مہنگائی سے عوام بے حال،حکمران بے حس

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :محمد جمیل لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء: اشعرگرامی ،ڈائریکٹرسرکل سوشل ویلفیئرفائونڈیشن جنرل منیجر عبیدہاشمی۔ سلیمان خواجہ ، وائس چیئرمین مارکیٹ کمیٹی کراچی،حکومت سندھ۔رائو محمد افضال،صدرشاپ کیپرز اینڈ پولٹری ایسوسی ایشن سندھ ۔عبدالرئوف،چیئرمین ہول سیلر ایسوسی ایشن جوڑیا بازار کراچی ۔ محمود حامد،صدرآل پاکستان آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹری کراچی شہزاد مظہر ،نو منتخب یوسی چیئرمین وصدرنیشنل کنزیومرموومنٹ سندھ ۔

منڈی میں قیمتیں کم ہیں،عوام فہرست دیکھ کر پیسے دیں:  سلیمان خواجہ

پنجاب کی طرح کراچی میں بھی مرغی کی منڈی لگائی جائے:  رائو افضال

آٹے ، چینی اور چاول کی قیمتیں منجمد کی جائیں:  عبدالرئوف 

ریاست عوام کو بنیادی اشیاء کی فراہمی میں ناکام ہوگئی:  محمود حامد 

سستے بازار مسئلے کا حل نہیں،صرف فوٹو سیشن ہیں:  شہزاد مظہر

عوام سیاسی پارٹیوں سے بنیادی حقوق کا مطالبہ کریں:  اشعرگرامی

ہم مجموعی طورپر معاشی ،اخلاقی اور ذہنی طورپر مفلوج ہوچکے :  عبید ہاشمی

 

موضوع: ’’مہنگائی ۔۔رمضان اور عید ‘‘ 

 

 

 مہنگائی !عوام کی دہائیاں،چیخیں اور آنسو نکال رہی ہے ،درمیانے درجے کا طبقہ تو تقریباً ختم ہی ہوگیا،وہ جو گزشتہ سال تک دیتے تھے ان میں سے کئی آج مانگنے پر مجبور ہوچکے ،صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی لیکن حکومت ہو یا اپوزیشن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی،اقتدار کی جنگ نے سب کوبے حس کردیا ہے،رہ گئے عوام تو وہ بے چارے جھوٹے اور دلفریب نعروں وعدوں سے ہی تسلی کرلیتے ہیں۔ہم نے اس مسئلے پر کراچی کی بڑی مارکیٹوں کے ذمہ داران کو بلایا اور دنیا فورم میں سوالا ت اٹھائے،سرکل سوشل ویلفیئر فائونڈیشن نے گلشن اقبال بلاک فائیو میں اپنے دفتر میں دنیا فورم کو سہولت فراہم کی۔دنیا فورم میں شرکاء نے مہنگائی کا ذمہ دار ریگولیٹرز،سیاسی اشرافیہ اور مافیا کو قرار دیا۔اندرون سندھ وڈیرے اور زمیندار بھی الزام کی زد میں آئے۔

حکومت کی بے توجہی اور دیگر اہم مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی لیکن مجھے ان سب سے زیادہ یہ بات زیادہ قریب تر لگی کہ عوام اپنے حقوق کیلئے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔وہ سیاسی نعروں پر تو جانیں دے دیتے ہیں لیکن اپنی جان کیلئے زرا سے تھکاوٹ کیلئے بھی تیار نہیں۔دنیا فورم میں شرکاء نے کہا کہ عوام قیمتوں کی فہرست دیکھا کریں ،اگر فہرست کے مطابق اشیاء نہیں مل رہی تو متعلقہ اداروں کو فون کریں،بحث کریں قیمت کم ہوجائے گی۔اہم بات یہ بھی تھی کہ سرکاری افسران مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں تو نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کو ہی مجسٹریٹ کے اختیارات دے کر مہنگائی کنٹرول کی جائے۔مہنگائی کا ایک ذمہ دار آڑھتی کو بھی قراردیاگیا جبکہ پنجاب اور سندھ سے کراچی تک پہنچنے والی اشیاء کے درمیان آنے والی مختلف پولیس چیک پوسٹوں نے بھی قیمتیں بڑھادیں ہیں کیونکہ انہیں بھی تو ’’خوش‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ بڑے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے کارخانے بھی مہنگائی کی وجہ ہے۔پورا نظام ہی کرپٹ ہوچکا،اور اس نظام کو عوام ہی بدل سکتے ہیں۔شکریہ

