عدلیہ نے اپنی حدود میں کام نہ کیا تو قانون سازی کریںگے,مشاہد اللہ تیل کی قیمتوں میں اضافے پر اپوزیشن کا احتجاج

عدلیہ نے  اپنی حدود میں کام نہ کیا تو قانون سازی کریںگے,مشاہد اللہ تیل کی قیمتوں میں اضافے پر اپوزیشن کا احتجاج

احتساب صرف سیاسی لوگوں کیلئے رہ گیا ، ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا نے والے جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوا؟وزیر موسمیاتی تبدیلی پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس 15فیصد کیا جائے ، نوید قمر و دیگر،آئندہ ماہ قیمت کم کر دینگے ، رانا افضل کی قومی اسمبلی میں یقین دہانی

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

اسلام آباد(نمائندہ دنیا )مسلم لیگ (ن)کے سیکرٹری اطلاعات اوروفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ نے کہا کہ اگر عدلیہ نے اپنے فیصلوں پر نظرثانی اور اپنی حدود میں کام نہ کیا تو قانون سازی کریں گے ۔ عدلیہ اپنا کام کرے اور انتظامیہ اپنا کام کرے اگر یہ اپنا اپنا کام نہیں کریں گے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے اور ایکشن پارلیمنٹ کو لینا پڑے گالوگوں کو اپنی حدود و قیود میں رہنا پڑے گا،اگر ہمارا کام اپنے ہاتھوں میں لیں گے تو اس پر قانون سازی کرنا پڑیگی ، احتساب صرف سیاسی لوگوں کیلئے رہ گیا ہے ؟ جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوا جنہوں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی، حکومت کے لئے پہلے دن سے ہی مختلف حیلے بہانوں سے مسائل کھڑے کئے گئے اور حکومت کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی دھرنے دیئے گئے اور کبھی کینیڈا سے لوگوں کو بلوایا گیا یہ ساری صورتحال قوم کے سامنے ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں احتساب کا دور ہے اور احتساب ہونا بھی چاہیے لیکن کیا تمام احتساب اور تعزیریں اس پارلیمان کے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں قائداعظم،لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح کا احتساب ہوا لیکن کسی نے جنرل غلام محمد خان کا احتساب نہیں کیا۔ ملک کے آئین کو توڑنے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس ملک میں جسٹس کیانی اور جسٹس کارنیلس جیسے ججز تھے تو جسٹس منیر بھی عدلیہ میں شامل رہے ہیں۔ میرا سوال اس پارلیمان سے یہ ہے کہ گورننس کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے یا کسی اور کے پاس ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی عدالتیں بھی گورننس کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں اور حکم امتناعی دیئے جارہے ہیں۔ پی آئی اے میں حکم امتناعی کے 400 احکامات موجود ہیں۔ سزا جرم کے مطابق ملنی چاہیے تاہم اس ملک نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ کروڑوں ووٹ لینے والے وزیراعظم کو اس بات پر سزا دی گئی کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ پاناما پیپرز میں 456 افراد کے نام موجود ہیں تاہم ان میں سے کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ کارروائی ہوئی بھی تو اس شخص کے خلاف ہوئی جس کا نام اس میں شامل نہیں تھا تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے ۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ججز کے ضابطہ اخلاق میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ کسی اختلافی امور میں نہیں پڑیں گے جب جج صاحبان اپنا کام نہیں کرتے تو اختلافی امور سامنے آجاتے ہیں۔ فیصلے بولتے ہیں فیصلے ایسے ہونے چاہئیں جنہیں عوام تسلیم کر یں پاکستان کے عوام نواز شریف کے حوالے سے فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے ۔ یہ کیسے فیصلے ہیں کہ ایک شخص پہلے کہتا ہے کہ اب ایسا ہوگا اور ایسا ہی ہو جاتا ہے ۔ ان فیصلوں کے بارے میں لوگ عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کو تمام اداروں کی ماں کہتے ہیں کہ آئین سپریم ہے لیکن یہ آئین بھی پارلیمان بناتی ہے ۔ یہاں پارلیمان کی کوئی عزت نہیں اور ان کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ نواز شریف کو ہٹا کر پورے ملک کا نقصان کیا گیا ہے ۔ ایک ایسی ٹرین کو روکا گیا ہے جس میں تمام مسافر اطمینان سے بیٹھے تھے اور انہیں یقین تھا کہ وہ منزل کی طرف جارہے ہیں۔ آپ نواز شریف کو نہیں روک سکتے ۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے جانے کے بعد بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس ملک کو چلانا ہے تو پارلیمان عدلیہ اور ایگزیکٹو کو اپنا اپنا کام کرنا ہوگا۔ انتہائی ادب سے جج صاحبان سے کہتا ہوں کہ آپ اپنا کام کریں اور پارلیمان اور حکومت کو اپنا کام کرنے دیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر قانون سازی کی گنجائش موجود رہتی ہے ۔ نکتہ اعتراض پر پی پی پی کے نواب یوسف تالپور نے کہا کہ پورے سندھ کے لئے صرف 9 ہزار کیوسک پانی جارہا ہے اس میں سے چار ہزار کیوسک فلڈ کینال میں جارہا ہے ۔ سندھ کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے ۔ وزیر امور کشمیر ابھی بات کر ہی رہے تھے کہ جماعت اسلامی کے شیر اکبر نے کورم کی نشاندہی کر دی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے باعث غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں