طالبان کا افغانستان:امیدیں اور خدشات ساتھ ساتھ

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاء:ڈاکٹر زبیر احمدشیخ ،وی سی اور صدر محمد علی جناح یونیورسٹی۔ڈاکٹر سلیم مغل ، ماہر تعلیم اور سینئرصحافی ۔علائوالدین خانزادہ ،معروف صحافی اور شاعر ۔ فاروق عادل ، معروف صحافی، مصنف ، تجزیہ کار اور بی بی سی کے لکھاری (اسلام آباد سے بذریعہ وڈیو لنک)۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی (بذریعہ وڈیو لنک) اور طالبات

افغان طالبان اپنے رویوں میں ترمیم کرکے دنیا کیساتھ چلنا چاہتے ہیں،فاروق عادل،امریکا افغانستان سے چلا تو گیا ہے لیکن اپنے قدموں کے نقش چھوڑ گیا:   ڈاکٹر زبیرشیخ

طالبان جدید تعلیم سے دور، محدو د سوچ کے حامل تاہم ایماندار اورسادے ہیں،ڈاکٹر سلیم مغل،پاکستان طالبان حکومت تسلیم کرنے کے اشارے دے چکا :   ڈاکٹر نوشین

ہم نے ہمیشہ افغانستان کا دکھ درد برداشت کیا،کچھ غلطیاں اور اچھائیاں بھی ہوئیں:   اے ایچ خانزادہ

 

موضوع:’’افغانستان میں تبدیلی ،کیا پاکستانی معیشت کیلئے مفید ہوگی؟

جون میں جب طالبان نے افغانستان کے علاقوں پر علاقے فتح کرنے شروع کئے تو دنیا فورم نے فوراً ہی جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات اور شعبہ تاریخ کے تعاون سے ’’افغانستان میں امریکی فوجیوں کا انخلائ،پاکستان پر پڑنے والے ممکنہ اثرات‘‘کے عنوان کیساتھ دنیا فورم کا انعقاد کیا ،اس وقت یہ اعلان کیا تھا کہ افغانستان کی روز بروز بدلتی صورتحال یقیناً یہ تقاضہ کریگی کہ ایک دوماہ بعد ہی دوسرا دنیا فورم کیا جائے،اسی اعلان کے تناظر میں گزشتہ دنوں محمد علی جناح یونیورسٹی کے تعاون سے یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں دنیا فورم کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع تھا ’’افغانستان میں تبدیلی کیا پاکستان کی معیشت کیلئے مفید ہوگی ‘‘ ، خواہش تو یہی تھی کہ جامعہ کراچی کی طرح یہاں بھی طلبہ وطالبات کی بڑی تعداد شریک ہواور ماہرین کی رائے سے استفادہ کرے تاہم کووڈ کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا،

بہرحال دنیا فورم میں جہاں پاکستان کو درپیش معاشی مسائل یا معاشی استحکام کی بات کی گئی وہیں طالبان اور دنیا کے تعلقات بھی زیربحث آئے،سی پیک یقیناً فورم کا اہم موضوع بنا رہا جبکہ افغانستان کو کتنا فائدہ ہوسکتا ہے اس پر بھی بات کی گئی،دنیا فورم میں عمومی رائے یہی پائی گئی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی نسبتاً بہتر ہے،بھارت کو بھرپور شکست ہوئی ہے، پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے ،طالبان نے بھی طرز حکمرانی تبدیل کیا ہے جبکہ دنیا میں طاقت کے نئے توازن بننے جارہے ہیں،روس ،چین اور پاکستان سمیت وسط ایشیائی ریاستیں مزید قریب آئیں گی ۔بھارت کو بھی افغانستان میں مثبت کردار اداکرنا پڑے گا۔بہرحال صورتحال بہت واضح نہیں مگر حوصلہ افزاء ضرور ہے۔دنیا فورم کا مقصد سنجیدہ مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کا حل پیش کرنا ہے ،امید ہے کہ قارئین کو ہماری کوشش پسند آرہی ہوگی،آپ کی ای میل اور واٹس ایپ پیغامات دنیا فورم کی پزیرائی کا ثبوت ہیں۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔شکریہ

(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم )

برائے رابطہ 

mustafa.habib@dunya.com.pk

واٹس ایپ یا کال

03444473215

 دنیا:افغانستان کے حالات سے کیا پاکستانی معیشت متاثر ہوسکتی ہے؟

 فاروق عادل :گزشتہ 3 سال سے معیشت کی جو صورت حال ہے اس کا تعلق افغانستا ن کے حالات سے نہیں ہے، افغانستان سے رکاوٹوں میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔موجودہ صورت حال میں حالات تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں ، ہمیں فوری طورپر کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہیے۔ افغانستا ن کی صورت حال میں خفیہ طا قتیں بھی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ پاکستان، چین ،ایران ،روس اور وسطی ایشیا ئی ممالک کا بنیادی مقصد ہے کہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیاجائے اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے جیسے ہمارے خطے میں بھارت کرتا رہا ہے۔

دنیا: سی پیک منصوبے میں طالبان کے آنے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا یا بھارت کی دخل اندازی مشکلات پید ا کرے گی؟

فاروق عادل : افغانستان او ر پاکستان کی معیشت کا ایک اور پس منظر ہے جس میں بھارت نے اہم کردار ادا کیاہے۔اب افغان طالبان مختلف طرز کے طورپرسامنے آرہے ہیں جو اپنے نظریات میں ترمیم کیساتھ علاقائی تعلقات کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے وہ کھلے عام کہہ رہے ہیں بھارت افغانستان سے نہ جائے بلکہ اپنے منصوبے مکمل کرے۔بھار ت صورت حال سے باہر نہیں ہوا ، جب تک ساری طاقتیں ایک نہیں ہوں گی اکنامک کوریڈور سے خطے کو مقاصدحاصل نہیں ہوسکتے۔اشرف غنی نے جو کردار ادا کیا اب ایسا نہیں ہوگا۔طالبان نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹیں ڈالیں تومسائل پیدا ہوں گے۔ ریاست کا بیانیہ ایک ہونا چاہیے،پاکستان کی پالیسی چین اور امریکا دونوں کے ساتھ متوازن ہے۔

دنیا: امریکیوں کی واپسی پر امریکا میں بھی سوالا ت اٹھ رہے ہیں ،کیا امریکہ کو مشکل ہوگی؟

ڈاکٹر زبیر احمد شیخ : اب بندوقوں سے جنگ ختم ہوچکی ہیں۔اس وقت ففتھ جنریشن وار ہے اس جنگ میں سائنسدانوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔ اس جنگ میں انسان کے دماغ کے ساتھ کھیلا جاتاہے اور کھیلنا بھی آنا چاہیے ۔ ہماری حکومت کے پاس کلچر ل وار کھیلنے کے وسائل موجود ہیں۔ہمیں کھیلنا اور دفاع کرنا بھی آتاہے۔ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا کا استعمال ففتھ جنریشن وار ہی ہے۔اس جنگ سے نئی نسل تبدیل اور تباہ ہوتی نظر آرہی ہے،امریکا افغانستان سے چلا تو گیا ہے لیکن اپنے قدموں کے نقش چھوڑ گیا ہے۔پہلے لینڈ مائنز تھا اب برین مائنز آگیا ہے ۔ہم نظریاتی جنگ کی طر ف جارہے ہیں،خدشہ ہے مستقبل میں ہمیں اسی پر جنگ لڑنی ہو،افغانستان خاص طورپر شمالی علاقوں میں قبیلوں میں لڑائی سے افغانستان غیر مستحکم رہے گا۔ہمارے نظریات بھی تبدیل ہورہے ہیں، معاشرے میں خطرناک قسم کی تبدیلی آنے والی ہیں قبیلوں اور ریاستوں میں تقسیم شروع ہوچکی ۔سیاسی جماعتوں میں بھی قبیلے بننا شروع ہوگئے ہیں جس سے معاشرہ تباہی کی طرف جا رہا ہے۔

