روشنی کا چراغ
چک روشن پور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان واقع تھا۔
گاؤں کے بیشتر لوگ کسان تھے اور زندگی بہت سادہ تھی۔ لیکن افسوس کی بات یہ تھی کہ وہاں تعلیم کی سہولت نہ ہونے کے برابر تھی۔
گاؤں کا واحد اسکول ایک چھوٹی سی قدیم عمارت میں قائم تھا۔ وہاں صرف پرائمری تک تعلیم دی جاتی تھی لیکن وہ بھی کچھ عرصہ سے بند پڑا تھا کیونکہ پرانے ماسٹر نبی بخش صاحب سخت بیمار تھے۔
اسی گاؤں میں دو نوجوان لڑکے ذیشان اور ناصر رہتے تھے۔ دونوں نے شہر جا کر انٹرمیڈیٹ کیا تھا اور اب واپس گاؤں آ گئے تھے۔
بچپن سے ان نوجوانوںکے خواب دیگر بچوں سے کچھ مختلف تھے۔ ذیشان چاہتا تھا کہ وہ گاؤں کے بچوں کو تعلیم دے، جبکہ ناصر کی خواہش تھی کہ وہ کسانوں کیلئے کوئی ایسا آلہ بنائے جو ان کے کام کو آسان بنا دے۔ مگر وسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور حالات بھی حوصلہ شکن تھے۔
ایک دن جب دونوں شام کو کھیت سے واپس آ رہے تھے تو ذیشان نے کہا: ’’ناصر، سوچ رہا ہوں کہ کیوں نہ ہم گاؤں کے بچوں کو پڑھانا شروع کریں؟ اسکول تو ویسے ہی بند پڑا ہے‘‘۔
ناصر نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ مگر ذیشان، ہمارے پاس جگہ کہاں ہے؟ تختیاں؟ کتابیں؟ بورڈ؟ یہ کہاں سے لائیں گے۔
ذیشان پہلے مسکرا یا اورپھر بولا ’’ارادے مضبوط ہوں تو راستے نکل ہی آتے ہیں۔ ہم کہیں کھیت کے کونے میں بیٹھا کر پڑھا لیں گے۔ میں خود چارٹ بنا لوں گا‘‘۔
ناصر خاموش ہو گیا، پھر اس نے ذیشان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’تو پھر ٹھیک ہے، کل سے ہم کلاس شروع کریں گے‘‘۔
اگلے ہی دن دونوں نے ایک پرانا خالی کمرہ صاف کیا، جو کبھی گاؤں کی پنچایت کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ دیواریں تو مٹی کی تھیں، لیکن دونوں نے اپنی محنت سے اسے سجا دیا۔
ذیشان نے چارٹ بنائے، ناصر نے ٹوٹے پھوٹے بینچ جوڑ کر بچوں کے بیٹھنے کا انتظام کر دیا۔
شروع میں صرف پانچ بچے آئے۔ کچھ تو شوق میں آئے تھے، کچھ والدین کے کہنے پر۔ ذیشان ان کو پہاڑے، الفاظ اور کہانیاں پڑھاتا اور ناصر سائنس کے آسان تجربے سمجھاتا۔
دو ہفتے میں ہی بچوں کی تعداد دس ہو گئی، پھر بڑھتی چلی گئی۔ ذیشان اور ناصر دن کو کھیتوں میں کام کرتے اور شام کو اسکول چلاتے۔ دن گزرتے گئے اور اسکول میں بچوں کی تعداد بڑھ کر پچاس ہو گئی۔
اب انہیں مزید جگہ، کتابیں اور بورڈ کی اشد ضرورت تھی۔ وہ شہر گئے، پرانے اسٹیشنری والوں سے سستا سامان خریدا، ذیشان نے اپنا موبائل بیچ دیا اور کچھ دوستوں سے ادھار لیا۔
ایک دن ایک تعلیمی ادارے کا رضاکار جنید اس علاقے میں آیا۔ وہ پانی کے منصوبے کے سلسلے میں گاؤں آیا تھا، لیکن جب اس نے عارضی اسکول دیکھا تو حیران رہ گیا۔
وہ کلاس میں گیا، بچوں سے بات چیت کی، تصویریں بنائیں، ویڈیو ریکارڈ کی اور واپس جا کر یہ سب سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا۔
ویڈیو تیزی سے وائرل ہو گئی۔ اس سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے،بہت سے تعلیمی اداروں اور این جی اوز نے بھی ان کی مدد کی۔ اب اس اسکول میں دو سو سے زائد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
ذیشان اردو اور انگریزی پڑھاتا ہے، ناصر سائنس اور ریاضی۔ ان کے اسکول کا نام ہے ’’ روشنی کا چراغ‘‘۔ اس چراغ نے پورے گاؤں کو روشنی دکھائی ہے اور آج چک روشن پور تعلیم کی روشنی میں جگمگا رہا ہے۔
مشکل حالات میں بھی اگر نیت صاف ہو، حوصلہ بلند ہو اور خواب سچے ہوں، تو انسان نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکتا ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی روشنی کا چراغ بن سکتا ہے۔