ملکی مسائل کا حل،جامع زرعی پالیسی

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :محمد مہدی لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء: وفاقی محتسب انشورنس ڈاکٹر خاور جمیل۔ پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری وائس چانسلر سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام ۔ انجینئرمحفوظ عرسانی ، مشیر واپڈا ۔خالد حیدر میمن ریٹائرڈ سیکریٹری آبپاشی سندھ ۔ڈاکٹر عبدالسلام لودھی ،ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی بلوچستان یونیورسٹی ۔سید مظہر علی شاہ ، رکن انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا)۔ فیکلٹی ارکان اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

جنرل انشورنس میں زراعت ، لائیو اسٹاک،پولٹری سمیت کئی شعبے ہیں:  ڈاکٹر خاور جمیل

 غذائی قلت میں کمی کیلئے2030ء تک زراعت 6 فیصد تک بڑھانی ہوگی:  ڈاکٹر فتح محمد مری

بلوچستان میں جنگلی زیتون کی کاشت سے کھانے کا تیل درآمد نہیں کرنا پڑیگا:  ڈاکٹر عبدالسلام

زراعت کو بارشوں کی تباہی سے بچالیتے توآئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑتا:   محفوظ عرسانی

سیلابی اور نہری پانی کے راستوں پر تجاوزات سے سندھ میں تباہی ہوئی:  خالد حیدر میمن

آڑھتی کو ہٹادیں تو کسانوں کو اچھی قیمت مل اور اشیاء سستی ہوسکتی ہیں:  سید مظہر علی شاہ

 

موضوع:’’غذائی خود کفالت اور کاشتکاروں کے مسائل‘‘

 

 پاکستان گزشتہ ایک سال سے غذائی قلت کے بحران سے دوچارہے،شدیدبارشوں اور سیلاب نے سندھ اور بلوچستان کی زراعت کوبہت نقصان پہنچایا ہے جبکہ ڈالرز کی کمی اور خزانہ خالی ہونے سے بھی عوام مہنگائی کا شکار ہیں۔ساتھ ساتھ کسانوں اور زمینداروں کو انشورنس کے بارے میں بھی آگاہی نہ ہونے سے وہ زیادہ نقصان اٹھارہے ہیں۔ان ہی مسائل کی آگاہی اور حل کیلئے وفاقی انشورنس محتسب کے تعاون سے سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوم جام میں دنیا فورم کا انعقاد کیا۔’’غذائی خود کفالت اور کاشتکاروں کے مسائل‘‘کے موضوع پر ہونے والے دنیا فورم میں وفاقی محتسب انشورنس ڈاکٹر خاور جمیل نے سندھ زرعی یونیورسٹی کے طلباء کیلئے تحقیق کی مد میں اسکالر شپ دلانے کا اعلان کیا جبکہ وی سی ڈاکٹر فتح محمد مری نے کہا کہ زرعی شعبے میں تحقیق سے غذائی قلت پر قابو پایاجاسکتا ہے ۔ماہرین نے مطالبہ کیا کہ حکومت زرعی شعبے میں آسانی پیدا کرے ،ڈیمز بنائے ے جائیں ،سیلابی اور نہری پانی کے راستوں سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے،خوشی یہ بھی ہوئی کہ زرعی یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات بھی ملکی مسائل سے بخوبی آگاہی ہیں اور ان مسائل کا حل بھی پیش کررہے ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان نوجوانوں کو تحقیق کیلئے وسائل فراہم کرے ۔کسانوں کو آسانی دے اور ملک کو مشکلات سے نکالے۔امید ہے کہ اس دنیا فورم سے بھی ملک وقوم کو فائدہ ہوگا۔شکریہ

(مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ:00920321-2699629،0092-3444473215 

ای میلmustafa.habib@dunya.com.pk: 

انشورنس کمپنی مقرر ہ وقت میں رقم نہیں دیتی تو وفاقی محتسب انشورنس میں درخواست دی جائے فوری کارروائی کی جائے گی۔ کسانوں کے تحفظ کے بغیر زراعت ترقی نہیں کر سکتا،وفاقی محتسب انشورنس