خطے میں امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نظریاتی جنگ کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مسائل حل ہوں گے۔ اگر نہیں سمجھے تو خدشہ ہے ہماری معیشت بھی افغانستان کی طرح تباہ ہوسکتی ہے۔امن رہے گا تومعیشت پروان چڑھے گی،کویت پر بمباری ہوئی تھی لیکن اس کے بعد دوبارہ اٹھا اور بنا،ففتھ جنریشن وار میں چین اور روس امریکا کو مات نہیں دے سکتے۔وہ بہت آگے ہیں مستقبل میں امریکا اسی پر کام کرے گا۔

دنیا: پاکستان کو ان حالات میں کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟

اے ایچ خانزادہ :افغانستان کی صورت حال سے پاکستان کو فوائد حاصل ہوں گے۔ افغانستان ہمارا قریبی او رسگا پڑوسی ملک ہے۔ہم نے ہمیشہ افغانستان کے دکھ درد کو برداشت کیا ہے۔جس کو برداشت کرنے میں غلطیاں اور اچھائیاں دونوں ہوئی ہیں، پاکستان کے قیام سے پہلے اور بعد میں طاقت کا توازن افغانستان کے راستے سے ہی آیا ہے،امید کرتے ہیں افغانستان میں امن قائم رہے اس سے طاقت کا توازن برقرار رہے گا۔ بہرحال ابھی سب چیزیں قبل از وقت ہیں، طالبا ن نے جس طرح افغانستان کو حاصل کیا اس میں ہم دو انتہاپر کھڑے نظر آتے ہیں، ایک انتہا فتح مبین کہا جارہا ہے اور اس کیلئے آیات بھی پیش کی جارہی ہیں،دوسری انتہا کہہ رہی ہے یہ سب کچھ طے شدہ ہے،دونوں معاملات میں پاکستان کو فائدہ ہوگا،معروضی حالات کچھ بھی رہے ہو ں،جب پاکستان اور افغانستان میں امن تھا دونوں اپنے نظریات کے مطابق رہتے تھے،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان نے کبھی ہمیں پیار بھری نظروں سے نہیں دیکھا۔

افغان مہاجرین کو ہم آج بھی برداشت کررہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستا ن کے ساتھ اچھا اور برادرانہ سلوک کیا لیکن افغانستان نے دوستانہ تعلقات قائم نہیں کیے۔سردار داؤد کے زمانے سے اب تک پیار بھری نظر نہیں ڈالی گئی ۔افغانستان کو ہم سے زیادہ اچھے انداز میں کھانا پینا کوئی نہیں پہنچا سکتاہے،حکومت ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ،بلکہ اپنے ناخن نوچ کر پھینک دیئے ہیں،ہماری حکومت کی توانائی نہیں چھوڑوں گا سے آگے نہیں نکل رہی ۔

فاروق عادل:ادب کے حوالے سے کچھ کہنا چاہوں گا کہ اشفاق احمد کی کتاب ’’ طلسم ہوش افزائ‘‘ جو افسانوں کامجموعہ ہے میراخیال ہے یہ آئندہ صدی کو بیان کررہا ہے ۔ا س میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ افغانستان سے ہاتھ سے لکھے گئے مکتوب اسمگل ہورہے ہیں،یعنی وہاں کی ثقافت رہن سہن کو اسمگل کیا جارہا ہے۔یہ بہت بڑا افسانہ ہے لیکن ادب کی دنیا میں ان پر توجہ نہیں دی جارہی ہے ،ڈاکٹر زبیر کی بات کی تائید کرتاہوں ہم واقعی ففتھ جنریشن کا شکار ہیں،ففتھ جنریشن وار میں قومیں بنتی بھی ہیں اور بگڑ بھی جاتی ہیں جن میں مائنڈ سیٹ تبدیل کردیا جاتاہے اور یہ عمل جاری ہے ۔جو ہمارے اور افغان معاشرے میں نظرآرہا ہے۔ معیشت بھی ثقافت ،ادب اور تہذیب کے بغیر فروغ نہیں پاسکتی ۔ہم ادب کا ذخیرہ اپنی قوم ،خطے اور دنیا کو بھی فراہم نہیں کرسکے کہ ا س جنگ میں ہمارے اوپر بیتی کیا ہے اور ہمیں کیسے تبدیل کیا جارہا ہے۔میرا خیال ہے افغانستان بھی ایران کی طرح ہمارا رشتے دار ہے۔ففتھ جنریشن وار نے قوم کا مزاج تبدیل کرکے کسی اور کام پر لگا دیاہے ۔

