مائننگ سے ڈیٹو نیٹر تک ایٹم بم کیسے بنتا ہے
پاکستان کو روزِ اول سے ہی سلامتی سے متعلق مسائل در پیش رہے ہیں اور نوزائیدہ ریاست نے وقتاًفوقتا ًدفاعی ضروریات کوپورا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن 1974ء میں انڈیا کا ایٹمی دھماکے نے پاکستان کو ایٹمی قوت بننے پر مجبور کیا۔ ایٹم بم کی تیاری مکمل طور پر ایک تکنیکی مسئلہ ہے جسے صرف تکنیک سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایٹمی پروگرام کے نیو کلیئر فیول سائیکل اور ایٹم بم کی تیاری کے تمام مراحل کا احاطہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔
پہلا مرحلہ:’’یورینیم مائننگ‘‘
ایٹم بم کی تیاری کیلئے سب سے پہلا مرحلہ یورینیم کی دریافت ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کے ماہرین ارضیات 1960ء سے 63 ء کے عرصہ میں سخت کوششوں کے بعد ضلع ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے ذخائر دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس پہلی کامیابی پر جیالوجسٹ خالد اسلم کو قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔یورینیم کی دریافت کے بعد زیر زمین یورینیم کو نکالنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ کافی مشکل اور صبر آزما کام ہوتا ہے ۔ اسے ’’یورینیم مائننگ‘‘ (Uranium Mining) کہتے ہیں۔ قدرتی طور پر پائی جانے والی یورینیم دوآئسو ٹوپس پر مشتمل ہوتی ہے۔
ایک یورینیم (U-238) اور دوسرا یورینیم (U-235) ۔ قدرتی طور پر U-238 کی مقدار 99.3 فیصد جبکہ U-235 کی مقدار 0.7 فیصد پائی جاتی ہے۔ U-235 وہ آئسو ٹوپ ہے جو ایٹمی ہتھیار بنانے کیلئے درکار ہوتا ہے۔ جو یورینیم زمین سے نکالی جاتی ہے وہ خالص نہیں ہوتی۔ خام یور ینیم میں اور بھی بہت سارے نمکیات، دھاتیں اور عناصر ہوتے ہیں۔ خام یورینیم سے ان Impurities کو الگ کرنے کیلئے ایک کیمیکل پلانٹ میں لے جایا جاتا ہے اور خالص یورینیم حاصل کی جاتی ہے۔ دس ہزار ٹن خام یورینیمRefine اور دیگر تمام مراحل سے گزرنے کے بعد صرف ایک بم کیلئے تیار ہوتی ہے۔ PAEC کے سائنسدانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ 99 فیصد تک خالص یورینیم حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ باقی ایٹمی پروگرام کے حامل ممالک بمشکل 90 سے 95 فیصد تک خالص یورینیم حاصل کر پائے ہیں ۔
کنورژن کا عمل
یورینیم مائننگ سے حاصل کی گئی یورینیم بطور ری ایکٹر فیول یا بم کیلئے قابل استعمال نہیں ہوتی ۔ اس یورینیم کو مزید ایک پلانٹ کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ جہاں اور Impurities کو الگ کر کے خالصتاً یورینیم آکسائیڈ UO2 اور یورینیم ہیکسا فلورائیڈ (UF6) گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ اس عمل کو Conversion کہتے ہیں۔UO2 اور UF6 گیس میں تبدیلی تک کا سارا کام PAEC کی مختلف پلانٹس پر سر انجام دیا جاتا ہے۔ پھر UF6 گیس کو افزودگی کیلئے کے آرایل (KRL) کو بھیجا جاتا ہے ۔
یورینیم کی افزودگی
یورینیم کی افزودگی کا انحصار اس کے استعمال پر ہوتاہے ۔ اگر ری ایکٹر میں بطور فیول استعمال کرنی ہے تو 3 سے 5 فی صد افزودہ کی جاتی ہے، اسے ’’Low Enriched Uranium‘‘ (LEU) کہتے ہیں اور90 فی صد تک افزودہ یورینیم ایٹم بم میں استعمال ہوتی ہے۔ اسے ’’High Enriched Uranium‘‘ (HEU) کہتے ہیں۔ UF6 گیس میں U-235 کے آئسو ٹوپس کا تناسب بڑھایا جاتا ہے۔ جسے ’’Uranium Enrichment‘‘ کہتے ہیں تاکہ اسے مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ پاکستان نے یورینیم کی افزدگی دور حاضر کی جدید ترین سینٹری فیوج مشینوں سے کی۔ اور ہمارے KRL کے سائنسدانوں قابل ذکر سلطان بشیر الدین محمود، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے خود تیار کردہ مشینوں کو استعمال میں لا کر چند سالوں میں یورینیم افزودہ کی۔
یورینیم کی گیس سے دھات میں تبدیلی