 1990ء میں زراعت کافی بہتر تھی بیرون ملک سے گندم ،دالیں درآمد نہیں ہوتی تھیں۔ آج زمینداروں اور کاشت کاروں کو آگہی اور تحفظ نہ ملنے سے مسائل ہیں، ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی جامعہ بلوچستان

بھارت ،افریقا ،بنگلہ دیش زراعت میں ہم سے زیادہ ریسرچ کرتے ہیں ۔ معاشی صورتحال بہتر کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے ، بارشوں سے فائدے کیلئے ڈیمز بنائے جائیں،مشیر واپڈا

  اقوام متحدہ کی 1990کی رپورٹ میں پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کا انتباہ کیاگیا تھا،حکومت اگر اسوقت توجہ دے دیتی تو آج یہ مسائل نہیں ہوتے ،وائس چانسلر سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام

 جاپان میں زمینداروں اور کاشتکاروں کی یونینز خریدو فروخت کا فیصلہ کرتی ہیں۔ کسان کی فصل تباہ ہوجائے تو وہ قیمت گر نے نہیں دیتے اور کسانوں کا نقصان نہیں ہوتا، رکن انڈس ریور سسٹم اتھارٹی

  عدالتی فیصلے کے باوجود سیلابی صورت حال کنٹرول نہیں کر رہے۔ گزشتہ بارشوں میں سندھ میں تباہی مچ گئی اسکے بعد بھی مستقبل میں بچنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ،ریٹائرڈ سیکریٹری آبپاشی سندھ

 دنیا : قدرتی آفات میں وفاقی محتسب کا ادارہ کسانوں کو کیا سہولت فراہم کرتاہے؟

وفاقی محتسب انشورنس ڈاکٹر خاور جمیل :دنیا فورم کا شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے اہم موضوع پر پروگرام کا انعقاد کیا۔سندھ زرعی یونیورسٹی قومی درس گاہ ہے جہاں پورے پاکستان سے بچے آتے ہیں۔ ہاسٹل میں ساڑھے تین ہزار بچے ہیں جو بڑی بات ہے۔ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس نے سہولتیں دیں ۔دنیا کی کئی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں فوڈ سیکیوٹی کے بہت سنگین مسائل ہیں ان کی بنیادی ضرورت بھی پوری نہیں ہوتی۔پاکستان پر اللہ کا بہت فضل ہے، ملک کے نوجوانوں نے ہی ملک کو آگے لے کر چلنا ہے۔سندھ زرعی یونیورسٹی میں پروگرام کرنے کا ایک مقصد ہے۔دو ماہ پہلے ایک پروگرام میں تھا وہاں فصل کی انشورنس( Crop Insurance )پر بات ہورہی تھی ہم نے محسوس کیا کسانوں اور سندھ کے عوام کو فصل انشورنس پر آگہی ہونی چاہیے ۔آج کافورم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ فصل انشورنس کے بارے میں نچلی سطح پر لوگوں کو آگہی نہیں ہے کہ انشورنس کیا ہے۔فائدے اور سہولتوں کے بارے میں معلومات نہیں ہے۔عام طور پر چھوٹے کاشتکار اپنی زمینوں کی انشورنس نہیں کراتے۔

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات آرہے ہیں ۔دنیا کے 10 ممالک میں پاکستان تیسرے یا چوتھے نمبر پر ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے متاثررہورہاہے۔اس مسئلے پر قومی سطح پر کام کررہے ہیں۔صدر پاکستان نے اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی ہے جسے خود دیکھتے ہیں، باقاعدہ میٹنگ ہوتی ہے۔پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں۔کمیٹی میں لوگوں کو آگہی دینے پر زور دیا جاتاہے ۔

