آخری اننگز کا کھیل شروع؟
اگست 2021 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال پورے ہو جائیں گے۔ اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی وزیراعظم عمران خان کو ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج کا سامنا رہا ہے۔ وزیراعظم کا انتخاب جیتنے کے بعد پہلے ہی دن آثار واضح ہو گئے تھے کہ اپوزیشن، حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو سلیکٹڈ کا طعنہ دیا تو دوسری طرف قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی نشستوں پر براجمان مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف پر دھاندلی شدہ حکومت ہونے کا الزام عائد کیا اور وزیر اعظم کو پہلے ہی دن ایوان میں تقریر نہ کرنے دی گئی۔مولانا فضل الرحمان کے خیال میں تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو الیکشن نتائج کو رد کرنا چاہیے تھا۔ حتیٰ کہ اسمبلیوں کا حلف لینے کی بھی ضرورت نہیں تھی ، مولانا کی یہ بات نہ مانی گئی تو انہوں نے اکیلے ہی حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کردیا جوناکام رہا۔حکومت کو اپنے پہلے سال کے دوران ہی بھارت کے ساتھ پلوامہ جیسے تنازعہ کا سامنا کرنا پڑا اور پھر بات جنگ تک پہنچ گئی۔ایسا ملک جو معاشی بدحالی کے باعث آئی ایم ایف کے ایک سخت گیر پروگرام پر چل رہا ہو، اس کے لیے معاشی اور سیاسی استحکام ضروری ہے ، لیکن کچھ وجوہات کے باعث حکومت کے مسائل کم نہ ہو سکے ، ناتجربہ کاری ، نااہلی یا پارٹی میں موجود مفاد پرست ٹولے کی کارستانی کہیے ، گندم اور چینی کے اسٹاکس کے ہوتے ہوئے بھی پورے
پاکستان میں اشیاء خور دو نوش کی شدید قلت ہو گئی تھی جو کہ آج تک قائم ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔آٹا چور اور چینی چور کے حکومت کو طعنے دئیے جا رہے ہیں، حکومت نے ان معاملات پر کمیشن بٹھا کر تحقیقات تو ضرور کروائیں لیکن ابھی تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے پیٹرولیم بحران بھی پیدا ہوا۔
اسی دوران تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے مل کر پی ڈی ایم کی شکل میں حکومت مخالف تحریک بھی شروع کردی۔ یہ تمام مسائل کم نہ تھے کہ کورونا کے وار شروع ہو گئے اور آج تک ہو رہے ہیں۔ تیسری لہر خوفناک ہو چکی ،روز بروز مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ہسپتال مریضوں سے بھر رہے ہیں، خدانخواستہ اگر ہمارے حالات انڈیا والے ہو گئے تو پتہ نہیں کیا بنے گا۔ اس عالمی وباء نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، بڑے سے بڑے ملک گھٹنوں کے بل آ گئے ہیں، مستقبل میں عالمی اقتصادی صورت حال کیا ہوگی پالیسی سازگاروں کو بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ گزشتہ ہفتے گلگت بلتستان میں ایک تقریب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے یہ اعتراف بھی کیاکہ ماضی میں ٹکٹوں کی تقسیم اور پھر وزراء کی سلیکشن میں بہت غلطیاں ہوئی ہیں۔ بہت سارے فیصلے وہ کر سکتے تھے مگر انہوں نے نہیں کیے۔ کراچی انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ نون لیگ سے بھی واضح آوازیں آ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے پانچ سال پورے کرنے دئیے جائیں اور ان کو سیاسی شہید نہ بنایا جائے حتیٰ کہ مریم نواز نے بھی پانچ سال پورے کرنے کا کہہ دیا ہے۔
اب سوال جو وزیراعظم عمران سمیت ان کی کابینہ سے پوچھا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی حکومت کے باقی ماندہ دو سال کا کیا پلان ہے؟۔ حکومت ایسا کیاکرے گی کہ وہ دو سال بعد الیکشن میں جانے کے قابل ہو۔ کیا حکومت پچاس لاکھ نئے گھر بنانے اور دس کروڑ نوکریوں کا عدہ پورا کر سکے گی ؟ وفاقی وزراء سے بات کریں تو ایک اہم وفاقی وزیر کاکہناتھا کہ آئندہ دو سال کے دوران حالات کافی بہتر ہو جائیں گے،
معاشی صورتحال بہتر ہو رہی ہے ، اس سے حکومت کو آنے والے دو سال کے دوران نئے ترقیاتی پروگرام شروع کرنے کاموقع مل جائے گا۔ تعمیرات کی صنعت میں نمایاں بہتری آئی ہے ، نوجوان روزگار پروگرام کے ساتھ غریبوں کو براہ راست سبسڈی دی جا رہی ہے ،اس لیے ہمیں امید ہے کہ ہم اگلے الیکشن میں بہتر پرفارم کریں گے۔ دوسری جانب اس صورت حال پر ایک دوسرے وزیر صاحب کا کہنا ہے کہ حالات جس طرح جا رہے ہیں اگر ایسے ہی رہے تو شاید ہماری پارٹی کو ٹکٹ لینے والے بھی نہ ملیں۔
یوں اگر یہ کہا جائے کہ آئندہ دو سال عمران خان کی زندگی کے سب سے اہم ترین سال ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ وہ وقت ہے جس سے پتہ چلے گا عمران خان بحیثیت سیاستدان اور وزیراعظم کتنے کامیاب رہے۔ ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف کے لئے بحیثیت پارٹی اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوسکتا ہے۔ ترین گروپ پہلے ہی وزیر اعظم کے سامنے کھڑا ہے ، حکومت جوں جوں اختتام کی طرف بڑھتی جائے گی ، پارٹی کے اندر سے مزید لوگ کھڑے ہونا شروع ہو جائیں گے اور پنچھی ہوا کا رخ دیکھ کر ا ڑنا شروع ہوجا ئیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی فیصلہ کن سیاسی اننگز شروع ہوچکی ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ میچ کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پانچ سال کے بعد کلین سویپ کا داغ لیکر جائیں گے۔