آئی ایم ایف قرض کی حتمی منظوری میں امریکہ، جاپان، چین اور جرمنی کا اہم کردار
امریکہ 16.52، جاپان 6.15، چین 6.09، جرمنی کے پاس 5.32 فیصد ووٹنگ پاور، سفارتی حمایت حاصل کی جائیگی بھاری ٹیکس نفاذ،سبسڈی ختم کرنے سے عوامی ردعمل،عملدرآمدنہ کرنے کی صورت میں آئی ایم ایف ناراضی کاخدشہ رہیگا
اسلام آباد(ساجدچودھری)آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کیلئے 6 ارب ڈالر مالیت کے قرض کی حتمی منظوری میں امریکہ، جاپان، چین اور جرمنی کا کردار اہم ہوگا، آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں سب سے زیادہ ووٹنگ پاور 16.52 فیصد امریکہ کے پاس ہے ، اس کے بعد جاپان کے پاس 6.15 ، چین کے پاس 6.09 اور جرمنی کے پاس 5.32 فیصد ووٹنگ پاور ہے ۔ بورڈ اجلاس سے قبل ان ممالک کی سفارتی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ان ممالک سے پاکستان کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کی درخواست کی جائے گی اور ممکنہ مخالفت کی صورت میں آئی ایم ایف بورڈ میں ایک بااثر گروپ کو حمایت کیلئے تیار کیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر جولائی میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے قبل جن اقدامات پر فوری عملدرآمد کرنا ہوگا ان میں گیس کی قیمت میں 160 ارب روپے کا اضافہ، بجلی کی قیمت میں 98 ارب کا اضافہ، نئے تعمیر شدہ دو بجلی گھروں حویلی بہادر شاہ اور بلوکی کی نجکاری سے 2 ارب ڈالر حاصل کرنا، وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں و ڈیوٹیوں کی چھوٹ واپس لینے اور نئے ٹیکس اقدامات سے ریونیو میں 600 سے 750 ارب روپے کے قریب اضافہ کرنا شامل ہے ۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جن اقدامات پر تین سال میں میکرو اکنامک فریم ورک سے ہٹ کر عملدرآمد کرنا ہوگا ان میں بھاری اخراجات کم رکھنے کیلئے تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے منشور میں شامل کئی اہم اقدامات پر عملدرآمد تین سال کیلئے موخر کرنا پڑے گا۔ وزارتوں میں کمی کی ایک ممکنہ شرط کے تحت تحریک انصاف کو اپنی اتحادی جماعتوں کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ۔ پنشن کے بغیر نوکریوں کا نیا نظام لاگو کرنے کی شرط سے بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ 193 پبلک سیکٹر کمپنیوں اور کارپوریشنوں میں سے بھاری نقصانات کا سبب بننے والے اداروں کی فوری نجکاری اور 43 کی فوری بندش بھی پروگرام کا حصہ ہونے کا امکان ہے ۔ پاکستان کو زرمبادلہ میں بھاری مالیت کی بیرونی سرکاری خریداریوں جن میں کچھ حساس نوعیت کی خریداریاں بھی شامل ہیں، پر تین سال تک رضاکارانہ پابندی رکھنے کی شرط کو پروگرام سے باہر رکھنے اور اس پر عمل درآمد کی مجبوری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔ امریکہ کے خدشات دور کرنے کیلئے پاکستان آئی ایم ایف کے تین سالہ قرض پروگرام کے دوران چین کو دو طرفہ قرضوں کی ادائیگی بند رکھے گا اور قرض پروگرام ختم ہونے کے بعد چین کو اس کے قرض کی اقساط اور ان پر سود ادا کیا جائے گا۔ بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے نادہندگان سے 800 ارب روپے کے بقایاجات کی وصولی کیلئے جلد کریک ڈائون ، ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے ٹیکس بقایاجات اور قومی اداروں کو خریدنے کے باوجود ان کی پوری قیمت ادا نہ کرنے والے خریداروں سے بھی فوری وصولیوں کیلئے اقدامات شروع ہونے کو ہیں۔ بجٹ میں 350ارب سے لیکر400ارب روپے کی ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی چھوٹ کی واپسی سے پاور بزنس لابیوں کی جانب سے حکومت کے خلاف سخت رد عمل سامنے آ سکتا ہے جس کے سیاسی اثرات بھی ہو سکتے ہیں ۔ نیا قومی مالیاتی ایوارڈ تحریک انصاف کی حکومت کیلئے ایک کڑے امتحان سے بڑھ کر ثابت ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔ جس میں صوبے اپنے حصے میں کمی کی بجائے اضافہ کرنے اور کئی وفاقی ٹیکسوں کی وصولی صوبوں کے سپرد کرنے کے مطالبات لئے بیٹھے ہیں۔ نیپرا، اوگرا اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے سبب تحریک انصاف کی حکومت کیلئے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، خودمختاری کے ساتھ وزارت خزانہ اسٹیٹ بینک پر براہ راست حکم صادر کرنے کے قابل نہیں رہے گی اور نوٹ چھاپ کر بجٹ خسارہ پورا کرنے کا راستہ بند ہوجائے گا، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ پر عوامی ردعمل اور تمام بوجھ عوام پر منتقل نہ کرنے کی صورت میں آئی ایم ایف کی ناراضی اور پروگرام کے معطل ہونے کے خدشات برقرار رہیں گے ۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی پروگرام ان ممالک کو دیتا ہے جو بیرونی ادائیگیوں کے سنگین بحران میں پھنسے ہوں اور ان کی معاشی ترقی کی شرح مسلسل گررہی ہو۔ پروگرام کا مقصد تین سالہ دور میں معاشی عدم توازن کو درست کرنا مقصود ہوسکتا ہے ۔