راہِ ہدایت
اوران کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا اوربعض جنات ایسے تھے جوان کے پروردگارکے حکم سے انکے ماتحت کام کرتے تھے ۔ (سورۃسبا:آیت12)

اپنی آئینی حدود کوبخوبی جانتے، دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں: آرمی چیف


رسالپور: (دنیانیوز) آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی پاسداری مقدم رکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔



اشتہار

اسلام آباد،لاہور (نمائندہ دنیا ،اپنے سٹی رپورٹرسے ،مانیٹرنگ ڈیسک،دنیا نیوز)وزیر اعظم نے نگران دور حکومت میں غیر ضروری خریدی گئی گندم کی تحقیقات کرانے کی منظوری دے دی۔وزیراعظم نے گندم درآمدی سکیم کی چھان بین کے لیے تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ، جسٹس (ر)میاں مشتاق کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے ۔

کراچی (سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی آئی اے اور سٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کرنے کے بجائے وفاقی حکومت سے انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا مطالبہ کیاہے ۔

راولپنڈی (نامہ نگار،دنیا نیوز،اے پی پی)چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر او ربرطانیہ کی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل (سی جی ایس)سرپیٹرک سینڈرز نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں چھٹی پاکستان برطانیہ استحکام کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا۔

لاہور،بہاولپور(اے پی پی ،نامہ نگار) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے فیلڈ ہسپتال پراجیکٹ کا افتتاح کردیا۔پہلے مرحلے میں 32سے زائد چھوٹے بڑے فیلڈ ہسپتال فنکشنل کیے گئے ۔

