پاکستان کی بھارت پر سیاسی اور عسکری برتری
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی یا بھارت کے جنگی جنون پر پاکستان نے ہر محاذ پر بھارت کے مقابلے میں اپنی برتری منوائی ہے۔
بھارت اس جنگ میں سیاسی، دفاعی اور سفارتی سطح پر سیاسی تنہائی کا شکار ہوا ہے اور دنیا میں اس کے مؤقف کو پذیرائی نہیں مل سکی۔یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت پر بھارت کے اندر سے بھی بہت تنقید ہو رہی ہے اور تنقید کرنے والوں کے بقول مودی کی اس جنگ نے بھارت کو بھارت میں اور عالمی دنیا میں تنہا کر دیا ہے ، جبکہ پاکستان کی سفارتی اور دفاعی صلاحیت اور اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان نے عملاً بھارت کے خلاف جو کچھ کیا وہ اپنے دفاع میں کیا ہے جبکہ بھارت کی ننگی جارحیت ظاہر کرتی تھی کہ اس پر پاکستان دشمنی کا بھوت سوار ہے۔لیکن پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سمیت اور اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا نے بھارت کے خلاف اس جنگ میں بہت ذمہ دارانہ اور بھر پور مؤقف اختیارکیا اور ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس پر عالمی دنیا میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔اچھی بات یہ ہے پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کا رویہ بھی اس بار حکومت اور فوج کے ساتھ مثالی رہا اور انہوں نے بھارت کے خلاف اپنے تمام تر سیاسی اختلافات کو بھلا کر ایک ہونے کا عملی ثبوت دے کر ثابت کیا کہ سب سے پہلے ملک کی اہمیت ہوتی ہے۔ بھارت کے میڈیا نے اس جنگ میں سنگین غیر ذمہ دارانہ کھیل کھیلا اور بھارتی کے میڈیا پر اس کے کردار کی وجہ سے پوری دنیا میں تنقید ہو رہی ہے جبکہ پاکستان کے میڈیا کو ایک ذمہ دار میڈیا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کشیدگی میں اس تاثر کی بھی نفی ہوئی کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک کمزور حریف ہے اور ہم بھارت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے ثابت کیا کہ ہم بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔بھارت کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے اس خطے کی سیاست میں اس کا کردار طاقت کے تناظر میں کمزور ہوا ہے اور پاکستان خطے میں ایک نئی سیاسی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس کا اعتراف عالمی دنیا میں تسلسل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔اگرچہ پاکستان اندرونی محاذ پر کئی طرح کے مسائل کا شکار تھا لیکن اس کے باوجود اس جنگ میں پاکستان نے جس یکجہتی کا اظہار کیا اس کی ہر سطح پر تعریف کی جانی چاہیے۔ خاص طور پر ہماری افواج نے بھارت کے مقابلے میں جو شاندار کارنامے انجام دئیے ہیں ان پر پوری قوم کو فخر ہے۔وزیراعظم اور آرمی چیف نے درست کہا تھا کہ جب ہم بھارت کو جواب دیں گے تو اس پر عالمی دنیا اور میڈیا ہماری برتری کی گواہی دیں گے۔وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قومی یکجہتی میں بڑا کردار ادا کیا اور ثابت کیا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر قومی مفادات زیادہ اہم ہوتے ہیں۔نریندر مودی کو بھارت کے بارے میں جو زعم تھا کہ اس خطے میں سب سے بڑی طاقت ہے، وہ برے طریقے سے ٹوٹ گیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے خود امریکہ سے مدد مانگی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔پاکستان کی ایک اور بڑی سفارتی کامیابی یہ ہوئی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو تسلیم کیا بلکہ اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس مسئلے پر ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔یہ یقینا پاکستان کی ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سیاست میں زندہ ہو گیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پر بھارت نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کسی بھی قسم کی ثالثی کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ بھارت جو ہمیشہ سے پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتا ہے اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نہ صرف دہشت گردی کرتا ہے بلکہ ان دہشت گرد عناصر کی ریاستی سرپرستی بھی کرتا ہے۔جہاں تک پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے بعد مذاکرات کا تعلق ہے تو اس کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ جنگ بندی کے بعد نریندر مودی نے جو خطاب کیا اس میں اس کے پاکستان کے خلاف عزائم کافی جارحانہ تھے اور ظاہر کرتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ضرور ہوئی ہے مگر جنگ کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔اس لیے پاکستان کو آج بھی بھارت کے حوالے سے خبردار رہنا ہوگا۔اس جنگ بندی کے بعد پاکستان کی معاشی صورتحال میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور جو معاشی اشاریے آئے ہیں وہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری معاشی حالت بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ہی معیشت کی مضبوطی ہے اور پچھلے کچھ عرصہ میں ہماری معیشت میں بہتری کا اعتراف عالمی مالیاتی ادارے بھی کررہے ہیں ،مگر بھارت پاکستان کی معیشت کو کمز ورکرنے کا ایجنڈا رکھتا ہے اور اس حالیہ شکست کے بعد وہ دوبارہ ہمیں معاشی میدان میں کمزور کرنے کی کوشش کرسکتا ہے،اس لیے ہمیں اپنے معاشی معاملات پر پوری توجہ دینی ہوگی تاکہ ہم معاشی میدان میں بھی سرخرو ہوسکیں یا معاشی ترقی کے عمل میں مضبوطی اختیار کرسکیں۔
پی ٹی آئی نے حالیہ جنگ میں بہتر کردار ادا کیا ہے مگر بطور جماعت پی ٹی آئی اس وقت کافی کمزور نظر آرہی ہے۔ پی ٹی آئی کا اندرونی بحران مسلسل بڑھ رہا ہے اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اپنی پارٹی کی مدد سے ایک بار پھر تحریک چلانے کا عندیہ دے رہے ہیں اور انہوں نے پارٹی کو پیغام دیا ہے کہ وہ فوری طور پر تحریک کی تیار ی کریں۔لیکن پارٹی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں اور پی ٹی آئی کے بیشتر راہنماؤں کے بقول جو پارٹی کے اس وقت حالات ہیں ان میں پارٹی کسی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ عمران خان فوری طور پر اپنی رہائی چاہتے ہیں لیکن بظاہر ان کی رہائی کے حالات نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے حالات ان کے حق میں نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے مخالفین یعنی حکومت سیاسی طور پر بھی مضبوط نظر آرہی ہے اور سمجھتی ہے کہ ہم مضبوط ہوئے ہیں اور عمران خان سیاسی طور پر کمزور ہوئے ہیں اور ان کی یہ بڑی کامیابی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اب عمران خان ان کے لیے خطرہ نہیں رہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ عمران خان ایسے کیا سیاسی کارڈ کھیلتے ہیں جو ان کی سیاسی اہمیت کو بڑھاسکیں۔