ہائیکورٹ بینچ قائم مقام چیف جسٹس کے ماتحت نہیں:جسٹس اعجاز
اسلام آباد(رضوان قاضی،مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی عدالت سے زیر سماعت کیس دوسرے بینچ منتقل کرنے پر توہینِ عدالت ازخود کیس میں ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اور دیگر کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔
عدالت عالیہ نے عدالتی معاون کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر معاونت طلب کرلی،عدالت نے ڈپٹی رجسٹرار کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر رولز میں چیف جسٹس کے درخواست پر اعتراض وجوہات کے ساتھ دور کیے بغیر آرڈر کا اختیار بتائیں اور متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار بھی رولز میں دکھائیں،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے تحریری حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کا بینچ قائم مقام چیف جسٹس کی عدالت کے ماتحت عدالت نہیں، رجسٹرار آفس نے اسی وجہ سے یہ درخواست اعتراض کے ساتھ چیف جسٹس کے سامنے مقرر کی۔قائم مقام چیف جسٹس کے 17 مارچ کے آرڈر کے پہلے پیرا کے مطابق درخواست گزار نے ٹرانسفر کی اپنی استدعا پریس نہیں کی،آرڈر کے دوسرے پیرا سے ایسا لگتا ہے کہ درخواستیں یکجا کر کے ٹرانسفر کا ریلیف دیدیا گیا ظاہری بات ہے کہ کیس ٹرانسفر کیے بغیر یکجا نہیں کیے جا سکتے تھے ۔
عدالت نے تحریری حکمنامے میں کہا کہ قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے سی پی سی کی سیکشن 24 کی درخواست دائر کی گئی، ایڈووکیٹ جنرل نے ہچکچاہٹ کے ساتھ لیکن اعتراف کر لیا کہ سیکشن 24 کی درخواست بنتی ہی نہیں تھی، سماعت کے تحریری حکمنامے میں لکھا ہے کہ لارجر بینچ بنانے کے آرڈر میں دکھائی نہیں دے رہا کہ اعتراض دور کرنے کی وجوہات لکھی گئی ہوں، اعتراض دور کرنے کی وجوہات تحریر نہ کرنا بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے خلاف ہے ،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے لکھا کہ شفافیت کے لیے درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق اعتراضات دور کرنے کی وجوہات تحریر کی جاتی ہیں، آفس کے اعتراضات کو زیر غور لاکر جج کو انہیں دور کرنے کی وجوہات تحریر کرنی چاہئیں،عدالت سے زیرسماعت کیس واپس لینے کی فی الحال کوئی قانونی نظیر پیش نہیں کی جاسکی،حکمنامے میں لکھا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل نے لاہورہائیکورٹ رولزکی بینچز کی تشکیل سے متعلق شق بتائی لیکن وہ غیرمتعلقہ ہے۔
وکلاء عدالت کی معاونت کریں اور عوام بھی اس کیس پر نظر رکھیں، یہ کیس ایک سیاسی جماعت کے لیڈر سے متعلق نہیں بلکہ ہر کیس پر اپلائی ہونے والے اصول کا ہے یہ کیس چیف جسٹس کے کسی بھی جج سے انتظامی اختیار استعمال کرتے ہوئے کیس ٹرانسفر کرنے کے اختیار سے متعلق ہے ، عدالت نے کہا آئندہ تاریخ پر عدالتی معاونین مقرر کیے جائیں گے ، ڈپٹی رجسٹرار آئندہ سماعت پر رولز میں چیف جسٹس کے درخواست پر اعتراض وجوہات کے ساتھ دور کیے بغیر آرڈر کا اختیار بتائیں اور متعلقہ جج کی رضامندی کے بغیر توہینِ عدالت کیس واپس لینے کا اختیار بھی رولز میں دکھائیں،توہینِ عدالت کیس میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ جس جج کے آرڈر کی توہین ہو اس سے اچھا جج کوئی نہیں کر سکتا، آئندہ سماعت 11 اپریل کو ہو گی۔