متفرقات

بارش سے محروم اور مسلسل برستی بارش والے علاقے

بارش سے محروم اور مسلسل برستی بارش والے علاقے

اس روئے زمین پر نظام قدرت بھی کتنا عجیب ، پیچیدہ اور حیرت انگیز ہے۔اتنا حیرت انگیز کہ بسا اوقات انسانی سوچ بھی جواب دے جاتی ہے۔ بارشوں کو ہی لے لیں دنیا میں دو شہر ایسے بھی ہیں جہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ تک نہیں پڑا جبکہ اس کے برعکس ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں سارا سال مسلسل بارش جاری رہتی ہے ، باالفاظ دیگر آج تک رکی ہی نہیں۔مسلسل بارش کا سامنا کرنے والا شہر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نمی والا مقام یعنی دنیا میں سب سے زیادہ بارشیں بھارتی ریاست میگھالیہ میں ہوتی ہیں۔ ریاست میگھالیہ کا دارالحکومت شیلانگ ہے جو سارا سال بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ میگھالیہ سنسکرت کا ایک لفظ ہے جس کے معنی '' بادلوں کا گھر‘‘ کے ہیں۔ میگھالیہ کا گاوں ماسن رام دنیا کا واحد اور منفرد علاقہ ہے جہاں سارا سال مسلسل بارشیں برستی رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کو دنیا کی گیلی ترین زمین کہتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق خلیج بنگال کی وجہ سے اس جگہ کو دنیا کی سب سے زیادہ نمی والی جگہ کی شہرت حاصل ہے۔اس کی واحد وجہ ہی یہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر روز بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہ گاوں سطح زمین سے 1491 میٹر بلند پہاڑ پر واقع ہے جبکہ یہاں اوسطاً بارش 11871ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔ ریاست میگھالیہ کی تہذیب ملک کے دوسرے صوبوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ بہت زیادہ سرسبز و شاداب علاقہ ہے جو پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی بارشوں نے یہاں کے ماحول اور بھی زیادہ سحر انگیز بنا،رکھا ہے جو شاید وہاں کے باسیوں کے لئے تو زیادہ پرکشش نہ ہو لیکن سیاحوں کے لئے یہ منظر مسحور کن ضرور ہوتا ہے۔مسلسل بارشوں کے باعث یہاں چھتریوں کی بجائے لوگوں نے بانس سے بنی خوشنما ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں جسے بیچنے والے سڑک کنارے جابجا ٹھیلے لگائے نظر آتے ہیں۔بارشوں سے محروم بادلوں کے نیچے ایک گاوں سائنسدانوں کے بقول جب پا نی زمین سے بخارات بنکر اڑ جاتا ہے تو زمین کی فضا میں ٹھنڈا ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔جب یہ بادل کافی بھاری ہو جاتے ہیں تو وہ ہوا سے ٹھنڈے ہونے پر بارش کی صورت میں زمین پر گرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بارشیں قدرت کی نعمت بھی ہیں اور زحمت بھی۔بارشیں معمول کی ہوں تو نعمت اور اگر غیر معمولی ہوں تو زحمت۔ ایک حد سے زیادہ بارشیں اپنے ساتھ سیلاب ، طوفان اور ژالہ باری جیسی تباہ کاریاں لے کر آتی ہیں۔دنیا کے تقریباً سبھی خطوں پر کہیں کم اور کہیں زیادہ بارشیں معمول کا ایک عمل گردانا جاتا ہے۔ لیکن بہت سارے لوگوں کیلئے شاید یہ انکشاف نیا ہو کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا گاوں بھی ہے جہاں آج تک کبھی بارش نہیں برسی۔ ایتھوپیا کا ''دلول‘‘ نامی یہ گائوں ایتھوپیا اور ارٹیریا کی سرحد کے قریب عفر نامی ریجن میں واقع ہے۔لفظ ''دلول‘‘ یہاں صدیوں پہلے آباد قوم عفر قوم نے اسے دیا تھا،جس کے لفظی معنی ''تحلیل‘‘ ہو جانے کے ہیں۔یہ خطہ چونکہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے اس لئے یہاں کی آبادی بہت کم نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ایک غیر محفوظ اور نمک کی خوفناک اور گہری کھائیوں پر مشتمل پہاڑی بنجر علاقہ بھی ہے۔