دنیا: پاکستان کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں نہیں بلایا گیا کیاوجوہات ہیں؟

ڈاکٹرنوشین وصی : بھارت سلامتی کونسل کا سربراہ ہوچکا ہے ،جس کا پاکستان بار بار اظہار کررہا تھا کہ اس سے پہلے بھی افغانستان میں کانفرنس ہوئی تھی جس میں پاکستان کو نہیں بلایا گیا ۔ا س حوالے سے پاکستان کے خدشات بین الاقومی برادری میں موجود ہیں۔ پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔اس قت پاکستا ن کی معیشت مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ان حالات میں بھی پاکستان میں 1100کے قریب افغان مہاجرین آچکے ہیں اور 30لاکھ پہلے سے موجود ہیں۔افغان مہاجرین کی آمد سے پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچے گا۔مزیدمہاجرین کی آمد سے جرائم میں اضافہ اور ہمارے انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔موجودہ صورت حال میں طالبان جس شکل میں منظر عام پرآرہے ہیں اس کو عالمی برادری اچھی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔

پاکستان کوطالبان کی حمایت کرنے پرعالمی دباؤ برداشت کرنا ہوگا۔دنیا پاکستان کے کردار کو بھی دیکھ رہی ہے ۔اگر مستقبل میں پاکستان طالبا ن کی حمایت کرتاہے اور عالمی برادری اس کو تسلیم نہیں کرتی جیسے گزشتہ روز یوریی یونین نے امداد بند کی،آئی ایم ایف نے فوری طورپر فنڈز روکنے کی بات کی ہے، اس ردعمل کی صورت میں پاکستان کو بھی مشکلات اورمسائل کا سامنا ہوسکتاہے۔اس وقت سلامتی کونسل میں بھارت کا کردار اہم ہے ۔ دیکھنا ہے ا س میں کتنے ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، دوسری طرف روس اور چین نے طالبان حکومت کو کچھ مثبت اشارے دیئے ہیں،جو طاقتیں امریکا سے مقابلے میں ہیں وہ چاہتی ہیں کہ افغانستان مستحکم ہو اور سرمایہ کاری بڑھے۔

دنیا :وسطی ایشیا کو تجارتی طورپرکیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟

ڈاکٹر نوشین وصی :پاکستان وسطی اور جنوبی ایشیا ء کے مرکزمیں واقع ہے جو تجارت کیلئے مختصر راستہ فراہم کرتاہے ۔اسے بہت زیادہ تجارتی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔1990ء میں جب وسطی ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوئی تھیں اس وقت بھی پاکستان کیلئے سرمایہ کاری کابہترین موقع تھا لیکن افغانستان کی صورت حال اور دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے پاکستان سرمایہ کاری نہیں کرسکا ۔جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے سرمایہ کاری کی اور فوائد حاصل کیے۔ہماری پالیسیاں بہتر ہونی چاہییں ہمیں بیرون کے ساتھ اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ صورت حال میں چین اور روس کا کردار بہت اہم ہے۔معاشی صورتحال اسی وقت بہتر ہوں گی جب اہم ریاستیں مل کر کا م کریں گی ۔پاکستان اپنے مسائل بغیر دباؤ کے حل کرے گا صرف وقت کا انتظار کررہا ہے۔

دنیا: افغان مہاجرین کی آمد سے پاکستان کو معاشی طور پر کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟

ڈاکٹرسلیم مغل : طالبان کی فتح کو جس انداز میں بتایا جارہا ہے یہ فتح ا س انداز میں نہیں ہے۔اس وقت امریکا اور برطانیہ کا کردار مشکوک ہے۔صورتحال تشویشناک ہے ۔ امریکا جب کہیں سے جاتا ہے تنازعات چھوڑکرجاتاہے۔ میرے خدشات ہیں کہ امریکا افغانستان چھوڑ کر جارہا ہے یہاں بھی تنازع چھوڑ کر جائے گا جو ان کی منصوبہ بندی کا حصہ ہوں گی۔ ملا غنی کو 5سال جیلوں میں رکھا گیاجو امریکا کہ حکم پر رہا ہوئے اور دوحہ گئے جہاں انہوں نے مذاکرت کیے۔ان لوگوں نے ہمیں بہت زخم دیئے ہیں یہ مسائل اتنے آسانی سے حل نہیں ہوں گے۔ افغانستان کے تنازعات بھی بعد میں سامنے آئیں گے۔ طالبان رنجشوں کو بھلاکر پاکستان سے تعلقات رکھیں گے توافغانستان میں حالات بہتر ہوں گے۔یہ حقیقت ہے جو تجارت پاکستان سے ہوسکتی ہے وہ کسی اور ملک سے نہیں ہوسکتی ۔طالبان کو دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے۔

افغانستان کے پاکستان سے ثقافتی تعلقات بھی ہیں،سی پیک میں افغانستان بھی شامل ہوجاتا ہے تو چین اور پاکستان کے ساتھ افغانستا ن کو بھی فائدہ ہوگا۔طالبان محدو د سوچ رکھتے ہیں جو جدید تعلیم او ر ایجادات میں کئی صدیاں پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل ایک حقیقت ہیں لیکن اس وقت امن اور خواتین کو سپورٹ کرنے کی بات کررہے ہیں جو اچھی بات ہے ،اگر یہی سوچ رہی تو عالمی برادری انکو آج نہیں تو کل قبول کرلے گی،لیکن انہیں ہمارے خلاف استعما ل کرنے والی بیرونی قوتیں بھی موجود ہیں جوان کو استعمال کرسکتی ہیں،دوحہ مذاکرات میں ہونے والے معاملات اہم اور طے شدہ ہیں جس کو خفیہ رکھا جارہا ہے جس کے نتائج بعد میں سامنے آئیں گے،خطے میں نظر آنے والی صورتحال افغانستان اور پاکستان کیلئے بڑا چیلنج ہے ،نصف صدی گزر گئی ہے افغانستان تباہ ہو گیا ہے،ان کے لوگ در بدر ہیں ،بچے کوڑا اٹھا رہے ہیں،کیمپوں میں خواتین اور بزرگ کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔

دنیا :طالبان کے بارے میں رائے ہے کہ وہ جدید دور سے قدم سے قدم ملاکر نہیں چل سکتے کیا یہ تاثر درست ہے؟

ڈاکٹر سلیم مغل : طالبان کیلئے دو باتیں بہت زیادہ کہی جارہی ہیں کہ ا ن کے پاس جدیدتعلیم نہیں ہے اگر ہے تو بہت کم ہے ایسی نہیں ہے جس سے حکومتیں چلتی ہیں،دوسرا ان کے پاس world Exposure بھی نہیں ہے،ان کی دنیا محدود ہے ،انہوں نے افغانستان، پاکستان اور شاید دوحہ سے آگے کچھ نہیں دیکھا ،یہ نئی دنیا کے ساتھ کیسے چلیں گے؟۔ لیکن میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ا س میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کے پاس دو ایسی طاقتیں ہیں جودنیاکے شاید ہی کسی ملک کے پاس ہوں، طالبان کی Execution Power یعنی اپنی بات کے نفاذ کی صلاحیت زبردست ہے انہوں نے کہہ دیا کے کل سے افغانستان میں یہ نہیں ہوگا تو وہ کل سے نہیں ہوگا،لوگ حکم عدولی کا مطلب جانتے ہیں اس لیے ڈرتے اور عمل کرتے ہیں۔طاقت سے فیصلے ، حکمت عملی اور اقدامات پر عمل کرواسکیں گے،دوسری چیز ایمانداری ہے ،یہ لوگ سادہ اور دیندار ہیں ان کی بڑی خواہشات نہیں ہیں وہ سادگی سے زندگی گزارنے والے لوگ ہیں۔ جب ان کی ضرورتیں اور خواہشا ت زیادہ نہیں ہیں تو ان کو پیسے زیادہ جمع کرنے کیلئے غلط راستوں کی طرف بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ لوگ اپنے معاملات میں ایماندار ہیں اس لیے جو کہتے ہیں وہ کرلیتے ہیں،خدشات ہیں کہ کچھ لوگ کہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ان کے ایجنڈے کو تباہ نہ کردیں؟

