نئی علاقائی صورتحال میں عرب دوستوں کیلئے پاکستان ترجیح کیوں؟
سعودی وزیر خارجہ کے بعد ولی عہد ابوظہبی کا دورہ ملائشیا کانفرنس کے تناظر میں ہے عرب دوست کشمیر پر ایسا طرزعمل نہیں اپنائیں گے جس سے بھارت متاثر ہوتا ہو
تجزیہ:سلمان غنی ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان آج پاکستان کے دورہ پر آ رہے ہیں،وہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے ۔ جس میں باہمی دوستی کے معاملات ، خطہ کے حالات اور دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوگا۔ سعودی عرب کے نئے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کے بعد اب ابوظہبی کے ولی عہد کے دورہ پاکستان کو ملائشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے تناظر میں اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ۔ ابوظہبی کے ولی عہد کے دورہ کی اہمیت کیونکر ہے ۔ نئی علاقائی صورتحال میں عرب دوستوں کیلئے پاکستان کی اہمیت کیوں ہے ۔ سعودی عرب اور ابوظہبی کے ذمہ داران کی سفارتی سرگرمیاں امت مسلمہ کے اتحاد میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں اور مذکورہ دوروں کا پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا۔ نئی پیدا شدہ صورتحال میں پاکستان کے دوروں اور ترجیحات کا سوال ہے تو پاکستان نے اپنے عرب دوستوں کیلئے انہیں ناراض کیا ہے جو کشمیر کاز کیلئے بہت سے تحفظات اور خطرات برداشت کرنے کے باوجود ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اور دنیا کو یہ پیغام ملا تھا کہ یہ بات ہندوستان کیلئے خطرناک ہے ۔ یہ چاروں ممالک وہ تھے جو اسلامک فوبیا کے خلاف متحرک کردار ادا کرنے کو تیار تھے اور ان میں یہ تحریک خود وزیراعظم عمران خان نے پیدا کی تھی۔ عمران خان کی حکومت نے ملائشیا کانفرنس کے ایجنڈا تک کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن بعدازاں بوجوہ عدم شرکت سے نہ صرف کشمیر کاز کو نقصان پہنچا بلکہ وہ ممالک جو کشمیر کاز پر پاکستان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوئے انہیں بھی مایوسی ہوئی۔ہم نے امہ کی تقسیم میں حصہ دار نہ بننے کی بنیاد پر شرکت سے انکار کیا لیکن پھر بھی امت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور پاکستان کو خصوصاً کشمیر ایشو پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور اب ہمارے عرب دوستوں کے اندر یہ احساس ضرور پیدا ہوا ہے کہ پاکستان کو روکنے سے اس سبکی ہوئی ہے لہٰذا اس کے مداوا کیلئے پہلے سعودی عرب نے اور اب ابوظہبی نے پاکستان سے رجوع کیا ہے ۔ ہو سکتا ہے دوروں کے نتیجہ میں پاکستان کیلئے کوئی معاشی سہولت بھی ہو اور پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے کا عزم اور عندیہ بھی سامنے آئے ۔پاکستان اب نئی صورتحال میں ملائشیا کانفرنس میں عدم شرکت کے باعث ہونے والے اخلاقی و سیاسی نقصان کے مداوا کی کوشش ضرور کر رہا ہے ۔ سعودی وزیر خارجہ کی آمد کے بعد اعلان ہوا اپریل میں اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس ہوگا ،اب خارجہ ذرائع اس امر کی تردید کرتے نظر آرہے ہیں کہ یہ اجلاس اسلام آباد میں نہیں نائجر میں ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ اس میں کوئی ایک سیشن کشمیر پر بھی ہو ۔جہاں تک ابوظہبی اور سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی کا سوال ہے تو حالات کا رخ بتا رہا ہے یہ دونوں عرب دوست پاکستان کو کھونے اور اس سے سرد مہری کیلئے تیار نہیں لیکن دونوں کے طرز عمل سے ظاہر ہو رہا ہے وہ پاکستان کی معاشی ضروریات کے حوالے سے ممکنہ اقدامات کیلئے تیار ہیں مگر کشمیر کے حوالے سے ایسا طرز عمل نہیں اپنائیں گے جس سے بھارت متاثر ہوتا ہو یا ان کے بھارت سے تعلقات متاثر ہوں۔پاکستان کیلئے نئی پیدا شدہ صورتحال کئی حوالے سے لمحہ فکریہ ہے اگر ہماری معاشی مدد کرنے والے ترجیح ہیں تو پھر اپنے قومی اور علاقائی مفادات کو کیسے یقینی بنائیں گے ۔