بارشوں سے مکمل طور پر محروم اس گائوں کا گرمیوں میں درجہ حرارت 65 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔جبکہ یہاں کا اوسط درجہ حرارت 40ڈگری سنٹی گریڈ سے کچھ اوپر ہی ہے۔ یہاں بے شمار آتش فشاں موجود ہیں۔انہی آتش فشانوں میں ''دانا ڈپریشن‘‘ نامی علاقے میں واقع '' ایریا ایلے ‘‘ نامی ایک ایسا آتش فشاں پہاڑ ہے جو دنیا کے ایسے چھ آتش فشان پہاڑوں میں سے ایک ہے جو لاوے کے بڑے بڑے ابلتے تالابوں پر مشتمل ہے۔یہ آتش فشاں سطح زمین سے 613 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اگرچہ یہاں تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن اس کے باوجود بھی دنیا بھر کے سیاح اور مہم جو جوق در جوق ان خوش رنگ اور منفرد بہتے لاووں کو دیکھنے یہاں چلے آتے ہیں۔ 1926ء میں یہ آتش فشاں دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماہرین کی توجہ کا مرکز اس وقت بنے جب انہوں نے ان آتش فشانوں کے پھٹنے کے بعد یہاں کچھ غیر معمولی تبدیلیاں دیکھیں۔ جس تبدیلی نے ماہرین کو حیران کیا وہ یہاں پر موجود نمک کے ذخائر کا چٹانوں سے 30 میٹر تک ابھر کر سامنے ظاہر ہو جانا تھا۔دراصل یہ علاقہ مقامی نمک سے مالا مال ہے جس کے سبب اسے مقامی طور پر سفید گولڈ کانام بھی دیا جاتا ہے اور یہاں کے باسیوں کا یہ سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی ہے۔ دوسری بڑی تبدیلی معمول سے ہٹ کر زلزلوں کا آنا تھا۔ان زلزلوں کے باعث سلفر کے تالابوں میں درجہ حرارت بتدریج بڑھتا ہوا دیکھا جانے لگا۔یہاں پر زیر زمین گرم پانیوں کو زمین کی سطح تک آنے میں پتھر کی متعدد تہوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔نتیجتاًاس عمل کے دوران یہاں نمک، سلفر اور آئرن پیدا ہوتے ہیں ۔دلول گائوں ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دنیا کے سب سے غیر معمولی ہائیڈرو تھرمل علاقوں میں سے ایک ہے۔اس خطے کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کا بیشتر حصہ سطح سمندر سے 125 میٹر نیچے ہے۔ بارشوں سے محروم بادلوں کے اوپر ایک گاوںعام طور پر بارش کے متلاشی آسمان کی طرف رخ کر کے بارش کے آنے یا نہ آنے کا اندازہ کرتے نظر آتے ہیں۔ظاہر ہے بارشیں آسمانوں سے ہی برسا کرتی ہیں لیکن آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا گائوں بھی ہے جہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں پڑا لیکن وہ بارش کا منظر دیکھنے کیلئے اوپر کے بجائے نیچے کی جانب دیکھتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے گائوں کے نیچے اکثر و پیشتر بارشیں برستی رہتی ہیں۔ ''الحطیب‘‘ نام کا یہ منفرد گاوں ملک یمن کے دارالحکومت صنعا اور الحدیدہ کے درمیان ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔اس گائوں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ سطح زمین سے لگ بھگ 3200میٹر بلندی پر سرخ رنگ کے پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے لیکن یہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ تک نہیں پڑا ۔ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے۔یہ گائوں چونکہ زمین سے 3200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے جبکہ بادل زمین سے 2000 میٹر کی بلندی پر بنتے ہیں۔بالفاظ دیگر بلندی پر رہنے کے سبب یہاں کے باسی بارش کی نعمت سے مستفید نہیں ہو پاتے جبکہ ان بادلوں کے نیچے بسنے والے باسی وقتاً فوقتاً بارش سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں جنہیں ان سے اوپر رہنے والے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کا موسم گرم اور معتدل رہتا ہے تاہم سردیوں میں صبح کے وقت موسم سرد رہتا ہے لیکن سورج کے طلوع ہوتے ہی یہ گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔  