مصطفیٰ حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم ،دنیا اخبار کراچی

برائے رابطہ 

0092-3444473215،0092-3212699629

ای میل:  mustafa.habib@dunya.com.pk

سبزی منڈی میں پھل ،سبزی ،انڈے کی قیمتیں کنٹرول کرنے کیلئے کمیٹی بنائی گئی او ر جگہ بھی دی گئی کچھ دن کمیٹی ممبران آئے پھر آنا چھوڑدیا کہ صارفین نہیں آتے ہیں ،وائس چیئرمین مارکیٹ کمیٹی کراچی

 ہول سیل اور ریٹیل نے قیمتوں میں 5سے 6 فیصد اضافہ کردیا،ہر دکاندار اپنی مرضی سے چیزیں فروخت کرہا ہے ،مافیا نظام میں گھس گئے اور بدقسمتی سے حصہ بن گئے ،چیئرمین ہول سیلر ایسوسی ایشن جوڑیا بازار کراچی

قیمتیں کنٹرول کرنے کیلئے بلدیاتی منتخب نمائندوں کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے جائیں،عوام مہنگی اور غیرمعیاری اشیا ء کے خلاف درخواست صارفین عدالت میں دیں، صدرنیشنل کنزیومرموومنٹ سندھ

 پاکستان واقعی’’ آزاد‘‘ ملک ہے ،یہاں سب کو سب کچھ کرنے کی آزادی ہے،پنکھے کا ریگولیٹر خراب ہوجائے تو پنکھا آزاد ہوجاتاہے، کنٹرول ختم ہوجاتاہے ،ملک کا بھی یہی حال ہوگیا ہے،منیجر سرکل سوشل ویلفیئر فائونڈیشن

سیاستدانوں اورحکمرانوں کے کارخانوں اور ملوں کی وجہ سے آٹے اور چینی کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔یہ کسانوں پر ظلم کر کے کم قیمت پر گنا لیتے ا ور چینی مہنگی بیچتے ہیں،صدرآل پاکستان آرگنائزیشن کاٹیج انڈسٹری کراچی

  جنہیں مہنگائی کنٹرول کرنی ہے وہی چور ہوگئے ، جو ممالک ترقی کررہے ہیں وہاں ریگولیٹر شامل نہیں ہوتے،ہمیں اپنی قوم سے مخلص ہونا پڑے گا،سچ بولنا اور عملی کام کرنا ہوگا،ڈائریکٹر سرکل سوشل ویلفیئر فائونڈیشن

 زیادہ ترمرغی کے فارمرز باہر کے ہیں ، اہم دن یا تہوار پراپنی مرضی سے مرغی کم کر کے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ، ٹیکس بڑھنے سے فیڈ کی اشیاء  رو کنے سے بھی قیمتیں بڑھیں،صدرشاپ کیپرز اینڈ پولٹری ایسوسی ایشن سندھ

 دنیا: منڈی اور مارکیٹ کی قیمتوں میں بہت فرق ہوتا ہے کیا وجہ ہے؟

 سلیمان خواجہ : بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے سبزیاں تباہ ہوگئیں اور ہمیں درآمد بڑھانی پڑی جس سے سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا لیکن اب منڈی میں سبزیوں کی قیمتیں بازار کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔حکومت کا بیورو آف سپلائی کاادارہ کمشنر کراچی کے ماتحت ہے وہ قیمت منجمد کرتے ہیں۔ کمشنر کراچی سبزی منڈی آئے تھے ان سے ملاقات میں پیشکش کی تھی کہ کمشنر آفس کے نمائندے آئیں او ر سامنے نیلامی کرائیں ۔یہاں اپنے مطابق بولی لگائی جاتی ہے جس سے قیمتیں کنٹرول نہیں ہو تیں بڑھ جا تی ہیں۔دنیا فورم کے توسط سے عوام سے درخواست کرو ں گا کہ قیمتیں چیک کرکے پیسے دیں ۔روزانہ پھل او ر سبزیوں کی ریٹ لسٹ جاری ہوتی ہے ،لوگ سوشل میڈیا پر بھی ریٹ لسٹ شیئر کرتے ہیں۔ عوام ٹھیلے اور دکانداروں سے سوال کیوں نہیں کرتے۔ دکاندار یا ٹھیلے والے کو فہرست دکھانے پرمجبور کریں،فلاحی ادارے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے شہر بھرمیں بچت بازار لگائیں ہم بازارو ں میں مناسب ریٹ پر سبزیاں فراہم کرینگے اس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔

دنیا: مرغی کی قیمت بھی بہت بڑھ گئی ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟

رائومحمد افضال :بارشوں کی وجہ سے ہر سیکٹر میں چیزیں متاثرہوئی ہیں ۔کئی مرغی کے فارم بھی بہہ گئے،مرغی تیار ہونے میں وقت لگتا ہے ،خام مال کی قیمت بڑھنے اور بارشوں کی وجہ سے مرغی کی قیمتیں بڑھیں ۔مرغی کی قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ریٹ کے حوالے سے کمشنر صاحب سے ملاقات ہوتی رہتی ہے ۔کچھ ماہ پہلے ٹیکس بڑھنے سے مرغی کی فیڈ بنانے والی اشیاء روکی گئیں ۔فیڈکی بوری پہلے ڈھائی ہزار سے 4ہزارمیں آتی تھی اب 8ہزار تک ہوگئی ہے جس سے قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ، کمشنر صاحب سے ملاقات کے بعد قیمتوں میں کمی ہوئی۔رمضان سے پہلے کمشنر سے میٹنگ میں طے ہوگیاتھاکہ ہمارا فائدہ 10فیصد کے بجائے 6 فیصد کردیا جائے اس پر عمل بھی ہورہاہے ۔ہر ضلع کے بچت بازاروں میں اسی نرخ پر اسٹال بھی لگا ئے جارہے ہیں۔سرکاری قیمت سے 20فیصد کم پر فروخت کررہے ہیں ،کراچی کی آبادی بہت زیادہ ہے۔

جس طرح سبزی منڈی کا نظام بنا ہواہے ایسا نظام مرغی کیلئے نہیں ہے،جو لوگ مرغی فراہم کرتے ہیں ان ہی کی دی گئی قیمت پر عمل کرناپڑتاہے۔پنجاب میں منڈی نظام کے تحت مرغی فروخت ہوتی ہے یہاں کے مقابلے میں قیمتیں بھی کم ہوتی ہیں۔پنجاب سے مرغی سستی آتی ہے لیکن درمیان میں مڈل مین سے دکانداوں تک پہنچتے ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔کمشنر سے درخواست کی ہے جس طرح منڈی میں ایک نظام کے تحت کام ہوتاہے اسی طرح مرغی کی حوالے سے بھی منڈی قائم کی جائے اور اوپن مارکیٹ بنائی جائے اس سے قیمتوں میں کمی آئے گی عوام اوردکاندار دونوں کو فا ئدہ ہوگا۔مرغی کی قیمتوں میں زیادہ کمی بیشی نہیں ہوتی ،ایسا نہیں لوگ عید الاضحی پر مرغی کا گوشت نہیں کھاتے ۔گزشتہ سال بقر عید پر بھی مرغی کی قیمت زیادہ تھی ۔

 سلیمان خواجہ :سبزی منڈی میں پھل ،سبزی ،انڈے اور دیگر چیزوں کے لیے باقاعدہ کمیٹی بنائی گئی او ر جگہ بھی دی گئی تھی کچھ دن تک کمیٹی ممبران آئے پھر آنا چھوڑدیا کہ صارفین نہیں آتے ہیں وہ سلسلہ رکا ہواہے۔

رائومحمد افضال: کمیٹی کو چندلوگوں تک محدود رکھا گیا حکومتی سطح پر باقاعدہ مانیٹر نہیں کیا گیا اور نہ ہی لوگوں کو آگہی دی گئی ۔میڈیا پر بھی تشہیر نہیں کی گئی۔ پریس کلب اور متعلقہ اداروں کے سامنے احتجاج کیا تھا،سیکریٹری صاحب کو خط بھی لکھا ہے کہ ہمیں منڈی میں باقاعدہ جگہ دی جائے۔زیادہ ترمرغی کے فارمرز باہر کے ہیں مقامی بہت کم ہیں ،جب بھی کوئی اہم دن یا تہوار آتا ہے یہ اپنی مرضی سے مرغی کم کردیتے ہیں اور ریٹ بڑھا دیتے ہیں ۔ 

دنیا: جوڑیا بازار او ر عام بازاروں کی قیمتوں میں بہت فرق ہوتاہے کیا وجہ ہے؟

عبدالرئوف : جوڑیا بازار ایشیاء کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔پاکستان کی 80 فیصد درآمد کراچی سے ہوتی ہے۔ملک کاالمیہ ہے یہاں قیمتیں کنٹرول کرنے والی کوئی اتھارٹی نہیں ۔ہر شخص اپنی مرضی سے چیزیں مہنگی کررہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کس قانون او راتھارٹی کے تحت چیزیں مہنگی ہورہی ہیں۔ ملک میں کمشنر،ڈی سی ،وزیراعلیٰ یا وزیراعظم ہیں جو اس مسئلے پر بات کر یں اور اندھیر نگری چوپٹ راج والے نظام کو روکیں۔یہاں مافیاکاراج ہے جسے روکنے والا کوئی نہیں۔ غریب کی تنخواہ 25سے 30ہزار وپے ہے وہ کیسے گزارہ کرے گا۔شہر میں گیس نہیں ہے،20روپے کی روٹی مل رہی ہے،ایک گھر میں 5افراد ہیں تین مرتبہ کھانے میں 30روٹی استعما ل ہوتی ہیں روزانہ 600 روپے کی صرف روٹی آئے گی ،مہینے کے 18 ہزار روپے ہوگئے ،اس میں سالن ،بجلی ،پانی ، گیس ،بچوں کی اسکول فیس اور دیگر ضروریات شامل نہیں یہ سب چیزیں پورے ماہ کیا باقی 12ہزار میں پورے ہوجائیں گے۔ کرائے کامکان ہے تو بارہ ہزار بھی گئے۔ غریب کیسے گزارہ کرے۔غریب تو جیتے جی مرگیا۔وہ دکھ تکلیف اور بیماری میں علاج بھی نہیں کراسکتااو رنہ بچوں کو پڑھا سکتا ہے۔

دال چینی اور ضروری اشیاء بھی لگژری بن گئی ہیں۔بدقسمتی سے آٹے پر بھی سٹہ کھیلا جاتا ہے، ملک میں آٹے ، چینی اور چاول کی قیمتیں منجمند کیوں نہیں کی جاتیں ۔ان کے اسٹاک لگے ہوئے ہیں حکومت ان گوداموں پر چھاپے کیوں نہیں مارتی۔دال ،چینی او ر دیگر اجناس کی قیمتوں کے ریٹ کمشنر کراچی نے فکسڈ کیے ہیں۔ہول سیل اور ریٹیل والوں نے 5سے 6فیصد اضافہ کردیا۔ہر دکاندار اپنی مرضی سے چیزیں فروخت کررہا ہے ،کھلا تیل 300اور برانڈڈ 600 روپے لیٹر فروخت ہورہاہے یہ چیزیں کنٹرول کیوں نہیں ہو تیں۔مافیا ہمارے نظام میں گھس گئے جوبدقسمتی سے نظام کا حصہ بن گئے ۔ ملک میں چیک اینڈ بیلنس نہیں ۔حکومت کو جہاں کردار ادا کرنا چاہیے وہاں نہیں کرتی۔سستے بازاروں کے نام پر قو م سے مذاق ہورہاہے۔اندورن سندھ زمینداروں اور وڈیروں کا نظام بھی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ہے جو نظام صحیح نہیں ہونے دیتا۔عمران خان کے دور حکومت میں چینی کے سٹے پر کافی ریسرچ کی ،ایک سال میں چینی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔وہی غلطیاں پھر دہرائی جارہی ہیں،یہ لوگ ملک کو اور نیچے لے جارہے ہیں ۔

دنیا : مہنگائی کنٹرو ل کیوں نہیں ہورہی؟

محمود حامد : اس سے زیادہ ملک کی بدقسمتی کیا ہوگی جہاں آٹا قطار لگا کر لیاجائے اور رش کی وجہ سے 11غریب جاں بحق ہوجائیں ۔ذکوٰۃ لینے والے قطار میں مارے جارہے ہوں۔ذکوٰۃ دینے والے گرفتار ہوجائیں ،ہمارا نظام تباہ ہوگیا۔عوام کو آٹا اور بنیادی ضرویہ اشیاء فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جو ناکام ہوچکی ۔چینی 98 سے 110 ہوگئی ہے۔چینی کی قیمت کبھی کنٹرول نہیں ہوسکتی جس کی وجہ سندھ اور پنجاب میں بڑے سیاستدانوں اورحکمرانوں کے کارخانے اور ملیں ہیں ان ہی لوگوں کی وجہ سے آٹے اور چینی کی قیمتیں کم نہیں ہورہی ہیں۔یہ لوگ ہاریوں پر بھی ظلم کرتے ہیں ان سے کم قیمت پر گننا لیتے ہیں ا ور چینی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔چنے کی ہول سیل قیمت 190روپے کلو ہے جبکہ بھنا ہوا چنا مارکیٹ میں 700سے 800روپے کلومیں فروخت ہو رہا ہے، عوام قیمتوں کی فہرست چیک کریں۔ شہر میں کئی پیٹرول پمپوں پر پیٹرول کم ڈالا جارہا ہوتا ہے۔ ہر جگہ غریب عوام پر ظلم ہورہا ہے،لگتا ہے شہر میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ادارے چیک کیوں نہیں کرتے ۔اداروں کوفعال او ر چیزوں کو کنٹرو ل کرنے کیلئے عوام کو سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ 

دنیا: صارفین تنظیمیں عوام کو حقوق اور آگہی کیلئے کیاکررہی ہیں؟

شہزاد مظہر : نیشنل کنزیومر موومنٹ سندھ صارفین کے حقوق کیلئے کام کررہی ہے ۔ شہر میں چیزوں کو کنٹرول کرنے کیلئے بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کیا۔اللہ کا شکر اس سے فرق پڑا عوام نے ساتھ دیا اور کچھ چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔سندھ حکومت دعوؤں کے باوجودمہنگائی سمیت روزمرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں کوکنٹرول میں ناکام ہوگئی۔ کمشنری نظام منافع خوروں کے سامنے بے بس ہے۔ عملی طورسرکاری قیمتوں کے بجائے کئی گنازیادہ قیمتیں وصول کی جارہی ہیں۔ حکومت گراں فروشوں کے خاتمے، قیمتوں کے کنٹرول کرنے اورناجائزمنافع خوروں کے خلاف کارروائی کرکے عوام کو ریلیف دے۔ لوگ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں ہر ہفتے ایک واقعہ سامنے آرہا ہے۔اندرون سندھ تو بد ترین حالت ہے۔ وڈیرہ شاہی نے غریبوں کی زندگی عذاب بنادی ہے۔اندرون سندھ اجتماعی خود کشیوں کے واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں ۔اس حوالے سے پریس کلب پرمظاہر ہ بھی کیا تھا،سستے بازار لگانا حل نہیں جب تک نظام بہتر نہیں ہوگا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ہماری تنظیم صارفین کو حقوق کیلئے آگہی دے رہی ہے۔کنزیومر عدالتیں بھی عوام کے مقدمات سن رہی ہیں۔صارفین کے حقوق کی بات وہاں ہوتی جہاں حکومت مستحکم ہو۔

دنیا: صارفین کے حالات کیسے تبدیل ہونگے ؟

 شہزاد مظہر : مہنگائی کے خاتمے کیلئے حکومتی اقدامات تماشہ ہے، حکومت کی جانب سے سستے بازاروں میں فوٹو سیشن کے علاوہ غریب عوام کیلئے کچھ نہیں ہے۔ 

مہنگائی کنٹرول کرنے کی ساری ذمہ داری کمشنر کراچی کے گرد گھومتی ہے۔کمشنر نے حکومتی انجمنیں اپنے ارد گرد رکھی ہوئی ہیں جب بھی اجلاس ہوتے ہیں انہی لوگوں کو بلایا جاتاہے۔ ایجنڈے پہلے سے طے ہوتے ہیں کہ دودھ کی اور دیگر چیزوں کی قیمت کیا رکھنی ہیں ۔عوام کو صرف بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ فلاحی تنظیموں کی خدمات لائق تحسین اور حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ پیداواری سطح سے منڈی و مارکٹ تک اشیائے صرف کی ترسیل پر حکومت نے آڑھتی کی شکل میں بھتہ خوروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ رمضان میں دودھ کی کھپت میں واضح کمی کے باوجود دودھ من مانی قیمتوں پر فروخت ہورہا ہے ۔ مرغی و بھینس کا غیرمعیاری گوشت بھی من مانی قیمتوں پر بیچا جارہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

فورم کے توسط سے حکومت سے مطالبہ ہے کہ قیمتوں کو قابو کرنے کیلئے بلدیاتی منتخب نمائندوں کو مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے جائیں۔ ہر ضلع میں قائم کنزیومر کورٹس کا کردار فعال اور عوام میں روشناس کرایاجائے۔کنزیومر عدالتوں میں کیسز داخل کرنے کا بہت آسان طریقہ ہے،جس بھی دکان یا اسٹور میں چیزیں مہنگی اور غیرمعیاری اشیا ء فروخت ہورہی ہوں اس کے خلاف درخواست صارفین عدالت میں جمع کرادیں ،عدالت فوری کارروائی کرتی ہے ۔

 عبدالرؤف :بڑے سپر مارکیٹ میں تین تین کروڑ روپے کی فروخت ہوتی ہیں جہاں قیمتیں مارکیٹ کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں کیا ان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں؟ہمارا نظام صرف غریبوں کو پریشان کرنے کیلئے ہے ۔سیلاب اور بارشوں کی صورت حال میں اندرون سندھ گئے وہاں بچیوں کے پاس پہننے کو صحیح کپڑے بھی نہیں تھے ،لوگ کھانے پینے کو ترس رہے تھے ۔ان کو مزدوری میں 100 روپے اور اناج دیا جاتاہے،اندرون سندھ وڈیرہ شاہی نظا م کبھی غریبوں کو سر اٹھانے نہیں دیتا۔

 دنیا : معاشرے سے اخلاقی اقدار کہاں چلے گئے ؟ نظام کیسے بہتر ہوگا؟

اشعر گرامی :ریگولیٹری اتھارٹی مسائل حل ہونے میں کاوٹ ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں ان معاملات میں ریگولیٹر اتھارٹی شامل نہیں ہوتی۔ہمیں ایک نکتہ ایجنڈے پر کام کرنا ہو گا۔مہنگائی کنٹرول نہ ہونے میں بنیادی کردار ریگولیٹری باڈی کی دخل اندازی ہے۔دنیا کے کئی ممالک میں جانے کا موقع ملا۔وہاں لوگ ایک نظام کے تحت کام کررہے ہوتے ہیں۔جو ممالک ترقی کررہے ہیں ان میں ریگولیٹر شامل نہیں ہوتے۔ پوری دنیا میں سعودی عرب ریاض میں 2002 ء میں سب سے زیادہ حادثات کی شرح تھی ان لوگوں نے سگنل اور دیگر مقامات پر کیمرے نصب کردیئے اور عوام کو پیغام دینا شروع کردیا کہ ٹھیک ہوجائیں ورنہ جرمانہ لگائیں گے شروع میں جرمانہ نہیں لگا لیکن آگہی اور خوف بٹھاتے رہے ۔ سگنل توڑنے پر پہلا جرمانہ 500 ریال کا لگایا ۔آج سعودی عرب میں سگنل توڑنے پر 5ہزار ریال جرمانہ ہے۔ان کے ریگولیٹر ایماندار تھے ان کو معلوم تھا کہ اس قوم کوکیسے سدھارنا ہے۔انہوں نے عمل کیا آج سعودی عرب کی ترقی اور نظام دنیا کے سامنے ہے۔ہمارے ریگولیٹر چور ہوگئے ہیں ۔

ہمیں سب پارٹیوں کو ایک طرف کرکے مل کر کام کرنا ہوگا۔ہم کسی بھی پارٹی میں ہوں یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ عوام کو پانی، بجلی، گیس اور دیگر سہولتیں فراہم کرنا ہے ہمیں قوم سے مخلص ہونا پڑے گا تب ہی مسائل حل ہوں گے۔ہمارے سینٹر میں ایک خاتون کورس کرنے آتی ہیں۔بہت پریشان لگ رہی تھی میری بیوی نے ان سے پریشانی کی وجہ معلوم کی انہوں نے کہا کہ میرے 3بچے ہیں دو اسکول جاتے ہیں ایک گھر پرہے ۔شوہر کی 60ہزار تنخواہ ہے۔18ہزار روپے گھر کا کرایہ ہے۔اسکول کی فیس اور ٹرانسپور ٹ کا کرایہ دینے کے بعد 17ہزار بچتے ہیں۔دور علاقے سے کورس کرنے آتی ہوں کہ آئی ٹی کا کورس کرکے ملازمت کرلوں گی تاکہ اخراجات کنٹرول ہوجائیں۔ ہمارا ملک اور شہر ایسے واقعات سے بھر ا ہواہے ۔معاشرے کی مدد اور بہتر کرنے کیلئے سب کو مل کر اور اپنے حصے کا کام کرنا ہوگاتب ہی حالات بہتر ہوں گے۔

عبدالرؤف : مہنگائی اور معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے 30فیصدلوگوں نے اپنے بچوں کو اسکول سے ہٹا دیا ہے۔بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرادیا یا گھر پر بٹھادیا۔ 60 ہزار کمانے والے کا یہ حال جو 25یا 30ہزار کمارہا ہے اس کا کیا حال ہوگا۔

دنیا: معاشی حالات بہتر کرنے کیلئے عوام کی کس طرح رہنمائی کریں؟

 عبید ہاشمی : یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرلینی چاہیے کہ ہے پاکستان’’ آزاد‘‘ ملک ہے ،یہاں ہر کسی کو ہر کچھ کرنے کی آزادی ہے۔پاکستان میں جتنی آرگنائزیشن ہیں اتنی دنیا بھرمیں نہیں ہوں گی۔پنکھے کا ریگولیٹر خراب ہوجائے تو پنکھا آزاد ہوجاتاہے۔اس پر کنٹرول ختم ہو جاتاہے اپنی مرضی سے ایک ہی اسپیڈ سے چلتا ہے ۔ ملک کا بھی یہی حال ہے کہیں بھی ریگولیٹر اتھارٹی کام نہیں کررہی۔جتنی بھی آرگنائزیشن بنالیں کچھ نہیں ہوگا۔تعلیم سے لے کر بچوں کی مشقت تک کوئی ریگولیٹری باڈی کام نہیں کر رہی۔ میٹرک اور انٹر کے امتحان میں ایک لاکھ بچوں کو مختلف سینٹر ز میں گھماتے ہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ بچوں کو اسی اسکول میں رہنے دیں اور اساتذہ جو بچوں سے تعدا د میں کم ہوتے ہیں انہیں سینٹرز میں بھیجیں ۔بچوں کو دور دراز علاقے کے سینٹرز میں جانے میں کئی پریشانیوں کا سامناہوتا ہے ان کے ساتھ والدین بھی پریشان ہوتے ہیں ۔المیہ ہے ہم یہ نظام بھی تبدیل نہیں کرسکتے ۔

ہمار ا تعلیمی بورڈ بچے کو امتحان سے زیادہ دیگر چیزوں کی پریشانی مسلط کردیتاہے۔آفرین ہے ان بچوں پر جو سب پریشانیوں کے باوجود بھی اچھی پوزیشن لے لیتے ہیں۔سوچنے کا مقام ہے ہم اپنے مستقبل کے معماروں کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ معیشت جہاں کنٹرول ہوتی ہے وہ ریگولیٹر کہاں ہیں۔ہمارا سیاسی معاشرہ اتنا مضبو ط ہوگیا ہے عوام ان کے سامنے بے بس ہیں۔پاکستان میں کبھی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملے۔ اگر ملتے تو کبھی لیاری سے پیپلز پارٹی اور پنجاب سے ن لیگ نہ جیتی ۔حالات بہتر کرنے کیلئے ہمیں ریگولیٹرز کا گریبان پکڑنا چاہیے۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے جاؤ توپہلے سے ووٹ ڈل جاتے ہیں۔شہر میں سب کچھ ہوتاہے۔80 فیصد ٹھیلوں اور دکانوں پر وزن کے بٹوں کے بجائے پتھر رکھے ہوتے ہیں چیزیں کیسے صحیح ہونگی۔ہم مجموعی طورپر معاشی ،اخلاقی اور ذہنی طورپر مفلوج ہوچکے ہیں۔

شہزاد مظہر: اسلام میں ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کو کنٹرول کرنے کی تعلیمات دی گئی ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے سرکاری گوداموں میں پہلے سے سامان اسٹاک نظر آئے گا۔دالوں اور چاول میں مٹی ڈال کر وزن بڑھایاجارہاہے۔یہ ہم کیا کررہے ہیں۔ہماری حکومت خود ان چیزوں میں ملوث ہے وہ ذمہ داروں کے خلاف کیسے کارروائی کرے گی۔

سلیمان خواجہ : پنجاب میں آلو کی پیداوار 48لاکھ ٹن تک ہوئی ہے،ہم نے کئی مرتبہ حکومت سندھ اور متعلقہ اداوں کو یونین او ر مارکیٹ کمیٹی کی طرف سے 