 دنیا: وفاقی محتسب انشورنس کیاسہولتیں فراہم کررہا ہے؟

ڈاکٹرخاورجمیل:سبحان میمن کی زیر سرپرستی کمیٹی بنائی ہے جو سندھ بھر میں ضلعی سطح پر اجلاس کرتی ہے تاکہ نچلی سطح پر انشورنس کے بارے میں آگہی دی جاسکے ۔دنیا اخبار کے ساتھ دنیا فورم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔چھوٹے کاشتکار جن کے پاس تھوڑی ہی زمین کیوں نہ ہو ان کو سہولت ملے۔ خدانخواستہ موسم کی تبدیلی سے کوئی نقصان ہوتاہے توانشورنس سے ان کو فائدہ ہو۔انشورنس دوماہ کے اندر کلیم کی ادائیگی کردیتا ہے۔ انشورنس کمپنی مقرر ہ وقت میں رقم نہیں دیتی اورمنع کرتی ہے تو وفاقی محتسب انشورنس میں درخواست دی جائے فوری کارروائی کی جائے گی۔ کسانوں کے تحفظ کے بغیر زراعت ترقی نہیں کر سکتا۔ وفاقی محتسب انشورنس چھوٹے کسانوں کو بھی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ لوگوں کو آگاہی نہیں۔لائیو اسٹاک کی بھی انشورنس کی جا رہی ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں مویشی مر جاتے ہیں، جس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ ہمارا ادارہ ان کی انشورنس کرتا ہے تاکہ کسانوں کو تحفظ ملے اور وہ پیداوار بڑھائیں۔

دنیا: ا نشورنس کا طریقہ کار کیاہوتاہے؟

ڈاکٹر خاور جمیل:انشورنس دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک لائف دوسری جنرل انشورنس ۔جنرل انشورنس میں زراعت ، لائیو اسٹاک،پولٹری اور بھی کئی شعبے شامل ہیں، فیکٹریاں،انڈسٹریز،گھر ، امپورٹ ، ایکسپورٹ، کنٹینرز،گاڑیاں اورزراعت میں استعمال ہونے والی تمام چیزیں جنرل انشورنس میں شامل ہیں جبکہ فشریز ،لائیو اسٹاک ،ہیلتھ انشورنس یہ سب بھی جنرل انشورنس میں آتی ہیں۔وفاقی محتسب کا ادارہ جنر ل انشورنس پرکام کرتا ہے۔ لائف کے علاوہ سب چیزیں جنرل انشورنس میں آتی ہیں۔ فصل انشورنس پرکام کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ چھوٹے کاشتکاروں کو سہولت اور تحفظ ملے۔بڑے کاشتکار بھی انشورڈ کراسکتے ہیں۔پانچ ایکڑ پر کاشت کرنے والا کسان بھی جنرل انشورنس میں خود کو انشورڈ کرا سکتا ہے ۔ بینک قرضہ دیتے وقت اپنی رقم کو تحفظ دینے کیلئے کاشتکار سے انشورنس کرواتاہے۔کاشتکار براہ راست بھی کمپنی سے خود انشورنس کراسکتاہے۔ کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے توکارروائی کرتے ہوے کیس چلاتے ہیں اور دوماہ کے اندر فیصلہ کرتے ہوئے متاثر کو حق دلاتے ہیں۔ 

دنیا:زرعی ملک ہوتے ہوئے ہمیں غذائی قلت کا سامناکیوں ہے؟

وائس چانسلرڈاکٹر فتح محمد مری : بدقسمتی سے ہمارے ملک کو بہت زیادہ غذائی قلت کا سامنا ہے۔پہلے جب ماہرین یہ انتباہ کرتے تھے کہ پاکستا ن کو مستقبل میں غذائی قلت کا سامناہوسکتا ہے تو جواب دیا جاتا تھا کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہم تو زرعی ملک ہیں ہمیں غذائی قلت کاسامنا کیسے ہو سکتا ہے ۔ 1990ء میں اقوام متحدہ نے بھی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں انتباہ کیا تھا کہ پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کا سامنا  ہو سکتا  ہے ۔ حکومت نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی اگر اسوقت توجہ دے دی جاتی تو آج یہ مسائل نہیں ہوتے ۔پاکستان کی آبادی میں آدھی تعداد بچوں کی ہے اس میں سے 46فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