سنان ابن ثابت: علم و تحقیق کے آسمان کا روشن ستارہ

سنان ابن ثابت: علم و تحقیق کے آسمان کا روشن ستارہ

حران کے مشہور طبیب ریاضی دان اور مترجم ثابت ابن قرہ(830ء تا 901ء) کا یہ لائق فرزند بغداد میں 880ء کے قریب تولد ہوا، (ایک اور ذرائع کے مطابق اس کا سن پیدائش 850ء ہے)۔ جس طرح اس کے والد نے طب اور ریاضی کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیئے، اسی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ کر اس کا بیٹا بھی علم و تحقیق کے آسمان پر سورج بن کر چمکا۔ یہی نہیں بلکہ آگے سنان ابن ثابت کے بیٹے اور ثابت ابن قرہ کے پوتے ابراہیم ابن سنان نے بھی اپنے دادا اور والد سے حاصل کی ہوئی علمی میراث سے تشنگان علم و تحقیق کو خوب سیراب کیا۔ سائنس کی تاریخ میں شاذو نادر ہی ایسا اتفاق ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں اس کی مثال بیکرل خاندان میں ملتی ہے۔ اے سی بیکرل، اس کا بیٹا اے ای بیکرل اور پھر اس کا پوتا اے ایچ بیکرل تینوں اپنے اپنے دور کے مشہور سائنسدان گزرے ہیں۔سنان ابن ثابت کا والد ثابت ابن قمرہ ممتاز سائنسدان محمد بن موسیٰ بن شاکر کے کہنے پر حران سے بغداد آئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔یوں سنان ابن ثابت کو آغاز ہی سے بغداد کی علمی فضا میں اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ سنان نے ریاضی اور طب کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی۔ مشہور تاریخ نگار المسعودی، سنان ابن ثابت کے حوالے سے عباسی خلیفہ المعتضد (دور خلافت 892 تا 902ء) کے دربار کے طریق زندگی کا نقشہ بیان کرتا ہے۔ بظاہر 908ء سے پہلے سنان کا دربار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر المقتدر(دور خلافت 908ء تا 932ء) کے عہد میں اسے دربار کے حکیم اور طبیب کی حیثیت مل گئی اور اسی طرح وہ خلیفہ القاہر(دور خلافت932ء تا 934ء) اور خلیفہ الراضٗی (دور خلافت 934ء تا 940ء) کے دور میں بھی دربار سے منسلک رہا۔ ایک دوسرے مستند ذریعے کے مطابق892ء میں ہی جب معتضد خلیفہ بنا تو سنان کے والد نے جو اس وقت افسر الاطبا کے عہدہ پر متمکن تھا، سنان کو اپنی جگہ مقرر کروا دیا تھا۔ اسی ماخذ کے مطابق 902ء میں معتضد کی وفات کے بعد مکتفی کے دور خلافت میں سنان بن ثابت کو تمام سرکاری شفا خانوں کا مہتمم اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس دور میں اس کے عمل کا دائرہ سفری شفاخانوں اور جیل میں طبی سہولتوں کے بہم پہنچانے تک محدود تھا اور پھر امن کے بعد مقتدر کے دور میں وہ نہ صرف اس عہدے پر فائز رہا بلکہ اب اس کی حیثیت ایک وزیر صحت کی سی ہو گئی۔ اس نے اپنی لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے جلد ہی بغداد کے تمام اطباء میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔931ء میں جب ایک عطائی کے غلط علاج کے باعث ایک مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو مقتدر کے حکم کے مطابق سنان نے مطب کرنے والے تمام اطباء کا ایک امتحان لیا اور بغداد کے تقریباً ایک ہزار میں سے صرف سات سو کے قریب اطباء کو مطب کھولنے کی اجازت دی گئی۔ اس امتحان سے صرف ان چند ایک اطباء کو مستثنیٰ رکھا گیا جو پہلے ہی اچھی شہرت رکھتے تھے۔اس کے والد ثابت ابن قرہ نے پیرانہ سالی میں اسلام قبول کر لیا تو سنان بھی مسلمان ہو گیا۔ اس وقت اس کی عمر (تاریخ پیدائش850ء کے لحاظ سے) 40سال تھی، یوں اس کے قبول اسلام کا سال تقریباً 890ء متعین ہوتا ہے۔ راضی کی وفات کے بعد اس نے واسط( کوفہ اور بصرہ کے درمیان ایک شہر کا نام) کے امیر ابوالحسین بحکم کی جسمانی صحت اور اخلاق و کردار کی دیکھ بھال شروع کردی۔ بغداد ہی میں 943ء میں اس کا انتقال ہوا۔سنان کی تصانیف میں سے بدقسمتی سے اب کوئی بھی موجود نہیں۔ ابن القفطی کے بیان کے مطابق سنان کی تصنیفات کو تین سلسلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا تاریخی سیاسی، دوسرا ریاضیاتی اور تیسرا فلکیاتی۔ ابن القفطی کی فہرست میں سنان کی کسی طبی تصنیف کا نام نہیں ملتا۔ پہلی قسم کی کتابوں میں ایک رسالہ وہ ہے جس میں سنان ابن ثابت خلیفہ المعتضد کے دربار کے طریق زندگی کے بارے میں معلومات پیش کرتا ہے۔ اس رسالے میں وہ دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ افلاطون کی کتاب ''ری پبلک‘‘ کے مطابق ایک فلاحی مملکت کا ڈھانچہ متعین کرکے دیتا ہے۔ السعودی اس کی اس پیشکش پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سنان کو چاہئے تھا کہ وہ خود کو اپنی قابلیت کے دائرے سے متعلق مضامین تک ہی محدود رکھتا۔ مثلاً اس کو اقلیدس کے علوم، المجسط، فلکیات، موسمیاتی، مظاہر، منطق، مابعد الطبیعیات اور سقراط، افلاطون اور ارسطو کے نظام فلسفہ تک محدود رہنا چاہئے تھا۔دوسرے سلسلے کی کتابوں میں چار ریاضیاتی رسالے ہیں۔ ان میں ایک ''عضد الدولہ‘‘ کے نام منسوب کی گئی ہے۔ عضد الدولہ کی درخواست پر ابوسہل القوہی نے اس کی اس تصنیف کی ایک تفسیر کی اصلاح کی ہے۔ ریاضیاتی سلسلے کی دوسری کتاب ارشمیدس کی ''on triangles‘‘سے متعلق ہے سا سلسلے کی تیسری کتاب افلاطون کی کتاب''on Elements of Geometry‘‘کی تصحیح و اضافے کے بعد لکھی گئی ہے۔ یہاں ایک حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ افلاطون کی یہ کتاب کہیں وہی تو نہیں جوآیا صوفیہ میں ''المفردات‘‘ کے نام سے پڑی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوپر بیان کئے گئے پہلے دو رسالے سنان کے نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں مخاطب کی گئی شخصیات دسویں صدی کے دوسرے نصف میں بامِ عروج کو پہنچیں جبکہ سنان دسویں صدی کے پہلے نصف ہی میں انتقال کر گیا تھا۔تیسرے سلسلے کی کتابوں میں سے ''کتاب الانواع‘‘ ( منسوب بہ المعتضد) کے مندرجات کے بارے میں صرف البیرونی کے اقتباسات کے ذریعے کچھ معلوم ہوا ہے۔ موخر الذکر کتاب کا حوالہ ابن القفطی نے اور ابن الندیم نے اپنی کتاب 'الفہرست‘ میں دیا ہے۔ محققین ان کی وجوہات پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ موسمیاتی خصوصیات ستاروں کے طلوع و غروب سے پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ دوسرے محققین اس کو گزرے ہوئے ایام کے موسم کے تقابل کے لحاظ سے لیتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

