طالبان رہنماؤں کی افغان خواتین پر انوکھی پابندیاں
کابل: (دنیا نیوز) طالبان رہنماؤں کی جانب سے افغان خواتین پر انوکھی پابندیاں لگائی جانے لگیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت انتہائی قدامت پسند تشریح کے لیے مشہور ہے، اس حکومت نے ایک نئی ہدایت جاری کی ہے جس میں رہائشی کھڑکیوں کی تعمیر پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
پابندی اس لیے عائد کی گئی ہے کہ ان کے ذریعے "صحن، باورچی خانے، پڑوسیوں کے کنویں اور دیگر جگہوں کو دیکھا جا سکتا ہے جنہیں عموماً خواتین استعمال کرتی ہیں"۔
حکم نامے کے مطابق ’’خواتین کو کچن، صحن میں کام کرتے ہوئے یا کنوؤں سے پانی جمع کرتے ہوئے دیکھنا فحش حرکات کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
یہ تازہ ترین فیصلہ اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے افغان خواتین کو نشانہ بنانے والی پابندیوں کا تسلسل کے ایک حصہ ہے جو سرکاری اور نجی دونوں جگہوں پر خواتین کی موجودگی کو مزید کم کرنے کے مترادف ہے۔
افغانستان میں خواتین سے پہلے ہی بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں، جن میں پرائمری سکول میں تعلیم تک رسائی، روزگار کے مواقع اور عوامی پارکوں یا تفریحی مقامات پر جانے کی آزادی شامل ہیں۔
حالیہ اقدامات نے خواتین پر عوامی سطح پر گانے، شاعری سنانے یا میڈیا کی نشریات میں اپنی آوازیں استعمال کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے، خواتین کی زندگیوں پر انتہائی کنٹرول کو نافذ کرنے کے حکومتی ارادے خلاف کافی تشویش پائی جاتی ہے۔
یہ کارروائیاں طالبان کی گہری قدامت پسند اور ذہنیت کو ظاہر کرتی ہیں جو کہ مساوات اور شخصی آزادی کی اقدار کے برخلاف اس طرح کی پالیسیاں نہ صرف افغان خواتین کو پسماندہ کرتی ہیں بلکہ افغان معاشرے کی مجموعی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔
ان کارروائیوں سے جبر کا ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جو ملک کو عالمی اصولوں سے الگ کر دیتا ہے، اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری نے ان اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اسے "جنسی نسل پرستی" کے مظہر قرار دیا اور افغان خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے فوری کارروائی پر زور دیا ہے۔
یہ پابندیاں ایک ایسی حکومت کو ظاہر کرتی ہیں جو انسانی وقار، انصاف اور سماجی ترقی کی قیمت پر فرسودہ نظریات کو مسلط کرنے پر مرکوز ہے، افغانستان کی حیثیت کو خواتین کے لیے دنیا کی سب سے زیادہ جابر ریاستوں میں تصور کیا جاتا ہے۔
افغانستان کا پاکستان مخالف پروپیگنڈا
المرصاد (ویب پیپر) افغان طالبان کے ہاتھوں میں ایک پروپیگنڈے کے آلے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، دشمنی، نفرت اور یک طرفہ بیانیہ پھیلا رہا ہے جو علاقائی امن اور باہمی افہام و تفہیم کو نقصان پہنچاتا ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے، علاقائی اور عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے انسانی جانوں اور وسائل کے حوالے سے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
80 ہزار سے زیادہ پاکستانی جن میں عام شہری اور سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں، دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، پاکستان نے کئی دہائیوں سے 40 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے، انہیں اپنے معاشی چیلنجوں کے باوجود پناہ، خوراک اور مواقع فراہم کیے ہیں۔
عالمی برادری نے دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور خطے میں امن کے اقدامات میں مدد کرنے میں پاکستان کی کوششوں کا بارہا اعتراف کیا ہے، اکستان کی سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے اور امن کی بحالی کے لیے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے متعدد کامیاب آپریشن کیے ہیں اور اب عزمِ استقامت جاری ہے۔
افغانستان سرحد پار دہشت گردی کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا ہے، ٹی ٹی پی نے پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے علاقائی امن کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
محدود وسائل کے باوجود پاکستان افغان استحکام، امن مذاکرات اور ترقیاتی منصوبوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، پاکستان نے لاتعداد اشتعال انگیزیوں کو برداشت کیا ہے لیکن افغانستان کے ساتھ سفارت کاری اور پُرامن تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پھر بھی پُرعزم ہے۔
پاکستان کے خلاف الزامات اکثر اس کے تعاون اور قربانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو افغانستان کے اندر بعض عناصر کی ناشکری کو ظاہر کرتے ہیں، پاکستان کے اقدامات بین الاقوامی اصولوں پر مبنی علاقائی استحکام، انسانی امداد اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر زور دیتے ہیں۔