 خطوط لکھیں ہیں کہ کراچی سبزی منڈی میں سبزیوں کو اسٹور کرنے کیلئے کولڈ اسٹو ربنادیئے جائیں تاکہ زیادہ پیداوار کی صورت میں سبزیوں کو اسٹور کرسکیں ۔پنجاب میں ایک سسٹم کیمطابق چھوٹے زمیندار بوریاں جمع کرلیتے ہیں۔ پنجاب کی مافیا بعدمیں ان بوریوں کو سندھ میں مہنگے داموں بھیجتی ہے۔اگر ہمارے پاس کولڈ اسٹور ہوں تو سیز ن میں جمع کرلے اور سستی قیمت میں فروخت کرسکتے ہیں۔

دنیافورم میں شرکاء کے ساتھ سماجی کارکن اور عوام نے بھی شرکت کی ۔عابد سہگل نے حضرت عثمان غنی ؓ کی سخاوت کا واقعہ سنایا کہ حضرت عثمان ؓنے قحط کے زمانے میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں وقف کردیا تھا۔میں نے آج تک کسی تاجر کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ کہ رمضان میں 5 روپے کلو کم پر چیز فروخت کی ہو۔ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن معاشرے میں بہتری کیلئے اپنا حصہ نہیں ڈالتے ہیں۔دیگر ممالک میں مذہبی تہواروں پر رعایتی داموں پر چیزیں فروخت اور تحائف دیئے جاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں رمضان میں چیزوں کے دام بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ہم صرف دوسروں پر تنقید کرتے ہیں لیکن خودکو بہتر نہیں کرتے۔لانڈھی میں ایک شخص مہنگائی کی وجہ سے دودھ سستا فروخت کررہا تھا اس کو حکومتی ارکان نے مارا اورسستا فروخت کرنے پرجرمانہ لگادیا۔

ارشد شیخ نے کہا کہ ہماری قوم آٹے اور دالوں میں پھنسی ہوئی ہے وہ کیا کردار ادا کرے گی ۔ عوام مہنگائی سے اتنی پریشان ہے وہ مظاہرو ں کی طرف بھی نہیں دیکھ پاتے۔عوام کو اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کی بھی فرصت نہیں ہے، لانڈھی جو دودھ والے کے ساتھ ہوا سوشل میڈیا کے ذریعے سب کو معلوم ہوا لیکن وہ شخص ہرسال سستا دودھ فروخت کرتاہے اسکے خلاف کارروائی کرنے پر کوئی اسکے ساتھ کھڑا نہیں ہوا ،ہمارا معاشرہ بے حس ہوچکا ہے ۔

 سرکل سوشل ویلفیئر فاؤنڈیشن 

 اشعر گرامی نے بتایا کہ سرکل سوشل ویلفیئر فائونڈیشن انسانی وسائل اور ترقی پر کام کررہاہے۔ملک میں سرکاری اسکولوں کے بچوں کو آگے بڑھنے کیلئے آگہی نہیں دی جاتی اور نہ ہی رہنمائی کی جاتی ہے جبکہ اچھے اور بڑے اسکولوں میں بچوں کو سب کچھ بتایا جاتاہے ۔دنیا بھرمیں ٹیکنالوجی کا طوفان آرہا ہے،ہزاروں اسامیاں خطرے میں ہیں لیکن ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہو کیا رہاہے،کوشش کررہے نچلے طبقے کو آگہی دیں کہ آنے والے سالوں میں کس طرح سے ٹیکنالوجی کے ساتھ چلتے ہوئے مقابلہ کرناہے۔بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے پیش نظرطلباء کومفت  میں جدید کورسز اور ریسرچ بھی کرارہے ہیں۔300 طلباء روزانہ مختلف شفٹو ں میں آتے ہیں ۔کورسز شروع ہونے کے بعد چند ہفتوں میں روزگارکے مواقع بھی ملتے ہیں۔

کئی نوجوان اپنی فیلڈمیں کامیابی سے پیسہ بھی کمارہے ہیں ،کورسز کے ساتھ قرآن و حدیث کی روشنی میں مختلف کورسز بھی کرائے جارہے ہیں جس میں اسلام اور اخلاقیات کی آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ سینٹرمیں مدرسہ بھی قائم کیا جس میں کچی آبادیوں کے بچے آتے ہیں انہیں صاف ستھرے ماحول میں تعلیم و تربیت دے رہے ہیں ۔والدین کے ساتھ باقاعدہ ملاقات کرتے رہتے ہیں ، ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں عوام میں شعور بیدار کرناچاہتے ہیں تاکہ وہ اچھے شہری بنیں۔مقصد ہے سینٹر 24گھنٹے چلے  جس کے پاس جتنا وقت ہے وہ آئے اور سیکھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