وزیراعظم اور وزرا کی مخالفت، وفاقی کابینہ نے سولر صارفین پر اضافی ٹیکس کی منظوری روک دی

اسلام آباد(ذیشان یوسفزئی،نامہ نگار، مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم اور وفاقی وزراء نے سولر استعمال کرنے والے صارفین پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے وزیر توانائی کو نیٹ میٹرنگ پالیسی پر نظرثانی کے لیے ہدایت کردی۔ نئی سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی کی منظوری اقتصادی رابطہ کمیٹی نے دی تھی، جس کے تحت سولر صارفین سے بجلی 27 روپے کے بجائے دس روپے فی یونٹ خریدنی تھی جبکہ اس میں ٹیکس کی شقیں بھی شامل تھیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جہاں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 13 مارچ 2025 اور 21 مارچ 2025 کو ہوئے اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی توثیق کی گئی وہیں وفاقی کابینہ نے ای سی سی کی منظور شُدہ سولر نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز سے متعلق مشاورت کے دائرہ کار کو وسیع کرنے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مزید رائے لینے کے بعد سفارشات کو کابینہ کو دوبارہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔دریں اثنا وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سفارش پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا حجم بجلی صارفین کی قیمتوں کو کم کرنے کیلئے استعمال کرنے کی منظوری دے دی۔ذرائع پٹرولیم ڈویژن نے بتایا تھا کہ اس مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 سے 13 روپے فی لٹر کمی متوقع تھی لیکن حکومت نے اس کو منتقل نہیں کیا تھا اور اب وہ پیسے بجلی کے نرخوں میں ایڈجسٹ کرکے ریلیف دیا جائے گا۔وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سفارش پر سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے ) کو بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدوں کو نظرثانی شُدہ شرائط کے مطابق دستخط کرنے کی منظوری دے دی۔وفاقی کابینہ نے وزارت قانون و انصاف کی سفارش پر وسل بلوئر پروٹیکشن اینڈ وجیلینس کمیشن ایکٹ، 2025 کی اصولی منظوری دے دی۔
وفاقی کابینہ نے ریونیو ڈویژن کی سفارش پر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کی حدود میں انکم ٹیکس ، سروسز پر سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹیز میں مزید ترامیم کی منظوری دے دی ۔ یہ ترامیم ریسورس موبلائزیشن اور یوٹیلائزیشن ریفارم پروگرام کے حوالے سے پالیسی ایکشنز کے طور پر کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے کچھ ترامیم 2023 اور 2024 میں کی جا چکی ہیں۔وفاقی کابینہ نے ریونیو ڈویژن کی سفارش پر کل وقتی اساتذہ اور محققین کی آمدنی پر ٹیکس ریبیٹ کی بحالی کے حوالے سے انکم ٹیکس (سیکینڈ امنڈمینٹ) بل، 2025 کی منظوری دے دی- وفاقی کابینہ نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے 11 مارچ 2025 کے اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی توثیق کردی۔ وزیراعظم نے کابینہ کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ شب سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے ، انہوں نے کہا نائب وزیراعظم، وزیر خزانہ، دیگرمتعلقہ وزراء اورحکام کے شکرگزار ہیں جنہوں نے دن رات کام کیا، آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں آرمی چیف کا بھی کلیدی کردار رہا،دن رات کی محنت اور ایک ٹیم ورک کے نتیجے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ آئی ایم ایف معاہدے کے حوالے سے اغیارکے اوچھے ہتھکنڈوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ڈھنڈورے پیٹے تھے کہ منی بجٹ کے بغیر آئی ایم ایف آگے نہیں بڑھے گا، موجودہ حکومت نے ایک مشکل اور چیلنجنگ صورتحال جبکہ دو صوبوں میں دہشتگردی جاری اور مہنگائی عروج پرتھی ایک ٹیم ورک کے طور پر کام کیا اورحکومت کی انتھک کاوشوں کے باعث اتنا جلد یہ ہدف حاصل کرنا ممکن ہوا،دہشتگردی اور مہنگائی کے باوجود معاہدہ طے پانا حکومت کی سنجیدگی کا عکاس ہے ،پوری قوم نے اس ہدف کے حصول میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں،کامیابی سے معاہدے کے طے ہونے میں عام آدمی کا بھی انتہائی اہم کردار ہے ۔
انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام میں صوبوں کے کردار کو بھی سراہا اور کہا کہ زرعی ٹیکس کے بغیر آئی ایم ایف نے آگے نہیں بڑھنا تھا ، سب سے پہلے پنجاب نے قانون سازی کی اورپھر باقی تمام صوبوں نے بھی وفاق کا بھرپور ساتھ دیا۔وزیراعظم نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں 1.3ارب ڈالرکا آر ایس ایف بھی شامل ہے ۔ پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے کے حوالے سے یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ انہوں نے آئی ایم ایف کنٹری ڈائریکٹر اوران کی ٹیم کا بھی بھرپور تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے گزشتہ برس 9کھرب کا ہدف مقرر کیا تھا ، رواں سال 12.9 ٹریلین کا ہدف تھا، حکومت نے ایک سال میں اس حوالے سے جو کام کیا وہ لائق تحسین ہے ،آئی ایم ایف نے جو ریونیوہدف دیا تھا ہم نے اس میں اضافہ کیا اس حوالے سے تنخواہ دار طبقے کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، محصولات کی وصولی میں گزشتہ سال کی نسبت26فیصد اضافہ خوش آئند ہے ،ٹیکس کولیکشن ٹو جی ڈی پی 10.8 پر آگئی ہے جبکہ آئی ایم ایف نے 10.2 کاہدف مقرر کیا تھا، اسی طرح ٹیکس کولیکشن کا ہدف 10.9 کھرب روپے مقرر کیا تھا ، آئی ایم ایف نے پیش کش کی کہ وہ اس میں کمی کردیتے ہیں لیکن میں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں جس پر آئی ایم ایف حیران رہ گیا،ٹیم ور ک کے نتیجہ میں ہم اسے 10.3پر لے آئے ہیں ۔ ملک کو معاشی استحکام کی منزل سے ہمکنارکرنا ایک لمبی جدوجہد ہے ،انتھک محنت اور لگن سے کام کرتے رہے تو پاکستان ضرور ترقی کرے گا۔
وزیراعظم نے بتایا کہ عدالتوں میں ٹیکس مقدمات کی بہتر پیروی سے قومی خزانے میں 34 ارب روپے واپس آچکے ہیں،ٹریبیونلز سے لے کر سپریم کورٹ تک کھربوں کے مقدمات عدالتوں میں ہیں ، یہ 34ارب روپے ڈوب چکے تھے ، نئے میکنزم کے تحت اس کی ریکوری بہت بڑی کامیابی ہے اور اس میں وزیر قانون ، اٹارنی جنرل ، چیئرمین ایف بی آر اور گورنر سٹیٹ بینک کا بہت بڑا کردار ہے ،محصولات سے متعلق عدالتی مقدمات پر مکمل طور پر توجہ دے رہے ہیں ،وزارت قانون نے ٹیکس سے متعلق مقدمات میں اہم کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ ایف بی آرمیں ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے اقدامات تیزی سے جاری ہیں،فیس لیس انٹریکشن پربھی کام ہورہا ہے ،ٹریبونلز کے لئے کارپوریٹ لائرز، چارٹرڈ اکائوٹنٹس کسی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک سسٹم کے تحت منتخب کئے جارہے ہیں، ٹریبیونلز میں ا ن کی تعیناتی کے لئے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں شفاف نظام بنایا گیا ہے ۔وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے چینی کے سیکٹر کی نگرانی کا خود جائزہ لینے کا فیصلہ کیا،چینی کے سیلز ٹیکس کی چوری پر قابو پانے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں ،گزشتہ سال کی نسبت اس سال شوگر ملز سیکٹر سے اب تک 12 ارب روپے وصول ہوچکے ہیں،شوگر ملز سیکٹر سے 60 ارب روپے سے زائد محصولات کا ہدف ہے ۔
