شرارت سے توبہ

تحریر : سائرہ جبیں


فخر اور علی دونوں گہرے دوست تھے اور وہ ایک ہی سکول میں پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ دونوں کا گھر قریب ہونے کی بنا پر ایک ساتھ سکول جاتے اور گھر واپس آتے۔ نت نئی شرارتیں کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔

ایک دن علی نے فخر سے کہا یار فخر!یہ جو ہمارے گھر کے سامنے چودھری صاحب ہیں نا وہ اپنے گھر پہ تالا لگا کر کہیں گئے ہوئے ہیں۔ اگر ان کے تالے میں تنکے بھر دیئے جائیں تو کیسا رہے گا۔ یاد ہے کہ ایک دفعہ جب ہم نے ان کی سائیکل کی ہوا نکالی تھی تو انہوں نے میری کتنی درگت بنائی تھی۔ 

تھوڑی دیر بعد وہ لوگ چودھری صاحب کے دروازے پر کھڑے تھے، گلی سنسان تھی، موقع اچھا تھا۔ فخر نے دھڑکتے دل کے ساتھ تالا پکڑا، علی نے جیب سے تنکا نکال کر تالے کے سوراخ میں ڈال دیا۔ کام مکمل ہو گیا اور دونوں بڑے مزے سے اپنی گلی میں چھپے جھانکتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد چودھری صاحب آئے انہوں نے چابی نکالی اور تالے میں ڈالنے کی کوشش کی، لیکن سوراخ میں تو تنکا تھا بے چارے ایک گھنٹے تک لگے رہے لیکن تالا نہ کھلا۔ بالآخر بڑی مشکل سے تالا توڑ کر انہیں اپنے گھر میں جانا نصیب ہوا۔ علی اور فخر یہ تماشا دیکھ کر بے حد ہنسے۔

ایک دن علی کے گھر والے کسی تقریب میں گئے ہوئے تھے اور علی گھر میں رک گیا۔ وہ بستر پر لیٹ کر اگلے دن کی شرارت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کمرے میں کہیں سے دس بارہ بونے ایک زنجیر اٹھائے اس کی طرف آ رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر اس کی تو مارے خوف کے گھگھی بندھ گئی۔ پھر چار بونے ایک بڑا سا تالا اٹھا کر اس کی طرف لائے اور اسے زنجیر سے کس کے باندھ کر تالا لگا دیا۔ ایک بونا تنکا اٹھا کر لایا اور تالے کے سوراخ میں ڈال دیا۔ علی رونے لگا معافیاں مانگنے لگا لیکن بے سود۔ 

 ایک بونے نے اوپر چڑھ کر علی کے ہاتھ میں چابی پکڑا دی ۔پھر سب بونے چاروں طرف پھیل گئے اور ہر چیز کو آگ لگانی شروع کر دی۔ علی بہت چیخا چلایا، رو، رو کر التجا کی لیکن بونے کھڑے ہنستے رہے۔ آن کی آن میں آگ بھڑک اٹھی۔ علی نے بہت کوشش کی کہ تالے میں چابی چلی جائے اور وہ آزاد ہو جائے لیکن سوراخ میں تو تنکا گھسا ہوا تھا۔ 

اب آہستہ آہستہ اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ درد کی شدت سے اس کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔

 ارے بھئی علی! کیا ہوا، آنکھیں کھولو، اس نے آنکھیں کھولیں۔ فخر اور سب گھر والے اس پر جھکے ہوئے کھڑے تھے۔ پھر اس نے سب کو اس خواب کی داستان سنائی جسے سن کر سب کے قہقہے بلند ہوئے اور علی کا بہت مذاق اڑایا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں فخر اور علی چودھری صاحب کے تالے میں تنکا ڈالنے والی اپنی شرارت سے سبھی کو آگاہ کر رہے تھے۔ اس پر علی کی دادی جان نے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ بچو! آپ دونوں کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہئیں جس سے کسی کو اور خاص طور سے پڑوسی کو تکلیف پہنچے۔ پڑوسی کا سب سے بڑا حق تو یہ ہے کہ اپنے ہر کام میں اس بات کا پورا خیال رکھا جائے کہ اپنی ذات سے اسے تکلیف نہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے پڑوسی کے بہت حقوق رکھے ہیں۔

دادی جان کی بات سننے کے بعد فخر اور علی نے شرارت سے توبہ کر لی اور یہ وعدہ بھی کیا کہ آئندہ پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک سے پیش آئیں گے اور اپنی شرارت سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

سردیوں کی چھٹیاں !

عدنان آج بے حد خوش تھا ،کیونکہ امتحانات کے بعد سردیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔

مــطیــعِ اعظـم (دوسری قسط )

بیماری کی اسی کیفیت میں چند دنوں کے بعد حجاج آپؓ کی تیمارداری کیلئے آیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ ابو عبدالرحمنؓ! تجھے کس نے زہر آلود کردیا ہے‘‘؟۔ابن عمرؓنے کہا: ’’تم یہ جان کر کیا کرو گے‘‘؟۔حجاج نے جواب دیا ’’ اگر میں اس کو قتل نہ کر دوں تو اللہ مجھے ہلاک کر دے‘‘۔

پڑھو اور جانو

٭…بال پوائنٹ پین 1888ء میں ایجا د ہوا ٭…پیپر مشین 1809ء میں ایجاد ہوئی ٭…پرنٹنگ پریس 1475ء میں ایجاد ہوئی

متفرق ودلچسپ

٭… دریا نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی لمبائی 6670 کلومیٹر ہے۔

پہیلیاں

اجلا پنڈا رنگ نہ باس کام کی شے ہے رکھنا پاس (سکہ)

ذرا مسکرائیے

قصاب ایک بکرے کو کان سے پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ ایک بچی نے دیکھا تو قصاب سے پوچھا کہ آپ اس بکرے کو کان سے پکڑ کر کہاں لے جا رہے ہیں؟