فروغ تعلیم میں کوشاں فلاحی ادارے،روشن مستقبل کی امید

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :عمران علی لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء:فاروق احمد کملانی ڈائریکٹر بنو قابل الخدمت ۔ ڈاکٹر ٹیپو سلطان، سربراہ کوہی گوٹھ اسپتال اور چانسلر ملیر یونیورسٹیفیاض الرحمٰن ،جنرل منیجر احسان ٹرسٹ۔ احمد علی صدیقی، سابق خزانچی احسان ٹرسٹ مصدق عزیز ، سربراہ ریسورس موبلائزیشن گرین کریسنٹ ٹرسٹ ۔ معین خان ، سیکریٹری اطلاعات المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی۔نثار احمد ،ٹرسٹی عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ۔ شاہین رحمٰن ، صدر مداوا ویلفیئر سوسائٹی۔

 بنو قابل الخدمت کی بڑی کاوش اور حافظ نعیم الرحمٰن کا خیال تھا:  فاروق کملانی ،تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی تعلیم کسی کی ترجیح نہیں:  ڈاکٹر ٹیپو سلطان

 احسان ٹرسٹ 4 ہزار سے زائد بچوں کو تعلیمی قرضہ فراہم کرچکا:  فیاض الرحمٰن،دینی مدارس کے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے قرض حسنہ دیتے ہیں:  احمد علی صدیقی

حکومت ویران سرکاری اسکول فلاحی اداروں سے ملکر بہتر کرے:  معین خان،گرین کریسنٹ کے تحت 30ہزار بچوں کو تعلیم دے چکے:  مصدق عزیز

عالمگیر ویلفیئر اسکولوں میں کورسز اور یونیفارم فراہم کررہا ہے:  نثار احمد ،سندھ حکومت اسکولوں کی حالت بہتر کرنے میں سنجیدہ نہیں:  شاہین رحمٰن

 

 موضوع: ’’فلاحی تنظیموں کا تعلیم کے فروغ میں کردار‘‘ 

 

 ملک جس تیزی سے معاشی مشکلات کا شکار ہوتا جارہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی،جو کل تک لوگوں کی مدد کرتے تھے ان میں بہت سے آج خود مدد کیلئے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں،ایسے میں فلاحی اداروں پر جہاں ذمہ داری بڑھ جاتی ہے وہیں ان کیلئے فنڈز کے حصول کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔دنیا فورم نے اس مرتبہ بھی اپنی روایت کے مطابق رمضان میں فلاحی اداروں کیساتھ فورم کا اہتمام کیا تاہم اس بار صرف ایک مسئلے پر بات کی اور وہ تھی تعلیم کی فراہمی۔ الخدمت ویلفیئر فائونڈیشن کے تعاون سے اس کے مرکزی دفتر میں دنیا فورم میں مختلف فلاحی اداروں نے جب یہ بتایا کہ جدید تعلیم ہی نہیں بلکہ عام تعلیم کی فراہمی میں انہیں کن مشکلات کا سامنا ہے تو سن کر دکھ ہوا۔وہ ادارے جن کی وجہ سے معاشرے میں خیر کا جذبہ قائم ہے اور کچھ امیدیں باقی رہتی ہیں وہی مشکلات سے دوچار ہیں،فلاحی اداروں کو تعلیم کے میدان میں بھی کافی مشکلات کا سامناہے جبکہ وہ غریب بچوں کو ابتدائی سے لے کر اعلیٰ تعلیم کی فراہم کیلئے کوشاں ہیں،

ایسے سرکاری تعلیمی ادارے جہاں گدھے اور بھینسیں بندھی ہیں اور ویران پڑے ہیں وہ فلاحی ادارے گود لے کر چلانا چاہتے ہیں تو بھی حکومت ان کیساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے جدید آئی ٹی کے مہنگے ترین کورسز مفت کرائے جانے ،ٹیکنیکل ہنر سکھانے اور پرائمری سے میٹرک تک مفت تعلیم کی فراہمی جیسے اقدامات کو حکومت کو سراہنا چاہیے۔ہم دنیا فورم کے توسط سے حکومت سے امید کرتے ہیں کہ ہمار ی رپورٹ کے بعد حکومت فلاحی اداروں کی درخواستوں پر ضرور غور کریگی اور بند اسکول اور کالجز انہیں دے کر تعلیم کے فروغ میں کم ازکم اس حد تک تو ساتھ دیگی تاکہ غریب کا بچہ محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے زیور سے محروم نہ رہ جائے ۔ شکریہ (مصطفی حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ:

0092-3212699629

0092-3444473215

 امیر جماعت اسلامی کراچی نے بھارتی شہر بنگلورکی طرح کراچی کو بنیاد بناتے ہوئے کام شروع کیا۔ آئی ٹی کو بڑھائیں توبڑا ریونیو پیدا کرسکتے ہیں جس سے تعلیمی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں،ڈائریکٹر بنو قابل

  سرکاری اسکول گود لینے کی کوشش کی ،کہا گیا گود لیں لیکن صرف سہولتیں فراہم کریں ،اساتذہ بھرتی کریں او ر تنخواہ دیں،پہلے سے موجود اساتذہ کو نہ چھیڑیں،چانسلر ملیر یونیورسٹی

 اسپتال گود لینے کیلئے ڈائریکٹرسے سب طے پاگیا، آخر میں ڈائریکٹر نے ہوٹل بلایااور کہا کہ 15لاکھ روپے نذرانہ دیناہوگا،جو لوگ فلاحی اداروں کو نہیں چھوڑتے وہ ملک کوکیا بخشیں گے،سیکرٹری اطلاعات المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی

 عموماً! وڈیرے اور جاگیر داربچوں کی تعلیم چاہتے ہیں، تعلیم کے فروغ کیلئے کام کرنے والی فلاحی تنظیمیں مل کر ایک پلیٹ فارم سے کام کریں تو تعلیمی مسائل حل ہوسکتے ہیں،سربراہ ریسورس موبلائزیشن گرین کریسنٹ

 ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ میں سلائی مشین اور کڑھائی کی تربیت دیتے ہیں،کورس مکمل کرنے والی خواتین کو روزگار کے حصول کیلئے مشینیں اور لیپ ٹاپ بھی دیئے جاتے ہیں، ٹرسٹی عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ

دستگیر میں 5اسکول ویران پڑے ہیں،عزیز آباد کے 8 سرکاری اسکولوں کی حالت اچھی نہیں ،ہم نے گود لیکر چلانے کی پیشکش کی لیکن اِدھر سے اُدھر درخواستیں جاتی رہیں اور کام نہیں ہوا،صدر مداواٹرسٹ

 ضرورت مند طلباء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے سود سے پاک قرضے دیتے ہیں تاکہ ذہین بچے محض پیسہ نہ ہونے سے اعلیٰ تعلیم سے محرو م نہ رہیں، ان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء بھی شامل ہیں،جنرل منیجر احسان ٹرسٹ

 کئی بچے 90اور80 فیصد نمبر کے باوجودمحض غربت کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخلے کی کوشش نہیں کرتے جبکہ ہر یونیورسٹی کے پا س کچھ نہ کچھ فنڈز ہو تا ہے،لیکن معلومات نہیں ہوتیں،سابق خزانچی احسان ٹرسٹ

 دنیا: بنو قابل کیا ہے کن شعبوں میں کام کررہے ہیں ؟

 فاروق احمد کملانی: بنو قابل الخدمت ویلفیئر فاؤنڈیشن کی بڑی کاوش ہے جوامیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا خیال تھا۔ کراچی میں 18ملین نوجوان ہیں۔ روایتی تعلیم کے نتیجے میں بچوں کو آگے جاکر نوکریوں کے مسائل آرہے ہیں ۔شہر می بچے تعلیم تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ہنرمند نہیں ہیں۔ ملازمت کیلئے کوشش کررہے ہیں قابل بھی ہیں لیکن عملی مہارت نہیں جس کی وجہ سے اچھے مواقع نہیں مل رہے،انہی نوجوانوں کوقابل بنانے کیلئے قابل بنو منصوبہ بنایا ہے۔آئی ٹی انڈسڑی کوسامنے رکھتے ہوئے کورسز ڈیزائن کئے ہیں،جون جولائی میں رجسٹریشن کی تو اندازہ تھا 500 سے ہزار بچے آجائیں گے۔ انہیں آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ سے الحاق کرادیں گے اوربچوں کی فیسیں ادا کریں گے پہلے یہی منصوبہ تھا،لیکن جب رجسٹرشن شروع کی تو ہزار سے زائد بچے رجسٹرڈ ہوگئے ،ان میں میٹرک،انٹر او ر گریجویٹ کے طلباء شامل ہیں، 70ہزار سے زائد افراد نے ٹیسٹ دیئے۔پہلے فیز میں 10 ہزار بچوں کو منتخب کیا، انٹرویو لیے اورکلاسوں میں منتقل کیا،کورسزمیں تعلیم کے ساتھ جدید لیب بھی ہیں جس میں ایڈوانس لیپ ٹاپ اور Sarvar Based سسٹم دیوار پر اسکرین ہے۔

آئی ٹی کی بات کریں تو پڑوسی ملک بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری 2022ء کی رپورٹ کیمطابق آئی ٹی بر آمدات 227بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ تحقیق کے مطابق سعودی عرب اور ایران کی تیل کی برآمد بھی ا س سے کم ہے۔اس وقت بھارت بڑی معیشت بن رہا ہے،جبکہ پاکستان اب تک 3.5 بلین ڈالر تک پہنچا ہے۔پاکستان کی آئی ٹی وژن پالیسی 2018 ء میں2025ء تک کا ہدف بھی 20بلین ڈالر ہے۔امیر جماعت اسلامی کراچی نے شہر کی صورت حال پر پہل کرتے ہوئے فیصلہ کیاہے کہ جس طرح بھارت نے بنگلور شہر کو بنیاد بناتے ہوئے آئی ٹی سیکٹر میں ترقی کی ،ہم نے بھی کراچی کو بنیاد بناتے ہوئے کام شروع کیا۔ آئی ٹی کو بڑھائیں توبڑا ریونیو پیدا کرسکتے ہیں جس سے تعلیمی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔

دنیا: کورسز کے بعد ملازمت کے کیا مواقع ہوں گے؟

فاروق احمد کملانی :بنو قابل پروگرام میں ایمازون ،فری لانس ،ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور دیگر کورسز کرارہے ہیں۔ان میں بچوں کو فیس بک سے کاروبار کرنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں ،فیس بک اکاؤنٹ بنوارہے ہیں اس سے بچوں نے کاروبار بھی شروع کردیا ہے۔ایمازون کے کورس میں بچہ شروع سے کاروبار میں لگ جاتاہے، مخیر حضرات توقع سے زیادہ تعاون کررہے ہیں۔50فیصد سے زیادہ نئے ڈونرز سامنے آئے۔ بنو قابل سے مستفید ہونے والوں میں متوسط طبقے کے افراد کے بچے زیادہ ہیں۔مارکیٹ میں کورسز ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کے ہوتے ہیں جو الخدمت مفت میں کرارہی ہے۔ موبائل ایپلی کیشن کورس میں بچے زیادہ فائدہ اٹھارہے ہیں یہ کورس دو سے ڈھائی لاکھ میں ہوتاہے ،ہرکوئی نہیں کرارہا۔سارے کورسز پروفیشنل ہیں بچے دلچسپی سے کام کررہے ہیں۔یہ کام Remote Job کہلاتے ہیں بچہ گھر میں رہتے ہوئے بھی کام کرسکتاہے۔پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد کئی گناہ ہے اور انہیں درست سمت کی تلاش ہے ،فلاحی ادارے جدید تعلیم کے فروغ سے بچوں کا اور ملک کا مستقبل محفوظ بنارہے ہیں۔

دنیا: آپ کا ادارہ شعبہ تعلیم میں کیا کام کررہا ہے؟

ڈاکٹر ٹیپو سلطان: کوہی گوٹھ اسپتال کے ساتھ ہی ملیر یونیورسٹی بھی ہے ۔ کوہی گوٹھ اسپتال فلاحی ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی کوششیں کررہاہے تاکہ قوم کامعیار بلند کریں ۔کسی بھی قوم میں تعلیم نہ ہوتومعاشرہ تباہ اور لو گ جاہل رہ جاتے ہیں۔تعلیم بنیاد ی حق ہے ہم تعلیم کو اول ترجیح دیتے ہیں اس کے ساتھ ریسرچ پر بھی کام ہورہاہے،میٹرک اور انٹر پاس کو تعلیم کی سہولت فراہم کررہے ہیں ۔نوجوانوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔اسی صورت حال کے پیش نظر تعلیم کو مفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ملیر یونیورسٹی میں قرضہ حسنہ کے طور پر تعلیم دے رہے ہیں۔تعلیم حاصل کرواور چلے جاؤ جب نوکری لگ جائے تو فیس دینا شروع کردو اس پیسے سے دوبار ہ کسی بچے کو تعلیم دیں گے۔ملیر یونیورسٹی میں 200طلباء کی گنجائش ہے ،چار فیکلٹی ہیں ، 94بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، 250بچیاں اسکول میں پڑھ رہی ہیں، 80 بچے مختلف ٹیکنیشن کورسز کررہے ہیں،ان کی فیس نہیں ہیں ۔جس قوم میں تعلیم نہیں ہوتی و ہ سب سے پیچھے رہ جاتی ہے۔کوہی گوٹھ میں اسکول ہے لیکن پڑھانے کیلئے اساتذہ نہیں ہیں اسکول خالی رہتاہے،وہاں رضاکارانہ طورپر اساتذہ کو بھجتے ہیں کہ جاؤ اور پڑھا کر آجاؤ۔گزشتہ انتخابات میں ہم نے تما م سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا تھا اور ان سے بات کی ان کی ترجیحات میں تعلیم کہیں نہیں،منشور تک میں تعلیم کا نمبرانیس بیس پر آتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہم پر مسلط ہیں یہ لوگ تعلیم کو کچھ نہیں سمجھتے ،غریب او ر متوسط طبقہ اس مہنگائی میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواسکتا ان مسائل کودیکھتے ہوئے تعلیمی سرگرمیوں شروع کیں جو بالکل مفت ہیں۔ 

دنیا: تعلیم کے کن شعبوں میں کام کررہے ہیں کیا طریقہ کارہے؟

 فیاض الرحمٰن : احسان ٹرسٹ 2010 سے قائم ہے۔ ضرورت مند طلباء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے سود سے پاک قرضے فراہم کررہے ہیں تاکہ ذہین بچے محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محرو م نہ رہیں۔اسلام میں سود حرام ہے اس لیئے بچوں کو سود سے پاک رقم دے رہے ہیں ۔یہ کسی فرد کا قرضہ نہیں بلکہ تعلیمی قرضہ ہوتاہے،اپنی تعلیم مکمل کریں پیسہ واپس کریں تاکہ یہی پیسہ کسی اور بچے کو دیں،بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن فیسیں اتنی زیادہ ہیں برداشت نہیں کرسکتے اور داخلہ لینا خواہش ہی رہ جاتی ہے ،ایسے بچوں کوداخلے کیلئے سود سے پاک قرضہ فراہم کرتے ہیں ،شروع میں طالب علم سے 500 سے ہزار وپے لیتے ہیں ، باقی رقم پاس آؤٹ ہونے کے بعد 5 سال میں اداکرنے ہوتے ہیں تاکہ یہی رقم کسی دوسرے طالب علم کے کام آئے۔لمس جیسی بڑی یونیورسٹی سے ابتدا کی اب پاکستان کی 160 یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں مہنگی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے بچوں کو قرض حسنہ دے رہے ہیں ۔طالب علم کو رقم دینے کیلئے ادارے کے ساتھ ایم او یوسائن کرتے ہیں ۔ طالب علم براہ راست بھی رابطہ کرتاہے تواس کو بھی تعلیمی ادارے کے شعبہ مالیات سے رابطہ کرکے داخلے کی کارروائی شروع کرلیتے ہیں۔

یہ سہولت ضرورت مندوں کو دی جاتی ہے،جو بچہ قرضے حسنہ حاصل کرنے کا اہل قرار پاتا ہے اس کی فیس سمسٹرکی بنیاد پریونیورسٹی کے فنڈ میں منتقل کردیتے ہیں۔یہ رقم میرٹ پر دی جاتی ہے۔سمسٹرختم ہونے پر گریس شیٹ بھی لیتے ہیں تاکہ بچہ دلچسپی اور ذمہ داری سے اپنی تعلیم مکمل کرے۔اب تک 4 ہزار سے زائد بچوں کو سہولت فراہم کرچکے ہیں ۔ مزیدکئی یونیورسٹیاں رجسٹر ہورہی ہیں ۔ فنڈز میں بھی اضافہ کررہے ہیں ،ایم فل او ر پی ایچ ڈی کے طلباء کو بھی سہولت فراہم کررہے ہیں ۔ یہ سہولت ملک کی تمام یونیورسٹیوں اور اداروں میں فراہم کی جارہی ہے، ۔یہ کام بیرون ملک نہیں کررہے وہاں تعلیم پر بہت پیسہ لگتاہے ،وہاں کے ایک بچے کے برابریہاں 15بچوں کر پڑھا سکتے ہیں ۔

دنیا: فلاحی ادارے مدرسوں کے بچوں کیلئے کیا کام کررہے ہیں؟

احمد علی صدیقی : جو بچہ بھی میرٹ پر تعلیمی ادارے میں داخلہ لینا چاہتاہے اس میں مدرسے کے بچے بھی شامل ہیں ۔صر ف فیس کامسئلہ ہے تواحسان ویلفیئر ٹرسٹ ان کا مسئلہ حل کرے گا۔کئی طلباء ایسے بھی ہیں جو مدرسے عالم بنے اور پروفیشنل تعلیم کیلئے ایم بی اے یا ایم ایس میں داخلہ لیاوہ بھی ہمارے پاس آئے ۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کردار سازی نہیں ہوتی صرف پیسے کمانے کو ترجیح دی جاتی ہے،حلال اور حرام کی تمیزختم ہوتی جارہی ہے زندگی کامقصد صرف پیسہ کمانا ہی نظر آرہا ہے۔مدرسوں کے بچوں میں تعلیم کے ساتھ کردار سازی بھی ہوتی ہے ان میں اساتذہ کا ادب زیادہ نظر آتاہے۔اب دینی مدارس بھی اعلیٰ تعلیم کی طرف جارہے ہیں جو خوش آئند ہے،کئی دینی مدارس بچوں کو اسکالر شپ بھی دے رہے ہیں،طلباء کی کائوسلنگ بھی ہورہی ہے۔احسان ٹرسٹ مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کو بھی اعلیٰ تعلیم کیلئے مدددے رہاہے۔ہمارے نیٹ ورک میں 4ہزار سے زائد بچے شامل ہوچکے ۔بچوں کو تعلیم کے ساتھ ٹیکنکل تعلیم بھی دی جائے۔

اداروں میں تعلیم تو دی جارہی ہے آگہی نہیں دی جاتی اس طرف پر بھی غورکرناچاہیے۔کراچی کی آبادی دنیاکے کئی ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہے، ایک کروڑ 80 لاکھ نوجوان ہیں،بچوں کو آگے بڑھنے کا شوق ہے لیکن راستہ معلوم نہیں ہے۔ کئی بچوں کے انٹرمیں 90اور80 فیصد نمبر آئے لیکن انہوں نے یونیورسٹی میں داخلے کی کوشش نہیں کی وہ جانتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی کی فیسیں بہت زیادہ ہیں اور وہ تو 500 روپے بھی نہیں دے سکتے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات مشکل ہیں لیکن ہر یونیورسٹی کے پا س کچھ نہ کچھ فنڈز ہوتے ہیں ،ہمیں معلومات اور کوشش کرنی چاہیے ۔آئی بی اے میں بھی کئی طلباء زکوۃ فنڈز سے پڑھ رہے ہیں ۔فلاحی اداروں کو بچوں کے اعلیٰ تعلیم کے لئے راستے اور آگہی بھی دینی چاہیے ۔کوئی بھی فلاحی ادارہ تعلیمی کورسز شروع کرتا ہے توداخلہ لینے والوں کی قطار لگ جاتی ہے،اس صورت حال میں اداروں کو زیادہ سے زیادہ اور مفت میں تعلیم عام کرنے کی ضرورت ہے۔کراچی میں جس طرح فلاحی ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں بہت حوصلہ افزاء ہے،کوشش کررہے ہیں زکوٰۃ لینے والے کواس قابل بنادیں کہ وہ زکواۃ دینے والا بن جائے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرسال سرکاری طورپر10 ارب روپے کی زکواۃ بینکوں کے ذریعے اسٹیٹ بینک بیت الما ل میں چلی جاتی ہے،ملک میں فرض زکواۃ کی ادائیگی دوہزار ارب روپے ہے۔جس میں سے 10ارب گئی سرکار کے پاس ،باقی فلاحی اداروں اور کہاں جاتی کچھ نہیں پتہ ۔ایسے اداراے بھی ہیں جو زکواۃ اور خیرات کا پیسہ لے کر سود کے کاروبار میں لگا دیتے ہیں ۔ کوشش کریں اداروں کو ایک ساتھ جوڑیں اس سے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

دنیا: بنو قابل اسپیس ٹیکنالوجی پر کام کررہاہے؟

فاروق کملانی :آئی ٹی کے ساتھ کئی شعبوں میں کام کرنے کا ارادہ ہے،موجودہ صورت حال کے پیش نظر آئی ٹی کو ترجیح دے رہے ہیں۔کراچی میں ہرسال میٹرک میں پونے تین لاکھ ،او لیول میں 40 سے 50 ہزاررجسٹریشن ہوتی ہیں اورانٹرکے امتحان میں پونے دولا کھ بچہ بیٹھتا ہے،تقریبا ً5 لاکھ بچہ امتحان دیتاہے۔ امتحان دینے کے بعد 3 ماہ تک یہ بچے فارغ ہوتے ہیں اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چھٹیوں میں 3ماہ کے کورسز کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جو بنو قابل کے تحت مفت میں ہوں گے۔بااختیار خواتین کے حوالے سے بھی شعبہ قائم کررہے ہیں جس میں وہ خواتین جو گھر وں میں کام کرتی ہیں وہ آن لائن کام کرسکیں گی اور مختلف کورسز کرکے کاروبار کرسکتی ہیں ۔تما م فلاحی اداوں سے درخوا ست کروں گا ان کے پاس میٹر ک یا انٹر پاس بچے ہیں وہ بنو قابل بھیجیں ہم انہیں مارکیٹ کی طلب کے مطابق مفت میں کورسز کرائیں گے۔بنو قابل میں کسی کودفتر آنے کی ضرورت نہیں سارے کام آن لائن ہوتے ہیں ،سلیکشن کے بعد لیب آناہوگا۔ پورٹل پر سلیکشن کے تمام آپشنز موجود ہیں۔ اس فیز میں 50ہزار لوگوں کو شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔

دنیا:تعلیمی سیکٹر میں کہاں او ر کن شعبوں میں کام کررہے ہیں ؟

 مصدق عزیز :29 سال پہلے حب چوکی کے قریب ایک اسکول سے کام کا آغاز کیا،گرین کریسنٹ ٹرسٹ کے تحت 160 سے زائد اسکولوں میں 30ہزار سے زائد بچوں کوتعلیم دے چکے ، فیس 200سے 500 روپے رکھی ہے جو بچہ فیس برداشت نہیں کر سکتا اسے مفت میں پڑھاتے ہیں ۔ ہمارے اسکولوں کا سندھ بورڈ سے الحاق ہے ۔کراچی کے پسماندہ علاقوں میں 100سے زائد اسکول ہیں ۔عام تاثر ہے وڈیرے بچوں کو پڑھانے نہیں دیتے ،ہم نے کراچی کے پسماندہ علاقے اور ا ندرون سندھ اسکول چلانے میں کئی چیزوں کا مشاہدہ کیا،گاؤں گوٹھوں میں وڈیروں اور گھرکے سربراہوں سے جاکر ملاقات کرتے ہیں او ر بچوں کوپڑھانے کی آگہی دیتے ہیں تو حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بچوں کو بھیجتے ہیں۔اسکولوں میں 40فیصد سے زیادہ بچیاں پڑھ رہی ہیں، لوگوں میں یہ خیال بھی ہے کہ وہ بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں،لیکن جب تعلیم ان کے دروازوں پر پہنچ ر ہی ہے تو وہ بھی بچیوں کو پڑھارہے ہیں۔جو این جی اوز تعلیم کے فروغ کیلئے کام کررہی ہیں و ہ سب مل کر ایک پلیٹ فارم سے کام کریں تو تعلیمی سیکٹر کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ گرین کریسنٹ کے زاہد سلیم نے صدر پاکستان اور آرمی چیف سے بھی ملاقا ت کی ہے یہ بات سامنے آئی کہ مسائل سب مل کر حل کریں، پنجاب او ر کے پی کے میں تعلیمی نظام کافی بہتر ہواہے، جس کی وجہ فنڈز کا صحیح استعمال ہونا ہے۔

دنیا: المصطفیٰ ویلفیئر تعلیم کے شعبے میں کیا خدمات انجام دے رہی ہے؟

معین خان : المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی صحت اور تعلیم کے ساتھ کئی شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔صحت کے حوالے پورے کراچی میں اسپتال کا نیٹ ورک ہے،پورے ملک میں اسکول اور کالج میں مستحق طلباء کو تعلیم دے رہے ہیں ۔طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے ایجوکیشن دینے میں مسائل کا سامنا ہوتاہے۔ہر نظام کا فیسیں اور نصاب مختلف ہوتا ہے جس سے مشکلات ہوتی ہیں۔کورنگی میں مصطفیٰ ہوم کے نام سے یتیم خانہ ہے جس میں 250 بچے ہیں جو رہائش کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں ۔انہیں بچوں کیلئے علیحدہ اسکول بنایا ،علاقے کے بھی 800بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اس کے ساتھ لڑکیوں کیلئے الگ خدیجہ گرلز کالج کے نام سے کالج بنایا جہاں بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں،لڑکوں کا کالج زیر تعمیر ہے جو جلد مکمل ہوجائے گا،میٹرک اورانٹر کے بعد ان بچوں کو ہائر ایجوکیشن کیلئے رکاوٹیں آرہی ہیں،یونیورسٹی میں اسکالر شپ آسانی سے نہیں ملتی ،ہمارے پا س بھی فنڈز محدود ہوتے ہیں ، کوشش کررہے ہیں ان کا مسئلہ حل ہوجائے ، تعلیمی سیکٹر میں وسائل نہ ہونے سے کئی مسائل ہیں ،

ہمارے سارے مسائل او روسائل کی بنیا د ہی جہالت ہے،فلاحی ادارے بہت کام کر رہے ہیں ان کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔الخدمت نے بنوقابل پروگرام شروع کرکے بڑا کام کیا ہے ،حکومت کے پاس وسائل کی نہیں اچھے لوگوں کی کمی ہے،اس کمی کو فلاحی ادارے پوری کررہے ہیں ۔ گاؤں دیہات کے اسکولوں میں بھینسوں کے باڑے ہیں تو کہیں گھوڑوں کے اصطبل، سیکڑوں اسکول بند پڑے ہیں ،روٹری کلب کا بھی ممبر ہوں ، روٹری نے 300اسکولز گود لیے ہیں ،جہاں بنیادی سہولتیں فراہم کررہے ہیں،دنیا فورم کے توسط سے حکومت سے کہنا چاہوں گا کہ جو سرکاری اسکولز ویران او ربند ہیں حکومت این جی او زکے ساتھ مل کر ان اسکولوں کی حالت بہتر کرے۔

نثار احمد : عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کسی ایک شعبے کو فوکس نہیں کرتا ،30سال سے کئی شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ادارہ صحت تعلیم او ر بچیوں کی شادیوں میں مدد فراہم کررہا ہے،تعلیمی سال کے آغاز پر والدین کو کورس لینے میں فکر ہوجاتی ہے کہ اتنا مہنگا کیسے لیں گے ،ایک بچے کا 5ہزار تک کا کورس آتاہے،جس کے چار بچے ہیں بڑا بوجھ ہوتا ہے کہ 20ہزار روپے صرف کورس کیلئے چا ہئیں،یونیفارم او ر دیگر خرچے الگ ہیں،سفید پوش افراد ایسے موقعوں پر بہت مشکلات میں ہوتے ہیں۔ان ہی پریشانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ نے گزشتہ کئی سالوں سے یہ بیڑا اٹھارکھا ہے، ہر سال بڑ ے پیمانے پر اسکولوں میں کورسز اور یونی فارم فراہم کررہے ہیں،گزشتہ سال ساڑھے 3 کروڑ روپے فیسوں کی مدد میں ادا کئے ،5 کروڑ 70 لاکھ روپے کورسز کی مد میں فراہم کئے، تعلیم الاقرآن میں بھی خدمات فراہم کررہے ہیں،

کورنگی مہران ٹاؤن میں انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ہے جہاں بچوں کو گرافک ڈیزائننگ،ویب ڈیزائننگ ،نیٹ ورکنگ،سی سی ٹی وی کیمرہ،وڈیو ایڈیٹنگ،ڈیجیٹل مارکیٹنگ ،سی آئی ٹی ڈپلومہ ،فری لانسنگ اور دیگر کورسز کرائے جاتے ہیں۔اسکے علاوہ ٹیکنیکل کورسز پلمبنگ ،الیکٹریشن ،اے سی ٹیکنیشن ، ڈرائیونگ ، خواتین کیلئے بیو ٹیشن ،ّآرٹس اینڈ کرافٹس شامل ہیں،ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے تحت سلائی مشینیں اور کڑھائی کی تربیت دی جاتی ہے،کورس مکمل کرنے والی خواتین کو روزگار کے حصول کیلئے مشینیں اور لیپ ٹاپ بھی دیئے جاتے ہیں،بچوں کو تعلیم کے حوالے سے آگہی بھی دے رہے ہیں۔

 شاہین رحمٰن :سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر کرنے اور گود لینے کے حوالے سے 3سال سے کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر ہوجائے جو نہیں ہورہی ، کراچی کے سرکاری اسکولوں کا سروے کیا کہ کہاں سہولتیں اور تعلیم کی کمی ہے زیادہ تراسکولوں کی حالات اچھی نہیں،شہر کے مشہور علاقے دستگیر میں 5اسکول ویران پڑے ہیں،عزیز آباد کے 8 سرکاری اسکولوں کی حالت اچھی نہیں ہے ہم نے گود لے کر چلانے کی پیشکش کی لیکن ادھر سے ادھر درخواستیں جاتی رہیں اور کام نہیں ہوا۔ انتظامیہ سے بات کرو توکہتے ہیں اس کو بہتر کرنا ہمارے اختیار میں نہیں،ہم نے باقاعدہ وڈیو بنا کرمتعلقہ سرکاری اداروں میں بھجوائی لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوتی ۔خصوصی بچوں کی پریشانیوں کودیکھتے ہوئے اسکول کھولا ،چلابھی رہے ہیں فنڈز نہ ہونے وہ سہولتیں نہیں دے پارہے جو دینی چاہیے فنڈز کیلئے کوشش کررہے ہیں تاکہ یہ کام چلتا رہے،سندھ حکومت میں بیٹھے لو گ سنجیدہ نہیں جس کی وجہ سے اسکولوں کی حالت بہتر نہیں ہورہی او رنہ ہی سرکاری اسکولز گود دیتے ہیں ۔

ڈاکٹر ٹیپو سلطان: ہم نے بھی کوشش کی تھی کچھ سرکاری اسکولوں کو گود لیں جس سے تعلیمی نظام کو بہتر کرسکتے ہیں ،اسوقت انیتا غلام علی حیات تھی انہوں نے فاؤنڈیشن بنائی تھی ان سے بات کی انہوں نے کہا اسکول گود لے لیں لیکن سرکاری اسکولوں میں صرف سہولتیں فراہم کرسکتے ہیں،تدریسی عمل میں کچھ نہیں کرسکتے ،کسی ٹیچر کو نکال نہیں سکتے اپنے اساتذہ الگ سے بھرتی کریں او ر تنخواہ دیں لیکن پہلے سے موجود اساتذہ کو نہیں چھیڑیں گے یہ اپنی مرضی سے آئیں اور جائیں گے،ان سے کہا ہمارا مقصد بچوں کو پڑھانا ہے جب ہم کچھ نہیں کرسکتے تو اچھی تعلیم کیسے دیں گے، انہوں نے کہا فنڈز سے صرف اسکول کی حالت بہتر کردیں۔

معین خان : جس طرح تعلیمی ادارے گودلینے کی اسکیم ہے اسی طرح اسپتال بھی گود لینے کی اسکیم ہے،ایک صاحب نے المصطفیٰ سے رابطہ کیا کہ ایک اسپتال ہے المصطفیٰ اس کو گود لے لے،اسپتال کے ڈائریکٹرسے سارے معاملات طے ہوگئے آخر میں ڈائریکٹر نے کہاکہ ایک ہوٹل میں ملاقات کرلیں ان سے ملنے چلے گئے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ آپ کو 15لاکھ روپے نذرانہ دیناہوگا،جو لوگ فلاحی اداروں کو بھی نہیں چھوڑتے وہ ملک کا کیا حال کریں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