 دنیا: چین افغانستان کو تسلیم کرلیتا ہے تو پاکستان کی صورت حال کیا ہوگی؟

ڈاکٹر نوشین وصی : چین اور روس طالبان کی حکومت تسلیم کرلیتے ہیں تو پاکستان بھی تسلیم کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوگا۔پاکستان دباؤ کے بغیر بھی تسلیم کرے گا ۔ پاکستان طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کے اشارے دے چکا ہے اور تسلیم کرلے گا صرف صحیح وقت کا انتظار کررہا ہے۔کچھ چیزیں مستقبل میں بڑے خطرا ت کی طرف اشار ے کررہی ہیں۔فتھ جنریشن وا ر کی بات کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی عددی اورعلمی بنیادیں اتنی ہل چکی ہیں کہ ہم فکری اور نظریاتی گفتگو کے قابل نہیں رہے ۔ ہمیں ہر چیز میں نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ریاست کا بیانیہ ایک ہونا چاہیے اس نے بھی معاملات کو بہت بگاڑا ہے۔ افغانستان میں طالبان لیڈر شپ اور مقامی لوگوں کے درمیان بہت فاصلہ ہے، اس وقت جو طالبان سامنے ہیں وہ بہت ماڈریٹ نظر آرہے ہیں ۔لیکن اندرونی طور پر تمام طالبان جو پورے افغانستان کو کنٹرول کررہے ہیں وہ شاید اتنے موڈریٹ نہ ہوں۔ یہ فاصلہ کیسے کم ہوگا اس کا آگے پتہ چلے گا۔

پاکستان کو 2005ء کے بعد سے مشکلات کا سامنا رہا اس میں دہشت گردی کے واقعات بہت ہوئے تھے۔2014میں اے پی ایس کا واقعہ ہو ا جس میں کافی تعداد میں بچے شہید ہوئے ،ان حالات کے پیش نظر پاکستان مسلسل اپنے خدشات کا اظہار کررہا ہے،ابھی طالبا ن نے جیل سے کچھ قیدی رہا کئے اس میں ٹی ٹی پی کے بھی کچھ رہنما شامل ہیں۔ خدشات کل بھی تھے اور آج بھی ہیں،پاکستا ن کی اپنی حکمت عملی ہے ، ہماری خارجہ پالیسی جو بھارت سے متعلق ہے اس حوالے سے بھی خدشات باقی ہیں۔ہماری پالیسیاں بنانے والے اداروں میں کو آرڈی نیشن نہیں ہیں،ہم وقتی طور پر مسائل تو حل کرلیتے ہیں لیکن بڑی منصوبہ بندی نہیں کرتے ہیں جو ہمارے مسائل حل کرسکے۔

دنیا : ہماری پالیسیاں کیسی ہونی چاہیے؟

علاؤالدین خانزاہ : ہماری پالیسی پہلے سے طے شدہ ہے،آئین موجود ہے،ہر چیز واضح ہے،حالات کے مطابق پالیسی تبدیل نہیں ہوتی حکمت عملی تبدیل ہوتی ہے۔

ڈاکٹر سلیم مغل :پالیسی کبھی بھی یکساں نہیں ہوتی۔حالات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہیں،ہماری پالیسی کا بنیاد ی نکتہ پاکستان کے لوگ ہونے چاہییں جس سے وطن کی سلامتی ،خوشحالی اور ضمانتیں ملتی ہوں۔اچھی پالیسی ہمیشہ حقائق کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ ہماری پالیسیاں موجودہ حالا ت کے پیش نظر ہونی چا ہئیں۔افغانستان کے معاملے پر پالیسی امریکی مفاد کو دیکھتے ہوئے بنائی جاتی رہی ہے۔ہم انہیں ہوائی اڈے دیتے ہیں جہاں ان کے جہاز اڑتے ہیں جو ہمارے بھائیوں کو مارتے ہیں،افغانستان تو دور کی بات ہے ان لوگوں نے پاکستانی علاقوں میں ڈرون سے حملے کرکے لوگوں کو شہید اور معذور کیا،اگر ہماری پالیسی کا مرکز ہمارے اپنے مفادات ہوتے تو ایسا نہیں ہوتا جو ہوا۔بد قسمتی سے غریب ملکوں کی کوئی پالیسی نہیں ہوتی۔

دنیا: اس صورت حال میں پاکستان کو فیصلہ کرلینا چاہیے یا مزید انتظار کرے؟

فاروق عادل :ریاست کی تعریف میں 4 چیزیں آتی ہیں،ہم عملی طور پر پاکستان کے اندر ریاست کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے 3 چیزیں اس میں کم ہوگئیں ہیں،جب ریاست کے بنیادی ارکان نکل جائیں اور فیصلے کہیں اور ہورہے ہوںتو پھر یہی ہوتا ہے جو نظر آرہا ہے۔حقیقت میں ہماری زندگی اپنے خطے کے ساتھ ہونی چاہیے۔گزشتہ 10سال کے دوران پاکستان کو اپنے خطے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ،لیکن 3سال پہلے جو بد لا ہوا پاکستان دیکھا اس نے ہم کو شنگھائی تعاون تنظیم ، اکنامک کوریڈور ،روس او رچین سے بھی دور کردیا۔

ڈاکٹر نوشین وصی: ہر ملک اپنے مفاد کیلئے کام کرتا ہے ۔چین بھی اپنے مفاد کیلئے یہاں کام کررہاہے،ا س میں کوئی شک نہیں کہ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اس لیے پاکستان چین کو نہیں چھوڑ سکتا،سی پیک کے بعد امریکا کا پاکستان پر بہت دباؤ رہا ہے اور امریکا پاکستان سے دورہوا ہے تو پاکستان چین کے قریب گیاہے،ہمارے ملک کی کوئی پالیسی نہیں مجبوریاں پالیسیاں بناتی ہیں، ہماری خارجہ پالیسی ناکا م نہیں رہیں،پاکستان دو کشتیوں میں سوار نہیں بلکہ اسے توازن برقرار رکھتے ہوئے امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات اچھے رکھنے کی ضرورت ہے،اگر پاکستان عالمی برادری میں اپنا چہر ہ بہتر پیش کرتا ہے تواس کے فائدے ہوں گے۔

فاروق عادل:افغانستان کی صورت حال میں پاکستان غلط نہیں جارہا ہمارا طرز عمل بہتر ہے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا فورم میں طالبات کے سوالات

 دنیا فورم میں طالبات نے سوالات بھی کئے۔محمد علی جناح یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی طالبہ حافظہ فاطمہ زہرہ نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کی صورت کے باعث افغانی بچے یہاں کچرہ چنتے اور وہ کام کرتے ہیں جسے دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے اور جب ٹی وی کھولو توافغانستان کی صورت حال پربات ہورہی ہوتی ہے جس سے ذہنی دباؤ میں آجاتے ہیں ۔فاروق عادل نے جواب دیا جب تک ہم اپنی ترجیحات درست نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ڈاکٹر سلیم مغل نے کہا ہم ابھی تو کام چلاؤ کی بنیاد پر پالیسی بناتے او ر سوچتے ہیں،ہم ایسی پالیسی دینے میں ناکام ہیں جس سے بہت دور تک دیکھا جاسکے۔ طالبہ ماہ نور نے سوال کیا کہ طالبان خواتین کے حقوق کیلئے کیا اقدامات کریں گے ۔علاؤالدین خانزادہ نے کہا دنیا میں خواتین 50فیصد ہیں انہیں نظر انداز نہیں جاسکتا۔

طالبان خواتین کو سپورٹ کررہے ہیں جو اچھی بات ہے،فارو ق عادل نے کہا کہ ماہر نفسیات خود کو علاج تک محدود نہ رکھیں اجتماعی طور پر مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔طالبہ  فاطمہ سندیلہ نے سوال کیا کہ افغانستان کی صورت حال میں چین کا کردار کیا ہوگا،ڈاکٹر نوشین وصی نے کہاکہ اس خطے میں امریکا کردار وہ نہیں رہا جو تھا ا ب چین اہم کردار اد ا کرے گا۔دنیا کے حالات تبدیل ہورہے ہیں ا س خطے کے بھی حالات تبدیل ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