سوء ادب:مسجد کی بے حرمتی
ایک شخص چرانے کی خاطر مسجد کا کلاک اکھاڑ رہا تھا کہ اس نے قدموں کی چاپ سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک آدمی جوتوں سمیت مسجد میں گھسا چلا آ رہا ہے۔ وہ اس سے بولا ’’میں فارغ نہیں ہوں ورنہ تمہیں مسجد کی بے حرمتی کا مزہ چکھاتا ‘‘۔
دودھ میں مچھلی
ایک شخص نے گوالے سے دودھ خریدا تو گھر جا کر اس نے دیکھا کہ دودھ میں ایک مچھلی ہے۔
اس نے گوالے سے شکایت کی کہ تمہارے دودھ میں سے ایک مچھلی نکلی ہے ۔
گوالا بولا ’’پھر تو تمہیں اس کے پیسے الگ دینے چاہیں‘‘۔
جلتی آنکھیں بجھتے خواب
یہ جمیل لرحمن کا مجموعہ کلام ہے، جسے اکادمی بازیافت کراچی نے چھاپا ہے۔ انتساب دیرانہ دوست اور47 شعری مجموعوں کے خالق صابر ظفر اور ان تمام سر بکف کامریڈوں کے نام ہے جنہوں نے اندھیروں سے جاری معرکے میں تیرگی سے ہر قسم کے سمجھوتے کو مسترد کر دیا۔
کتاب میں کوئی دیباچہ نہیں ہے۔ اندرونِ سرورق شاعر کی اپنی تحریر ہے جس کے مطابق ’’آپ اس شعری بیانیے کو معتبر سمجھیں یا غیر معتبر، لیکن میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خالص اشکوں سے بھیگے کھرے سچ کی شاعری ہے۔ آج حقیقی دنیا کے مسائل سے براہِ راست مخاطب ہونے کا رواج نہیں رہا اور فرد کی ذات ایسی گنجلک الجھنوں کا شکار ہے کہ عصرِ حاضر کا شاعر بھی استعاراتی ابہام میں پناہ لینے ہی کو غنیمت سمجھتا ہے۔ میں جب خود کلامی کرتے کرتے تھک جاتا ہوں تو میرا جی چاہتا ہے کہ ہر دم زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا جن استحصال زدہ لوگوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں، ایک عوامی شاعر کی طرح ان کی آواز بن کر ان سے بھی کچھ کہوں۔ میری شاعری کا یہ باب اسی دکھ ، تشویش اور جھنجلاہٹ سے عبارت ہے جو میرے لوگوں کے شب و روز کا عنوان بنے ہوئے ہیں‘‘ ۔
اگلے اندرونِ سرورق پر شاعر کا مختصر تعارف، ادبی شناخت اور ادبی خدمات کے علاوہ شاعری کی تصنیفات کی فہرست درج ہے ۔ پس سرورق شاعر کے یہ اشعار درج ہیں۔
فیصلہ جنگِ مسلسل کا ابھی سے کیسے
اے ستم گر تجھے ہر موڑ پہ للکاریں گے
تجھ کو معلوم نہیں میرے قلم کی طاقت
میں رہوں یا نہ رہوں لفظ نہیں ہاریں گے
اور اب آخر میں اسی کتاب میں سے یہ غزل :
غزل
نہیں بدلتا اگر یہ نظام تو پھر کیا
رہے یہ قوم ہمیشہ غلام تو پھر کیا
غریبِ شہر کھلونا سہی امیروں کا
اگر رہے یہی حالت مدام تو پھر کیا
چراغ گھی کے سرِ قصرِ شہریار جلیں
دہائی دیتی رہے غم کی شام تو پھر کیا
دہک رہی ہیں فضاں کی جاگتی آنکھیں
تغیرات ہیں خفتہ خرام تو پھر کیا
جمیل آج بھی کچھ بے ضمیر لوگوں کو
نہیں تمیزِ سکوت و کلام تو پھر کیا
آج کا مطلع
منکشف اس پہ مرا شوقِ ملاقات ، ظفر
دور رہنے سے ہوا ، آنکھ چرانے سے ہوا