K-19کی روسی بحریہ میں شمولیت1961ء میں آج کے دن روسی نیوکلیئر آبدوز''K-19‘‘ کو بحریہ میں شامل کیا گیا۔ یہ سوویت آبدوزوں کی پہلی جنریشن تھی جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس تھی۔ یہ آبدوز امریکی آبدوزوں کے جواب میںبنائی گئی تھی۔ اس کی تیاری کے دوران 10 سویلین ورکرز اور ایک ملاح مختلف حادثات میں ہلاک ہوئے۔'' K-19‘‘ کے شروع ہونے کے بعد، آبدوز میں متعدد خرابیاں سامنے آئیں ،کئی مرتبہ تو آبدوز کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔امریکہ کا عالمی میلہ1939ء میں آج کے دن امریکہ میں عالمی میلے کا انعقاد کیا گیا ۔یہ اس وقت کا سب سے مہنگا امریکی میلہ تھا۔ اس میلے میں دنیا کے بہت سے ممالک نے شرکت کی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ صرف دو سیزنز میں اس میلے میں 44 ملین (4کروڑ40لاکھ )افراد نے شرکت کی۔اس نمائش کا مقصد لوگوں کو مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعارف کروانا تھا ۔ اس میں ''نئے دن کی صبح‘‘ اور '' کل کی دنیا‘‘ کے عنوان سے لوگوں کیلئے مختلف اشیاء کی نمائش کی گئی۔عالمی میلے کے شروع ہونے کے چار ماہ بعد عالمی جنگ شروع ہو گئی جس کی وجہ سے بہت سی نمائشیں متاثر ہوئیں۔ 1940ء میں میلے کے اختتام کے بعد، بہت سی نمائش گاہوں کو منہدم کر دیا گیا تھا۔یورپی یونین میں دس ممالک کی شمولیتیورپی یونین کی تاریخی توسیع کے دوران 30اپریل2004ء کو دس ممالک یورپی یونین میں شامل ہوئے۔ یہ ممالک کئی دہائیوں سے سوویت نظریات کی وجہ سے مغربی ممالک سے الگ ایک خطے کے طور پر موجود تھے۔ ان ممالک کی شمولیت کو یورپی یونین کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع اس لئے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان 10ممالک کی شمولیت سے یورپی یونین کی آبادی450ملین تک پہنچ گئی۔شامل ہونے والے ممالک میں قبرص ،مالٹا،چیک، ایسٹونیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ، سلواکیہ اور سلونیا شامل تھے۔''سٹالگ لوفٹ‘‘ سے قیدیوں کی آزادی''سٹالگ لوفٹ‘‘ قیدیوں کیلئے بنایا گیا جرمن کیمپ تھا۔یہ کیمپ بارتھ، ویسٹرن پومیرانیا، جرمنی میں گرفتار ہونے والے اتحادی فضائیہ کے اہلکاروں کیلئے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جیل کیمپ کی موجودگی نے بارتھ قصبے کو اتحادیوں کی بمباری سے بچا لیا تھا۔ تقریباً 9 ایئر مین7ہزار 588 امریکی اور ایک ہزار351 برطانوی اور کینیڈین قیدی وہاں موجود تھے۔ ان قیدیوں کو 30 اپریل 1945ء کی رات کو روسی افواج نے آزاد کروایا تھا۔ قیدیوں کو سوویت فوج کی پیش قدمی کے پیش نظر کیمپ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ زیم کے اور کمانڈنٹ کے درمیان گفت و شنید کے بعد، اس بات پر اتفاق ہوا کہ بیکار خونریزی سے بچنے کیلئے محافظ جنگجوؤں کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے لیکن ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور روسی افواج نے قیدیوں کو آزاد کروا لیا۔  

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے سیکھنے سکھانے کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔یونیسکو کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024)کے مطابق الگورتھم کے ذریعے چلائے جانے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلاتے اور خاص طور پر لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کرتے ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو تعلیم اور کریئر کے حوالے سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا مسئلہ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024 ) رپورٹ کے مطابق الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کیلئے غیرصحتمند طرزعمل یا غیر حقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح متواتر توجہ کے طالب تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔سائبرہراسگی اور ڈیپ فیکرپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع دینے والے لڑکیوں کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کمرہ ہائے جماعت میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ انہیں آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔اس جائزے کے نتائج سے تعلیم بشمول میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے گزشتہ نومبر میں ڈیجیٹل سماج کے انتظام سے متعلق یونیسکو کی رہنمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل سماجی رابطوں کو بہتر اور باضابطہ بنانے کی ضرورت بھی سامنے آتی ہے۔خواتین کی ترقی میں ڈیجیٹل رکاوٹ''گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ‘‘ (Global education monitoring report) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے منفی صنفی تصورات لڑکیوں کیلئے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان شعبوں پر زیادہ تر مردوں کا اجارہ ہے، جس کے باعث لڑکیاں ایسے ڈیجیٹل ذرائع کی تخلیق کے مواقع سے محروم رہتی ہیں جو ان دقیانوسی تصورات کے خاتمے میں مدد دے سکتے ہیں۔یونیسکو کے مطابق 10 برس سے دنیا بھر میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں گریجویٹ خواتین کی شرح 35 فیصد پر برقرار رہی۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ رائج صنفی تعصبات خواتین کو ان شعبہ جات میں کریئر بنانے سے روکتے ہیں اور اس طرح ٹیکنالوجی کے شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔دنیا بھر میں سائنس، انجینئرنگ اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے متعلق نوکریوں میں خواتین کا تناسب 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کو دیکھا جائے تو ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں ان کی تعداد 26 فیصد، انجینئرنگ میں 15 فیصد اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں 12 فیصد ہے۔ اسی طرح نئی ایجادات کے حقوق ملکیت کی درخواست دینے والوں میں خواتین کا تناسب صرف 17 فیصد ہے۔پالیسی سازی کی ضرورتاس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی میں مردوں کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کیلئے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میںآدھی کے قریب لڑکیوں اور خواتین کیلئے مددگار نہیں۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کیلئے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ لڑکیوں کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ معاشروں کی ڈیجیٹل تبدیلی میں خواتین کا مساوی کردار یقینی بنانے اور ٹیکنالوجی کی تیاری کیلئے ایسا کئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز2024ء‘‘ (Technology on her terms 2024ء‘‘ رپورٹ کے مطابق تعلیم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق ڈیزائن، رسائی، تدریس اور مہارتوں میں عدم مساوات کو دور کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر لڑکی ان مواقع سے مستفید ہو سکے جو اس طرح کی ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد کو ان طریقوں سے استعمال کیا جانا چاہیے جو واضح طور پر صنفی تفریق کو دور کریں۔رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کیلئے ڈیجیٹل ٹولز کی ملکیت اور انہیں استعمال کرنے اورٹیکنالوجی میں کریئر کو آگے بڑھانے کیلئے ایک معاون ماحول کو یقینی بنانا ایک ایسی ڈیجیٹل تبدیلی کا باعث بنے گا جو تعلیم اور اس سے آگے صنفی معیار کو فروغ دے گا اور اس میں اضافی رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔  

