امریکی مصنوعات پر ٹیرف 125 فیصد کر دیا ، مزید نمبر گیم کا حصہ نہیں بنیں گے : چین

بیجنگ ،واشنگٹن (اے ایف پی)امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بے لگام تجارتی جنگ کے جواب میں چین نے امریکا سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح کو 125 فیصد تک پہنچا دیا ۔
چین کے کسٹمز ٹیرف کمیشن نے تصدیق کی ہے کہ ٹیکس میں مزید اضافہ امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر محصولات کو 145 فیصد تک بڑھانے کے جواب میں کیا گیا ۔ اس سے قبل چین نے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک محصولات عائد کئے تھے ۔ٹیرف کمیشن کا کہنا ہے کہ امریکی مصنوعات نے چینی منڈی میں اپنی مسابقت کھو دی ہے ، واشنگٹن کی جانب سے محصولات بڑھانے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ عالمی معاشی تاریخ کا ایک مذاق بن جائے گا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے جمعہ کو ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز سے ملاقات کے دوران یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ یکطرفہ امریکی غنڈہ گردی کے خلاف مزاحمت کے لیے بیجنگ کے ساتھ ہاتھ ملائے ۔ مشترکہ طور پر مزاحمت کرنی چاہیے ۔70 سال سے زائد عرصے سے چین کی ترقی کا انحصار کسی کے تحفے کے بجائے ہمیشہ خود انحصاری اور سخت محنت پر رہا ہے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بیرونی ماحول کیسے تبدیل ہوتا ہے ؟ ، چین خود اعتمادی کو مضبوط کرے گا ، اپنے عزم کو برقرار رکھے گا اور اپنے معاملات کو اچھی طرح سے چلانے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ چینی وزارت تجارت نے کہا ہے کہ مزیدنمبر گیم کا حصہ نہیں بنیں گے ،امریکی ٹیرف بنیادی معاشی اصولوں کے خلاف ہیں، امریکا کی جانب سے ٹیر ف میں مزید اضافے کو نظر انداز کریں گے کیونکہ امریکی اشیا درآمد کنندگان کیلئے مزید اقتصادی وقعت نہیں رکھتیں۔دوسری جانب امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے چین کو عالمی تجارت میں سب سے بڑا قصوروار قرار دیا اور پیشگوئی کی کہ چین کا ردعمل خود اسی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔علاوہ ازیں چین کی جانب سے امریکی محصولات پر جوابی وار کرنے کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت کم ہو گئی جبکہ سونا بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ڈوئچے بینک کے مینیجنگ ڈائریکٹر جم ریڈ نے کہا کہ مارکیٹ کے نئے دباؤ کا اصل محرک امریکاچین میں ٹیرف اضافہ پر توجہ مرکوز کرنا تھا،نہ تو امریکا اور نہ ہی چین کے پیچھے ہٹنے کے آثار دکھا رہے ہیں، جم ریڈ نے کہا کہ ڈالر تین سال سے زائد عرصے میں یورو کے مقابلے میں کم ترین سطح پر گر گیا کیونکہ سرمایہ کار فرار ہو گئے ۔ادھر ٹوکیو سٹاک مارکیٹ میں تین فیصد کمی ہوئی جبکہ سڈنی، سیول، سنگاپور، ویلنگٹن اور بنکاک میں بھی مندی کا رجحان رہا تاہم ہانگ کانگ اور شنگھائی کی سٹاک مارکیٹس میں اضافہ ہوا۔