس کے موجد بھی ہیں۔ حسرت کے یہاں اردو غزل کی پوری انجمن آباد ہے، وہ ہمارے آخری کلاسیکل شاعر ہیں‘‘۔

حسرت کی شاعری کا ایک رخ تو یہ ہے جو عشقیہ شاعری کہلاتی ہے جس میں سوزوگداز، حقیقت، نشاط و شادمانی، خوش بیانی، جدت مضمون اور منفرد طرز ادا پائی جاتی ہے۔ حسرت کی شاعری کے مطالعہ کا دوسرا رخ تصوف ہے ۔ حسرت نے نہ صرف قدیم رنگ سخن کی صالح روایات کو برقرار رکھا بلکہ جدید غزل کو فصاحت و سلاست اور جدت و ندرت کے ساتھ ساتھ وسعت و جامعیت بھی عطا کی۔

غزل

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو

پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی

دشوار ہے رندوں پر انکارِ کرم یکسر

اے ساقی جاں پرور کچھ لطف و عنایت بھی

دل بسکہ ہے دیوانہ اس حسن گلابی کا

رنگیں ہے اسی رو سے شاید غمِ فرقت بھی

خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا دے گی

اے حسن حیاپرور شوخی بھی ،شرارت بھی

برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی

بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی

رکھتے ہیں مرے دل پر کیوں تہمتِ بیتابی

یاں نالہ مضطر کی جب مجھ میں ہو قوت بھی

اے شوق کی بیباکی وہ کیا تیری خواہش تھی

جس پر انہیں غصہ ہے انکار بھی حیرت بھی

ہر چند ہے دل شیدا حریتِ کامل کا

منظور دعا لیکن ہے قیدِ محبت بھی

منتخب شعر 

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن

آیا میرا خیال تو شرما کے رہ گئے

…………

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

…………

عشاق کا دل نازک، اس شوخ کی خو نازک

نازک اسی نسبت سے ہے کارِ محبت بھی

…………

حسن بے پرواہ کو خودبین و خود آرا کردیا

کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کردیا

…………

روح آزاد ہے خیال آزاد

جسم حسرت کی قید ہے بے کار

…………

گستاخ دستیوں کا نہ تھا مجھ میں حوصلہ

لیکن ہجوم شوق نے مجبور کر دیا

…………

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

وفاقی بجٹ۔۔۔۔معاشی ٹیم بیک فٹ پر کیوں؟

نئے مالی سال کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے مگر حکومت اور حکومتی شخصیات اس بجٹ پر بیک فٹ پر نظر آرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پہلی مرتبہ وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد ایف بی آر میں ہونے و الی ٹیکنیکل بریفنگ منسوخ کردی۔ یہ ٹیکنیکل بریفنگ بجٹ میں اٹھائے گئے ریونیو اقدامات کی تفصیلات بتا نے کیلئے ہوتی ہے۔

پنجاب کا بجٹ کیسا ہو گا ؟ ریلیف یکساں کیوں نہیں؟

مالی سال 2025-26ء کے بجٹ کے حوالے سے ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ یہ حکومتی خود اعتمادی کا مظہر ہے اوراس پر کوئی سیاسی دبائو نہیں۔ بجٹ کے ذریعے حکومت نے خود کو تنخواہ دار طبقہ میں سرخرو کرنے کی کوشش کی ہے جو اس وقت مہنگائی کا بُری طرح شکار ہے۔

سندھ بجٹ،ریلیف کی امید یا ٹیکسوں کا بوجھ؟

سندھ میں گزشتہ دو ہفتے کے دوران متعدد اہم اقدامات کئے گئے۔ 15جون سے پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی ہوگی، کراچی میں فور سیٹر رکشوں پر پابندی سمیت ون ویلنگ اور رانگ سائیڈ پر چلنے والوں کے خلاف بھاری جرمانوں کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔

وفاقی بجٹ اور قبائلی اضلاع کی ترقی کا مطالبہ

وفاقی بجٹ پر خیبر پختونخوا کے عوام اور تاجروں کی جانب سے ملاجلا ردعمل آرہا ہے۔ سرحد چیمبر آف کامرس نے چھوٹے تاجروں پر ٹیکس کو مسترد کیا ہے، صنعتوں کیلئے ایف بی آر کے نئے قوانین پر بھی تاجروں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے احتجاج کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔

بجٹ: حالات اور ترجیحات

بلوچستان کا آئندہ مالی سال کا بجٹ 20جون کو پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ محکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق صوبائی بجٹ کا مجموعی حجم 1000ارب روپے سے زائد ہوگا اور محکمہ تعلیم کیلئے سب سے زیادہ رقم رکھی جائے گی۔

مستقل چیف جسٹس، تقرری میں رکاوٹ کیوں؟

پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے اعلیٰ فوجی حکام کے ساتھ لائن آف کنڑول کے پانڈو سیکٹر میں اگلے مورچوں پر تعینات افسروں اور جوانوں کے ساتھ عید منائی۔