مزاحمتی بیانیہ اور اسحاق ڈار کی انٹری

مزاحمتی بیانیہ اور اسحاق ڈار کی انٹری

اسحاق ڈار کے نائب وزیر اعظم بنتے ہی ملک میں کئی طرح کی قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مخالفین جو حکومتی جماعت اور مقتدرہ کے درمیان کشیدگی کے خواب دیکھ رہے ہیں اس پیشرفت کی تعبیر یوں کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف دباؤ بڑھا کر با لآخر اپنے سمدھی کو نائب وزیر اعظم بنوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔

مفاہمتی عمل کوششیں کارگر ہو پائیں گی ؟

مفاہمتی عمل کوششیں کارگر ہو پائیں گی ؟

پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران بڑھ رہا ہے ۔ شہباز شریف کی نئی حکومت کے باوجود سیاسی اور معاشی مسائل میں کمی نہیں آئی بلکہ ان میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاقِ رائے کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور اس کے بقول اگر پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرسکتی ہے تو اس کو ہمارے ساتھ بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے۔

سندھ حکومت کے جاگنے کا انتظار!

سندھ حکومت کے جاگنے کا انتظار!

سندھ سرکار کہاں ہے، یہ وہ سوال ہے جو آج کل سب پوچھ رہے ہیں۔ جب پنجاب کی طرف نظر جاتی ہے تو خوشی کے ساتھ رشک بھی ہوتا ہے کہ پنجاب میں کسی کی بھی حکومت ہو عوام کے لیے کچھ نہ کچھ بہتری میں لگی رہتی ہے، لیکن سندھ میں تو ایک دو وزراء ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں، باقی سب ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ صوبے کی بہتری کے لیے دعا کر رہے ہوں۔

گرینڈڈائیلاگ کی ضرورت

گرینڈڈائیلاگ کی ضرورت

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور دہری پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وفاق سے صوبے کا حق لینے کی بات کرتے ہیں، جس کیلئے ہر وقت ،ہر جگہ اور ہر ایک کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں، جبکہ دوسری طرف اسلام آباد پر قبضے کی باتیں بھی کررہے ہیں ۔

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا
2023-09-16

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت
2023-09-02

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے
2023-08-16

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز