ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح!

تحریر : محمد زابر سعید بدر


ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒملت ہے جسم،جان ہے محمد علی جناحؒلگتا ہے ٹھیک جا کر نشانے پہ جس کا تیرایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناحؒہمارے بچپن میں یوم پاکستان کے موقع پر یہ نظم ٹیلی ویژن پر ہمہ وقت سنائی دیتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا یہ ہمارے دل کی آواز ہے۔

 یہ نظم میاں بشیر احمد کی ہے اور اس نظم کو اس تاریخی اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سامنے ترنم کے ساتھ پڑھا گیا اور یہ سارے بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں کا ترانہ بن گئی۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میاں بشیر احمد کون تھے۔پاکستان کے قیام کے حوالے سے جس خاندان کی خدمات کا تذکرہ کئے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ میاں بشیر احمد ایک عظیم خاندان کے ایک اہم فرد تھے۔ برطانوی پنجاب کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کے فرزند تھے جن کو علامہ اقبالؒ نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’اے ہمایوں‘‘ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ جن احباب کی بہت عزت کرتے تھے ان میں ایک میاں شاہ دین بھی تھے۔ اپنے والد میاں شاہ دین کی وفات پر میاں بشیر احمد نے ان کی یاد میں رسالہ ’’ہمایوں‘‘ جاری کیا۔ جب میاں بشیر احمد اس کے پہلے شمارے کیلئے نظم کی درخواست لے کر علامہ اقبالؒ کے پاس گئے تو علامہ نے شاہ دین ہمایوں کی یاد میں وہ نظم لکھی جو بانگِ درا میں ’’اے  ہمایوں‘‘ کے نام سے شامل ہے اور جس کا آخری شعر بے حد مشہور ہے۔

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی

ہے یہ شام زندگی صبح  دوام زندگی

یہ رسالہ 35 برس تک جاری رہا اور اس نے اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسی خاندان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیان میں سے ایک سر میاں محمد شفیع، بر صغیر پاکستان و ہند میں خواتین کی جدوجہد کا ایک استعارہ بیگم جہاں آرا شاہنواز، ممتاز شاہنواز، بیگم گیتی آرا بشیر احمد، پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر میاں عبدالرشید، لیڈی شفیع، لیڈی شاہ دین، میاں افتخار الدین، میاں منظر بشیر و دیگر شامل ہیں۔ 

قائد اعظم محمد علی جناحؒ میاں بشیر احمد پر بہت اعتماد کرتے تھے، انہوں نے پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا میاں بشیر احمد کو صدر مقرر کیا۔ میاں صاحب کی وہ نظم کئی برس تک زبان زد عام رہی جس کا پہلا مصرع ہے ’’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘۔ قائداعظمؒ اور مادر ملت فاطمہ جناح لاہور میں میاں بشیر احمد کی رہائش گاہ ’’المنظر‘‘ میں قیام کرتے۔ میاں بشیر احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجوایشن کی اور لنکن ان سے  بارایٹ لا کیا۔

 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک (اب اقبال پارک) میں جلسہ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اجلاس کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔ ڈاکٹر سرفراز حسین مرزا لکھتے ہیں کہ اس اجلاس کو کامیاب بنانے میں بیگم جہاں آرا شاہنواز ان کی والدہ بیگم محمد شفیع جنہیں لیڈی شفیع کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے لاہور اور پنجاب کی خواتین کو متحرک کیا جس سے خواتین کو ایک نیا ولولہ اور جوش ملا اور وہ تحریک پاکستان میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہو گئیں۔ اجلاس میں پنجاب، بنگال اور آسام کے وزرائے اعلیٰ، مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم ارکان نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ ہندوستان بھر سے آئے ہوئے مندوبین کیلئے قریباً دو ہزار خیمے نصب کیے گئے۔ اس اہم اجلاس کے انتظامات کے سلسلے میں بنائی گئی کمیٹی کے صدر نواب ممدوٹ جبکہ سیکرٹری میاں بشیر احمد تھے۔

 میاں صاحب کی نظم ’’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘ انور غازی آبادی نے پڑھی جس کو شرکاء نے سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ 21 اپریل  1938ء میں انتقال کر گئے لیکن وہ اپنے الہ اباد کے جلسے میں ایک علیحدہ وطن کے قیام کا جو تصور پیش کر گئے اس میں مسلمان نے برصغیر کو ایک سمت عطا کی۔ اس وقت اس تصور کا مذاق اڑایا گیا لیکن وقت نے اس کو حقیقت کا روپ دے دیا۔ 

 1940ء کے اس جلسہ میں میاں بشیر احمد نے اس نظم کے ذریعے یہ بتانا چاہا کہ جس مرد مومن کا اقبالؒ نے خواب دیکھا اس کی تعبیر محمد علی جناحؒ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔اسی لئے قیام پاکستان کے وقت قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ آج اقبالؒ زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے۔یہ نظم ہمیں بتاتی وہ تمام چیزیں جو حقیقت بن گئیں۔ جیسے قوم کی روح، تقدیر کی اذاں یہ سب استعارے علامہ کی شاعری سے ماخوذ ہیں۔ میاں بشیراحمد نے اس نظم میں یہ اظہار کیا کہ اقبالؒ کے تصور مرد مومن کی اب عملی تعبیر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جیسا کہ نظم میں کس خوبصورتی کے ساتھ قائد اعظم ؒکے اوصاف کو اجاگر کیا گیا ہے اور اقبالؒ کے تصور ملت کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ اگر ملت کو جسم سمجھا جائے تو جناحؒ اس کی روح ہیں۔ 

 1942ء میں قائداعظمؒ نے میاں بشیر احمد آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا رکن نامزد کیا۔ وہ 1947ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ 1946ء کے عام انتخابات میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مجلس قانون ساز پنجاب کے رکن منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان نے انہیں1949ء میں انہیں ترکیہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا۔ اس عہدے پر وہ 1952ء تک فائز رہے۔ترکی میں میاں بشیر احمد کی بھرپور کوششوں سے انقرہ یونیورسٹی میں اردو چیئر قائم ہوئی۔ اردو سے وہ بے انتہا محبت کرتے۔ انہوں نے پروفیسر حمید احمد خان،ڈاکٹر سید عبداللہ، سید وقار عظیم، حامد علی خان اور دیگر کے ساتھ مل کر اردو کو اس کا مقام دلانے میں بہت جدوجہد کی۔ اس حوالے سے میرے والد سعید بدر بتاتے ہیں کہ یہ تمام بزرگ لاہور کے بازاروں میں نکل جاتے اور لوگوں سے درخواست کرتے کہ دکانوں کے بورڈ انگریزی کی بجائے اردو میں لکھوائیں۔وہ پنجاب میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے سب سے بڑے رفیق اور مددگار تھے۔ تاریخ اور ادب پر ان کی چند کتابیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان میں طلسم زندگی، کارنامہ اسلام اور مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل شامل ہیں۔ آج کی نوجوان نسل اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں پاکستان کی تاریخ اور قیام کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا جائے کیونکہ پاکستان کی بقا نظریہ پاکستان ہی میں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

چھبیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الاحقاف: اس سورہ میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا تاکیدی حکم ہے اور ماں نے حمل اور وضع حمل کے دوران جو بے پناہ مشقتیں اٹھائیں، ان کا ذکر ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے، چونکہ حدیث کی رو سے دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے، اس لیے فقہا نے فرمایا کہ ممکنہ طور پر کم ازکم مدتِ حمل چھ ماہ ہے۔ پھر قرآنِ مجید نے بتایا کہ صالح اولاد پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اس کی ان نعمتوں کا جو اس نے اس پر اور اس کے والدین پر کیں، شکر ادا کرنے کی توفیق طلب کرتی ہے۔ اس بات کی دعا بھی کہ مجھے اپنا پسندیدہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور میری اولاد کی بھی اصلاح فرما اور میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اور میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔

چھبیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الاحقاف: قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کا آغاز سورۃ الاحقاف سے ہوتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شرک کرتے ہیں‘ ان کو کہیے کہ اگر وہ سچے ہیں تو کوئی سابقہ کتاب یا علم کا ٹکڑا اپنے موقف کی دلیل کے طور پر لے کر آئیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا‘ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پکارتا ہے‘ جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کے پکارنے سے غافل ہیں۔

پچیسویں پارے کاخلاصہ

اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں : پارے کا آغاز سورہ حم سجدہ سے ہوتا ہے ۔ پارے کی ابتدا میں بتایا گیا ہے کہ قیامت‘ شگوفوں سے نکلنے والے پھلوں‘ حمل اور وضع حمل کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جائے گا۔

پچیسویں پارے کاخلاصہ

اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں: قرآنِ پاک کے پچیسویں پارے کا آغاز سورہ حم سجدہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پچیسویں پارے کے شروع میں ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘ اسی طرح ہر اُگنے والے پھل کا علم اس کے پاس ہے اور ہر عورت کے حمل اور اس کے بچے کی پیدائش کا علم اللہ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بنانے والے ہیں‘ اس لیے ان سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔

چوبیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الزمر: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور حق کو جھٹلانے والے کو جہنمی قرار دیا گیا اور سچے دین کو لے کر آنے والے‘ یعنی رسول اللہﷺ اور ان کی تصدیق کرنے والے (مفسرین نے اس سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مراد لیا ہے) کو متقی قرار دیا گیا ہے۔ آیت 38 میں بتایاکہ اللہ کی قدرت پر کسی کا بس نہیں چلتا۔

چوبیسویں پارے کاخلاصہ

سورۃ الزمر: چوبیسویں پارے کا آغاز سورۂ زمر سے ہوتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچی بات اس تک پہنچ گئی تو اسے جھٹلا دیا۔