آپریشن بنیان مرصوص ،کامیابی پر نماز شکرانہ
پاکستان میں سیاسی جماعتیں آپس میں کتنی ہی دست و گریباں ہوں لیکن بات جب قومی وحدت و سالمیت کی آجائے تو یک جان ہوجاتی ہیں۔ اس ایک نکتے پر کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔
ایسا ہی بھارتی جارحیت کے خلاف ہوا، کیا پیپلز پارٹی اورکیا مسلم لیگ (ن) یا ایم کیو ایم یا جماعت اسلامی، سبھی کا ایک ہی مؤقف تھا کہ بھارت کو سبق سکھانا ضروری ہے۔ ملک بھر کی طرح سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں بھی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سمیت عوام نے بھارت کے خلاف احتجاج کیا، ریلیاں نکالیں اور بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے اور جب اللہ کے حکم سے فتح نے قدم چومے تو لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں، شکرانے کے نوافل ادا کیے اور پاک فوج کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر کراچی میں پاک فوج، پاکستان رینجرز سندھ اور پاکستان کوسٹ گارڈ کی جانب سے نمازِ شکرانہ ادا کی گئی جس میں کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل اویس دستگیر نے بھی شرکت کی، صوبے بھر میں بھی نماز شکرانہ کے اجتماعات ہوئے۔بلاول بھٹو زرداری کے بیان نے تو دل موہ لیا، انہوں نے مودی سرکار کو واضح پیغام دیا کہ دریائے سندھ ہمارا ہے، اس میں پانی بہنے دیا جائے، دریا میں یا تو ہمارے حصے کا پانی بہے گا یا پھر اُن کا خون بہے گا۔انہوں نے کہا کہ سندھو دریا کے وارث ہم ہیں اور ہمیں اس کا تحفظ کرنا آتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے بھارتی حکومت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی مذمت کی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت میں پانی تقسیم ہوتا ہے، ورلڈ بینک معاہدے کا ضامن ہے۔ تازہ خبر کے مطابق دریائے سندھ میں اس وقت پانی کی آمد ایک لاکھ 8 ہزار 400 اور اخراج 82 ہزار کیوسک ہے۔
اب ذرا حکومت سندھ کی بات کرلیتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت آج کل چھٹی پر ہے، نہ کوئی بیان اور نہ کوئی دعویٰ البتہ چھوٹی موٹی خبریں آرہی ہیں جیسا کہ سیکرٹری ماحولیات آغا شاہنواز کا بیان سامنے آیا ہے کہ پلاسٹک بیگز کی بندش پر حکومت عملی اقدامات کر رہی ہے اب کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی، 15جون حتمی تاریخ ہے اس کے بعد سخت کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ ان کے مطابق کراچی پلاسٹک بیگ مینوفیکچررز اینڈ ڈیلرز ایسوسی ایشن کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ ماحول دوست متبادل کی طرف نہ آئے تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔صوبے کی فضا انتہائی مکدر ہوچکی ہے، گاڑیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں ماحول کو خراب کرتا ہے، ماحولیاتی آلودگی پھیلاتا ہے، ماحول کے خلاف کوئی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات کا سُن کر بہت خوشی ہوئی، عوام کو صحت مند ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ صرف انسانوں بلکہ زمین کے لیے بھی خطرناک ہیں، البتہ اگر وہ شہر میں چلنے والے رکشوں، پرانی کھٹارا بسوں، بے ہنگم اور ٹوٹے پھوٹے ٹرکوں پر نظر ڈالیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ آلودگی میں کمی لانے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ماحول بہتر کرنا ہے تو ہر وہ چیز جو ماحول کو خراب کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے اسے ٹھیک کرنا ہوگا۔ صرف یہی نہیں سڑکوں پر تجاوزات اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے ہونے والے ٹریفک جام سے بھی بے پناہ آلودگی پھیلتی ہے، ہزاروں لاکھوں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور تپش ماحول کے لیے کتنی نقصان دہ ہے اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی کچھ فعال نظر آرہی ہے، مبینہ طور پر غیر معیاری ادویہ کی خریداری کے خدشے کے پیش نظر محکمہ صحت ادویات خریداری کے آڈٹ کے لیے آڈیٹر جنرل کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کیونکہ پی اے سی کے اجلاس کے دوران صوبائی محکمہ صحت چھ ارب روپے کا آڈٹ ریکارڈ فراہم نہیں کر سکا۔ ڈرگ انسپکٹرز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے انکوئری کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت نثار کھوڑو نے کی اور 2018ء اور 2019ء میں محکمہ صحت آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران دواؤں کی خریداری کا طریقہ کار بھی پوچھا گیا اور یہ کہ خریداری کے لیے کس معیار کے تحت کمپنیوں کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔
عید قرباں کی آمد آمد ہے اور کراچی میں مرکزی مویشی منڈی قائم ہوچکی ہے، ہزاروں کی تعداد میں جانور لائے گئے ہیں، خریداری بھی جاری ہے البتہ جانوروں کی قیمتوں نے شہریوں کے ہوش اُڑا دیے ہیں۔ غیرقانونی مویشی منڈیوں کے خلاف کمشنر کراچی نے دفعہ 144نافذ کردی ہے جو 9جون تک برقرار رہے گی۔ اس کے تحت کسی بھی قسم کی غیرقانونی منڈی نہیں لگائی جاسکتی البتہ شہر کے مختلف مقامات پر منڈیاں قائم کرنے کے لیے اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔ تجربہ یہ کہتا ہے کہ اجازت نامہ دیں یا نہ دیں شہر میں ملی بھگت سے بڑی تعداد میں مویشی منڈیاں قائم ہوجاتی ہیں۔ پولیس کو بھتا دیں اور بیچ سڑک پر کھڑے ہوکر جانور بیچیں کوئی نہیں روکتا۔ یہاں ذمہ داری صرف انتظامیہ کی نہیں ، شہریوں کو بھی غیرقانونی منڈیوں سے جانوروں کی خریداری نہیں کرنی چاہیے۔ قانون کی پاسداری تو سب پر لاگو ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں عوام کی اکثریت خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