UF6 گیس کو پھر KRL سے PAEC کی UML کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جو اس گیس کو سب سے پہلے ٹھوس دھات میں تبدیل کرتے ہیں۔ UF6 گیس کو دھاتی یورینیم میں تبدیل کرنے کا کام ڈاکٹر خلیل قریشی (میٹالرجسٹ) نے سر انجام دیا۔ اس مرحلے کو ’’فیبریکیشن‘‘ (Fabrication) کہتے ہیں۔ایک مخصوص مشینی عمل کے بعد ٹھوس یورینیم کو ’’Core‘‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے اور یہ کام PAEC کے انجینئر ز اور سائنسدان انتہائی مہارت سے انجام دیتے ہیں یہاں تک تو وہ مواد حاصل ہوجاتا ہے جوNuclear Fission Chain Reaction کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ ایٹم بم کی تیاری کا مرحلہ اس مواد کے حصول سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے متوازی اور بھی بہت سے امور سر انجام دیئے جاتے ہیں۔ جس کے ہر مرحلہ کیلئے کیمیکل، الیکٹریکل، مکینکل، الیکٹرونکس انجینئرز ، کمپیوٹر پروگرامرز، جیالوجسٹ اور ماہرین فزکس وغیرہ کے سیکڑ وں افراد کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔
ایٹم بم کی ڈیزائننگ
ایٹم بم کے ڈیزائن کو PAEC کے Theoretical Physicists نے تیار کیا۔ ڈیزائن کی تیاری میں ڈاکٹر ریاض الدین اور ڈاکٹر مسعود کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ ایٹم بم میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مادہ کو تیار کیا جاتا ہے۔ اس پلانٹ کوکیمیکل انجینئرز اور ماہرین کیمسٹری Operate کرتے ہیں، پھر اس دھماکہ خیز مادہ کو مطلوبہ ڈیزائن کے مطابق ڈھالا جاتا ہے جو کہ ایک خطرناک عمل ہوتا ہے۔
ڈیٹونیٹرز
اس سے اگلے مرحلے میں بم کی سطح پر مختلف جگہوں پر Detonators نصب کئے جاتے ہیں۔ ان ڈیٹونیٹرز کو ایک ہی وقت میں ڈیٹونیٹ کیا جاتا ہے۔ ایٹمی دھماکہ کے وقت ان تمام ڈیٹونیٹرز کا 50 نینو سیکنڈز میں ایک ساتھ عمل میں آنا ضروری ہوتا ہے ورنہ ایک بھی ڈیٹونیٹر کے کام نہ کرنے سے دھماکہ نہیں ہو سکتا۔ اس چیلنج کو PAEC کے ماہرین الیکٹرونکس نے قبول کرتے ہوئے Trigger Mechanism تیار کیا۔ اس کے ساتھ بریلیم ریفلیکٹرز، Tritium Gas اور Neutrons Source اور دیگر آلہ جات وغیرہ کی تنصیب عمل میں لائی جاتی ہے۔ مختصراً ان تمام مراحل کے بعد ایٹم بم تیار ہو جاتا ہے۔
ٹیسٹ کا مرحلہ
ایٹم بم کی تیاری کے بعد اگلا مرحلہ اسے ٹیسٹ کرنے کا ہوتا ہے۔ پاکستان نے PAEC کے چیئر مین منیر احمد خان کی زیر نگرانی مارچ 1983ء میں پہلے ایٹم بم کا ’’کولڈ ٹیسٹ‘‘ ( Cold Test) کرلیا تھا۔ کولڈ ٹیسٹ دراصل ایٹم بم کا ہی ٹیسٹ ہوتا ہے جس میں افزودہ یورینیم کی بجائے قدرتی یورینیم کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کولڈ ٹیسٹ کے بعد ’’ہاٹ ٹیسٹ‘‘ (Hot Test) کی ضرورت تھی جس کیلئے موزوں وقت درکار تھا۔
1983ء سے 1998ء تکTheoretical Physicists کے نت نئے تیار کردہ ڈیزائنز (جو ائیر کرافٹ یا میزائل کے ذریعہ Deliver کئے جا سکیں) کے24 کولڈ ٹیسٹ کیے گئے۔ Hot Tests کیلئے سب سے اہم ضرورت Tunnels کی ہوتی ہے۔ PAEC کے جیالوجسٹ ڈاکٹر منصور بیگ اور ان کی ٹیم نے 1976 ء میں چاغی اور خاران میں ٹیسٹ سائٹس منتخب کر کے 1980 ء سے 1981ء تک Tunnels کی تیاری مکمل کر لی تھی۔
11 اور13 مئی1998ء کے انڈیا کے نیوکلیئر ٹیسٹ سے پاکستان کو ایک موذوں وقت میسر آیا ۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ایٹمی دھماکے کر نے فیصلہ کیا اور 28 مئی 1998ء کو نیوکلیئر ٹیسٹ کی ذمہ داری PAEC کے ممبر ٹنلز ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی قیادت میں ان کی ٹیم نے ڈاکٹراشفاق احمد کی چیئر مین شپ میں بخوبی سر انجام دی اور انڈیا کے پانچ کے مقابلہ میں چھ دھماکے کر کے برتری بھی واضح کر دی ۔ اس طرح دشمن کے غرور اور ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا ۔ یوں یہ مملکت خدادداد ایٹمی قوت قرار پائی۔