وزیراعظم نے کہا کہ سیمنٹ ، تمباکوسمیت ہر سیکٹرکو اب ٹیکس کے دائرہ کار میں شامل ہونا ہوگا،ٹیکس دینے سے ہی ملک چلتے ہیں ،قرضوں کا حصول خوشی کا مقام نہیں ، قرضے ختم کرکے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہوگا،پاکستان بہت جلد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ امن اور ترقی لازم وملزوم ہیں،دہشتگردی کے خاتمے اور امن کے قیام سے ہی ترقی کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے ۔ انہو ں نے دہشتگردی کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی سکیورٹی فورسز کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کی روک تھام کے لئے جو لازوال قربانیاں دی جارہی ہیں وہ کبھی فراموش نہیں کی جائیں گی۔وزیراعظم نے کہا کہ رمضان پیکیج کے حوالے سے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل والٹ کا اجرا کیا گیا، پیکیج کے تحت مستحق افراد تک شفاف طریقے سے ریلیف پہنچانا ہمارا مقصد ہے ،رمضان پیکیج کے تحت 20ارب روپے میں سے 60فیصد رقم تقسیم کی جاچکی ہے ، ماضی میں یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے جو امداد تقسیم کی گئی اس میں کرپشن ، ناقص اورغیرمعیاری اشیاء کی فراہمی اورعوام کوتکلیف کی شکایات تھیں اس لئے اس نظام کا خاتمہ کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل والٹ کے ماڈل کو دوسرے شعبوں میں بھی متعارف کرایا جائے گا۔
وزیراعظم نے صدر پاکستان کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو شاندار خدمات پر نشان پاکستان عطاکرنے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تاریخ میں جو زیادتی ہوئی اس کا ازالہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی خدمات کی اعتراف سے ان کی روح کو تسکین پہنچی ہوگی۔علاوہ ازیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں سینیٹر شبلی فراز اور وزیر توانائی اویس لغاری کے درمیان مکالمہ ہوا۔ شبلی فراز نے کہا آپ کے وزیر اعظم نے کہا کہ 8 روپے بجلی سستی کر رہے ۔ جس پر وفاقی وزیر توانائی نے جواب دیا نہ میں نے اور نہ ہی وزیر اعظم نے بجلی آٹھ روپے کم کرنے کی بات کی ہے ۔ آپ برعکس حقائق بات کر رہے وزیر اعظم کو مس کوٹ کر رہے ۔ اگر ہم نے سولر کی قیمتوں کو کم کرنے کی یہ کوشش نہ کی تو دس سال بعد بجلی قیمت مزید بڑھے گی اور دس سال بعد آپ مجھے مورد الزام ٹھہرائیں گے ۔ شبلی فراز نے کہا یہ آپ ہی کی لگائی ہوئی آگ ہے پہلے آپ نے کہا سولر لگوائیں اب کہہ رہے ہیں کہ اربوں روپے کا بوجھ پڑ گیا ۔کیا یہ نااہلی نہیں ہے ۔وفاقی حکومت کے مطابق سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد 2 لاکھ 83 ہزار ہے جس کی وجہ سے سال 2024 کے اختتام تک باقی صارفین پر 1.5روپے فی یونٹ بوجھ ڈالا گیا اور ان سولر صارفین کی وجہ سے سالانہ 159ارب روپے کا بوجھ بنا۔
پاور ڈویژن کے مطابق اگر اس پالسی میں تبدیلی نہیں لائی جاتی تو آنے والے دس سالوں میں یعنی سال 2034 تک چار ہزار 240 ارب کا بوجھ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی وجہ سے نیشنل گرڈ پر پڑے گا جس کی وجہ سے فی یونٹ 3.18 روپے فی یونٹ بوجھ پڑے گا۔ نئی پالیسی کے مطابق نئے سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کو سیلف کنسم پشن کی سہولت کے ساتھ بجلی کی خریداری کی سہولت تو ہوگی مگر یونٹس کا تبادلہ یا ایک دوسرے کے ساتھ نیٹ آف کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔ روزنامہ دنیا کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سال 2024 کے اختتام تک ملک میں کل سولر نیٹ میٹرنگ کے صارفین کی تعداد 283000تک پہنچ گئی ہے جوکہ اکتوبر 2024میں 226440 تھی ۔ صرف چار ماہ کے دوران مہینوں میں 800 میگاواٹ کے مزید سولر نیٹ میٹر لگ گئے ہیں۔ اکتوبر 2024کے اعداد وشمار کے مطابق ان سولر نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے کل 102ارب روپے کا اضافی بوجھ دوسرے عام بجلی صارفین پر منتقل ہو رہا تھا جو کہ دسمبر 2024میں بڑھ کر 159ارب روپے ہوگیا ہے ۔ اگر گزشتہ سالوں میں دیکھا جائے تو 2021 میں کل 321میگاواٹ کے نیٹ میٹرنگ کے صارفین تھے جو کہ اکتوبر 2024 میں بڑھ کر 3299 میگاواٹ ہو گئے جبکہ دسمبر 2024 تک یہ مزید بڑھ کر 4124میگاواٹ ہو گئے ہیں۔