حالیہ بارشوں اور سیلا ب سے فصل کوبہت نقصان پہنچا۔ جس کی وجہ سے سبزی اور دالوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئیں۔ ہمیں دالیں اور کھانے کا تیل درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ہمیں ان مسائل کو سنجیدہ لینا ہوگا تب ہی فوڈ سیکیورٹی کے چیلنجز کاسامنا کرسکتے ہیں۔ زرعی شعبے میں ہیلتھ انشورنس سے غذائی قلت کے مسائل پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ ہمیں اس طرف بھی سوچنا ہوگا۔ حکومت توجہ دے تو مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔زراعت کے سیکٹر میں خطرات بہت زیادہ ہیں،موسمیاتی تبدیلی اور موسم کے اثرات بہت اہم ہوتے ہیں ۔ابھی سردیاں ختم نہیں ہوئیں لیکن آج سے گرمیاں شروع ہوگئیں ہیں۔ہمیں موسمیاتی تبدیلی کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے چیزوں کو سمجھنا ہوگا۔

دنیا: یونیورسٹیوں میں ریسرچ پر وہ کام نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے کیاوجہ ہے؟

وائس چانسلر فتح محمد مری :حقیقت ہے پاکستان میں کسی بھی شعبے میں تحقیق پر مطلوبہ معیار کا کام نہیں ہورہا۔ریسرچ پر پالیسیاں بھی واضح نہیں ہیں۔حکومت کی طرف سے یونیورسٹیوں کو تحقیق کی مد میں جو بجٹ دیا جاتا ہے وہ بہت کم ہے۔زراعت کا سیکٹر ایسا ہے جس میں تحقیق کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔تھیسز ،فائنل پروجیکٹ ،پی ایچ ڈی میں ریسرچ ضروری ہے، ہمیں بیچ اور جڑوں پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔حال ہی میں یونیورسٹی میں جینیٹکس کی لیب قائم کی ہے جس میں لائیو اسٹاک کی کوالٹی کو بہتر کرنے پر کام کررہے ہیں ۔ زرعی سیکٹر میں بینک سے قرضہ لینے کیلئے پراسز میں کافی مسائل ہوتے ہیں جس سے قرضہ آسانی سے نہیں ملتا۔درخواست ہے کہ بینک ایگری کلچر فنانس میں ایشوز کو حل کر یں اور ریسرچ میں فندنگ کریں۔ وسائل نہ ہونے سے بھی ریسرچ میں بہت مشکل ہو رہی ہے۔

دنیا: بلوچستان میں بارشوں کے بعد کاشت کاروں کی کیا صورت حال ہے؟

ڈاکٹر عبدالسلام : بلوچستان زراعت کے لحاظ سے بہت سود مند خطہ ہے۔اللہ نے اس کو معدنیات سے مالا مال کیاہے جہاں کام کرنے کے وسیع مواقع ہیں۔ بلوچستان میں جنگلی زیتون کی کاشت پر بہت کام ہو سکتاہے۔ دنیا بھر میں جنگلی زیتون کی بہت اہمیت ہے۔حکومت توجہ دے تو ہمیں کھانے کا تیل درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑے اور سستا تیل دستیاب ہو گا۔پاکستان 5سے 6ارب ڈالر خوردنی تیل پر خرچ کررہا ہے۔زیتون کے درختوں سے تیل حاصل کرنے کیلئے 5 سے 10 سال لگ سکتے ہیں ا س کے بعد تیل کی کمی نہیں ہوگی اور ملکی زرمبادلہ بھی بچے گا۔بلوچستان کے کچھ علاقے زیتون کی کاشت کیلئے بہت سود مندہیں۔ژوب کے پرانے علاقوں میں آج بھی زیتون کے جنگلات موجود ہیں۔وہ لوگ درخت اگاتے ہیں اور جلانے کے استعمال میں لاتے ہیں۔ آگہی نہ ہونے سے تیل نہیں نکالتے اور وہ فائدے حاصل نہیں کرتے جو کرنے چاہئیں۔معاشی صورت حال بہتر کرنے کیلئے دیرپا اور طویل مدتی منصوبوں پر عمل کرنا ہوگا۔1990ء میں زراعت کافی بہتر تھی بیرون ملک سے گندم ،دالیں اور دیگر چیزیں درآمد نہیں ہوتی تھیں۔ آج زمینداروں اور کاشتکاروں کو آگہی اور تحفظ نہ ملنے کی وجہ مسائل کا سامنا ہے۔حال ہی میں گندم بحران کی وجہ سے گند م باہر سے منگوانی پڑی۔بدقسمتی سے جو اجناس برآمد کرنی چاہیے تھی وہ درآمد کررہے ہیں۔اسپین دنیا کو 18فیصد زیتون کا تیل فراہم کررہا ہے، حکومت بلوچستان کے وہ علاقے جہاں زیتون پرکام ہوسکتاہے توجہ دے تو ہم اسپین سے کئی گنا زائد زیتون پیدا کر سکتے ہیں۔اس کی پیداوار بڑھانے کیلئے آسانی فراہم کی جائے۔

دنیا: زراعت سیکٹر کی بہتری کیلئے واپڈا کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟۔

 مشیرواپڈا محفوظ عر سانی : طلباء مستقبل کے معمار ہیں ،ملک کی باگ دوڑانہوں نے ہی سنبھالنی ہے۔ان کو ان مسائل سے آگہی او ر حل کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے ۔واپڈا ڈیم اور پانی کے رساؤ کو کنٹرول کرنے پر کا م کر رہا ہے۔ گزشتہ سال بہت زیادہ بارشیں ہو ئیں جس سے 80 فیصد فصلیں تباہ ہو گئیں اور غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔سندھ کا سب سے اہم مسئلہ ہے کہ یہاں پانی اوپر سے آتاہے اس کو استعمال کرنے اور محفوظ کرنے کیلئے ہمارے پا س کوئی منصوبہ بند ی نہیں ہے۔ جوپانی ہمارے لئے فائد ے مند ہو سکتا ہے غلط منصوبہ بندی سے نقصان ہورہا ہے ۔ کے فور منصوبے پر کام کیا اس میں بھی سندھ کے لوگوں کو خدشات تھے جنہیں دور کرنے کی کوشش کی، ہمارے ساتھ یہ مسائل بھی ہیں جس کی وجہ سے ہماری منصوبہ بندی کارآمد نہیں ہو پاتی۔ گزشتہ سال بارشوں اور سیلاب سے 50ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ا س میں 35 ارب ڈالر زراعت کے شعبے میں ہوئے۔ اگر ہم اس نقصان کو بچانے میں کامیاب ہو جاتے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ہماری پالیسیاں اچھی ہوں تو زراعت سے 20 فیصد جی ڈی پی مل سکتی ہے جس سے فوڈ سیکیورٹی کے مسائل نہیں ہوں گے اور معاشی صورت حال بھی کافی بہتر ہوسکتی ہے۔ حکومت زرعی سیکٹر کی مدد اور ٹھوس منصوبہ بندی کرے تو ہمیں باربار آئی ایم ایف کی طرف دیکھنا نہ پڑے۔بد قسمتی سے ملک میں ایگری کلچر سیکٹر میں ریسرچ کیلئے بجٹ نہیں ہے۔ہم بھارت ،افریقا ،بنگلہ دیش سے موازنہ نہیں کرسکتے یہ لوگ زراعت میں ہم سے زیادہ ریسرچ کرتے ہیں ۔ہمیں فوڈ سیکیورٹی کیلئے کئی کام کرنے ہوں گے۔ ٹھوس منصوبہ بندی نہ ہونے سے معاشی صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ڈیمز کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہم بارشوں سے نقصان کے بجائے فائدہ اٹھا سکیں ۔ زراعت کے شعبے کیلئے ہمیں بینک 18 سو ارب روپے قرضہ دیتے ہیں اس کیلئے 15 ہزار ملین روپے دینے ہوتے ہیں ۔وفاقی محتسب انشورنس کی مہربانی انہوں نے اس چیز کو کنٹرول کیا ۔ انشورنس کمپنیاں سپورٹ کررہی ہیں جس سے بینک قرضوں میں کمی ہوئی ۔پہلے کسان ہزاروں روپے میں کاشت کرلیتا تھا اب لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور انشورنس بھی نہیں ہوتی ،کسان کیسے برداشت کرے گا۔ان مسائل کو حل کرنے کیلئے نوجوانوں میں آگہی ضروری ہے۔ملک میں کرپشن،غلط منصوبہ بندی، سیاسی غیر یقینی کی صورت حال کی وجہ ملک معاشی طور پر بد حال ہوتا جارہاہے،اللہ نے پاکستان کو ہر چیز سے نوازہ ہے اسے ڈیفالٹ نہیں ہونا چاہیے۔

دنیا: ایگری کلچر سیکٹر میں بہت مسائل ہیں ،زرعی پالیسی کیسے بہتر ہوسکتی ہے؟

 خالد حید رمیمن : موضوع بہت اہم ہے جوہمیں ان مسائل کو حل کرنے میں آگہی دے گا۔وفاقی محتسب سندھ میں انشورنس کے مسائل حل کرنے کیلئے بہت کوششیں کررہے ہیں ،ہمیں ان کو سپورٹ کرنی چاہیے۔فورم کے توسط سے حکومت سندھ سے درخواست کروں گافصل انشورنس کو بڑھانے میں وفاقی محتسب انشورنس کے ادارے سے تعاون کرے اور کسانوں کو اس کے بارے میں آگہی دی جائے ۔ بھارت، افغانستان اورپنجاب سے پانی مختلف دریاؤں سے ہوتاہو ا سندھ میں آتاہے ۔ہم نے پانی کو راستہ نہیں دیا۔ سیلابی اور نہری پانی کے راستوں پر تجاوزات قائم کر دیں، جس کی وجہ سے بدترین تباہی ہوئی اور فصلیں ختم ہو گئیں۔

فصل انشورنس کا سندھ میں موسمیاتی تباہی سے گہرا تعلق ہے۔ سارا پانی سندھ سے ہو کر جاتاہے لیکن ہم اسے محفوظ نہیں کر سکتے۔ سندھ تین اطراف سے گھرا ہوا ہے جس کے باعث سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے تباہی ہوتی ہے۔ہم پانی روک بھی نہیں سکتے۔ اعلیٰ عدلیہ کے واضح فیصلے کے باوجود سیلابی صورت حال کنٹرول نہیں کر رہے۔ سندھ کو بچانا ہے تو پانی کو راستہ دینا ہو گا۔ گزشتہ بارشوں میں سندھ میں تباہی مچ گئی اسکے بعد بھی مستقبل میں ایسی صورت حال کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کررہے۔

دنیا: ایگری کلچر سیکٹرمیں فصل انشورنس کیسے بڑھ سکتی ہے؟

 سید مظہر علی شاہ : کاشتکارو ں کے مسائل تو بہت ہیں۔چھوٹے کسانوں کوبیج اور پانی پورا نہیں ملتا۔ کاشتکاری میں پانی بنیادی چیز ہے یہ نہیں ملے گا توکچھ نہیں ہوگا۔ آڑھتی کی وجہ سے کسانوں کو وہ قیمت نہیں ملتی جو ملنی چاہیے۔ جاپان میں زراعت کے شعبے میں ایک سال کام کیا۔وہاں زمینداروں اور کاشتکاروں کی یونینز ہوتی ہیں۔ جو خریدو فروخت کا فیصلہ خود کرتی ہیں اورکسانوں کے نقصان کا بھی تحفظ کرتی ہیں۔اگر کسی کسان کی فصل جل جائے یا جگہ تباہ ہوجائے تو وہ چیزوں کی قیمت گر نے نہیں دیتے یونین خو د مسئلہ حل کرتی ہے کسانوں کا نقصان نہیں ہونے دیتی ۔ جبکہ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں۔یہاں بھی یہ نظام قائم ہونا چاہیے۔ ہماری فصل جل جائے تو حکومت سمیت کوئی مدد نہیں کرتا۔ آڑھتی کا کردار ختم ہو جائے تو کسانوں کو ان کی محنت کی صحیح قیمت مل سکتی ہے۔ اوراشیاء بھی سستی ہوسکتی ہیں۔

ڈاکٹر تہمینہ منگن : ملک کی فصل اور معاشی صورت حال بہتر کرنے کے حوالے سے موضوع بہت اہم ہے، اس طرح کے فورم طلبہ اور معاشرے کو آگہی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ملک کی 70 فیصد آبادی اس سیکٹر سے وابستہ ہے جو ہماری ترقی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں ہونے والی ریسرچ کو ہماری پالیسیاں بنانے والے سپورٹ نہیں کررہے ،حکومت اس طرف توجہ دے،سندھ زرعی یونیورسٹی میں زراعت کے سیکٹر کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے،یونیورسٹی میں مقامی اور بین الاقوام سطح پر پروگرام منعقد کیئے جاتے ہیں جس میں طلباء کو اس شعبے سے متعلق آگہی اور مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

ڈی جی محتسب انشورنس نے 

ہندو بیوہ کو رقم دینے کا واقعہ سنایا

 وفاقی انشورنس محتسب کے ڈی جی مبشر نعیم صدیقی نے بتایا کہ ہمارا ادارہ ایک محتسب کا ادارہ ہے۔شکایات پر کارروائی کرتے ہیں۔ادارے میں ایک ہندو بیوہ آئی، جس نے درخواست دی کہ ایک لائف انشورنس کمپنی شوہرکی وفات کے بعد کلیم نہیں دے رہی۔خاتون ڈیڑھ سال سے کوشش کررہی تھی لیکن اس کو کلیم نہیں ملا۔ا س کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ا سکو اردو بھی نہیں آتی تھی پہلی مرتبہ کراچی آئی تھی ۔ شوہر کسی کمپنی میں ڈرائیور تھا جس نے ذاتی لائف انشورنس کرائی تھی ۔کمپنی میں کام کے دوران چل بسا۔ ہم نے کیس چلایا ۔ کمپنی کو بلایا اور اْس خاتون کو ڈھائی لاکھ روپے کا چیک دلایا، جو اْس کا حق تھا ، وہ خاتون چیک دیکھ کر رونے لگی، اْس کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ فیصلہ ہو گا اوررقم مل جائیگی۔ دنیا فورم کے توسط سے پیغام دینا چاہوں گا انشورنس کے حوالے سے کوئی بھی مسئلہ ہو ہمیں درخواست دیں۔ہم حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔پورے پاکستان میں ریجنل دفاتر ہیں،کراچی میں ہیڈ آفس ہے۔ یہ ادارہ حکومت نے اسی لیے قائم کیا ہے کہ لوگوں کی داد رسی ہوسکے۔

 

وفاقی محتسب کا ریسرچ 

کیلئے اسکالرشپ کا اعلان

دنیا فورم کے دوران وفاقی محتسب انشورنس ڈاکٹر خاور جمیل نے اعلان کیا کہ وائس چانسلر فتح محمد مری یونیورسٹی کے کوئی بھی دو شعبے منتخب کرلیں ۔انشورنس کمپنی سے بات کرلیتے ہیں وہ ان شعبوں کے طلباء کو اسکالر شپ دیں اور اخراجات اٹھائیں ۔ ان شعبوں میں جتنی ریسرچ کرنی ہے کریں اس کے اخراجات انشورنس کمپنی اٹھائے گی ۔یہ بچے ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں ان کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے۔

فورم میں فیکلٹی ارکان اور طلبہ وطالبات کے سوالات وتجاویز

فورم میں یونیورسٹی کے اساتذہ او ر طلبہ و طالبات نے شرکا ء سے سوالات کیئے اور تجاویز بھی دیں ۔شعبہ ایگری کلچرکی طالبہ حرم فاطمہ نے کہاکہ آج کے پروگرام سے زراعت او ر انشورنس کے حوالے سے بہت معلومات ہوئی ۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایگر ی کلچر سیکٹرمیں بہت تبدیل آرہی ہے۔اس کو کون کنٹرول کرے گا ۔حکومت ا س طرف کام کیوں نہیں کرتی؟حکومت بارشوں اور سیلاب کے بعد صورت حال کنٹرول کیوں نہیں کرتی؟،حکومت کی اچھی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے کا آئل امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ شعبہ سوشل سائنس کے طالب علم میر حسن بجرانی نے کہا کہ پاکستان زرعی ملک ہے ، سب چیزیں پیدا ہوتی ہیں اسکے باوجود ہم یہی چیزیں درآمد کیوں کرتے ہیں؟۔شعبہ اکنامکس کے طالب علم نوشیر علی بھٹو نے کہاکہ زراعت کے شعبے میں آڑھتی کے کردار کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کو وہ قیمت نہیں ملتی جو ملنی چاہے۔سبزیاں اور پھل کو اگانے کا کام کسان ہی کرتاہے اس کے باوجود اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے او رآڑھتی بہتر سے بہتر ہورہاہے۔جب تک یہ چیزیں بہتر نہیں ہوں گی زراعت پروان نہیں چڑھے گی۔

ہمیں ان مسائل کو سمجھتے ہوئے حل نکالناہوگا ،اسمگلنگ روکنی ہوگی۔شعبہ ایگری کلچر کے چیئرمین ڈاکٹر ناصر نے سوال کیا کہ چھوٹے کاشتکار وں کی وفاقی محتسب انشورنس کے ادارے تک رسائی کیسے ممکن ہوگی اور پولٹری میں ہونے والے نقصان کو آپ کی انشورنس کیسے تحفظ دیتی ہے؟ان مسائل کے حل کیلئے حکومت کی کوئی پالیسی نہیں آپ کا ادارہ کیا مدد کرسکتاہے؟۔شعبہ اکنامکس کی ڈاکٹر مہوش طاہر نے سوال کیا کہ عوام میں وفاقی محتسب انشورنس کا کیا کردار ہے؟۔ مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے وفاقی محتسب انشورنس ڈاکٹر خاورجمیل نے کہا کہ زیادہ تر پولٹری فارم انشورڈ ہوتے ہیں کیونکہ ان میں نقصانات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ان کی مشینیں بھی بہت مہنگی ہوتی ہیں جو سب درآمد ہوتی ہیں اس لیے انشورڈ ہوتی ہیں۔جانور بھی انشورڈ ہوتے ہیں۔آگہی نہ ہونے سے چھوٹے کسان اور کاشتکار انشور نس نہیں کراتے ۔نقصان ہونے کی صورت میں انہیں پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے ۔انشورڈ کمپنیاں پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھتی ہیں حکومت صرف ریگولیٹ کرتی ہے۔ ملک کو تحقیق کے شعبے میں کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔وفاقی انشورنس محتسب بھرپور رتعاون کرنے کو تیار ہے۔ فصل کی انشورنس کی آگہی نہ ہونے سے نچلی سطح کے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ہمار ا ادارہ تعاون کیلئے ہر وقت تیار ہے،

میڈیا کردار ادا کرے۔وائس چانسلر فتح محمد مری نے کہا کہ ہمارے کاشتکاروں کو اپنی چیز برآمدکرنے میں مسائل کا سامناہوتا ہے او ر اسے وہ قیمت نہیں ملتی جو اس کا حق ہے حکومت کو ا ن مسائل پر قابول پائے ۔پاکستان میں تحقیق کی بہت کمی ہے، حکومت تعلیمی اداروں کو ضرورت کے مطابق فنڈ فراہم کرے۔ زراعت میں تحقیق بہت ضروری ہے، اس کے بغیر بہترکام نہیں ہو سکتے۔ 2030ء تک زراعت کو 6 فیصد تک بڑھانی ہوگی ا س سے غذائی قلت کو کنٹرول کرنے کے ساتھ روزگارکے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔ہمار ی 17فیصد خوراک ضائع ہوجا تی ہے۔ زرعی ملک کے ناطے ہمیں پیداوار بڑھانی اور غذا کو ضائع ہونے سے بچانا ہوگا تب ہی غذائی قلت دور کرسکتے ہیں۔ ملک کے کئی شہروں میں ہمار ے کیمپس موجود ہیں، دنیا فورم اگر پروگرام کرنا چاہے تو ہمارے دروازے کھلے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