احتساب عدالت کا بڑا فیصلہ نکتہ آغاز ہے یا نکتہ اختتام؟
ن لیگ کے سیاسی مستقبل ، مثبت انتخابی نتائج کا انحصار نواز شریف کی واپسی پر
تجزیہ:سلمان غنی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی اس کے ساتھ نواز شریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ کا جرمانہ بھی کیا گیا جبکہ ایون فیلڈ فلیٹس کو بھی ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کرپشن کے حوالے سے اتنے بڑے اور سخت فیصلے کی اس سے پہلے نظیر نظر نہیں آتی جو ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کا نظام عدل کرپشن ، لوٹ مار، بد عنوانیوں ، بے ضابطگیوں کے سد باب کے حوالے سے یکسو اور سنجیدہ ہے جبکہ اس فیصلہ پر مسلم لیگ ن نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے سیاہ فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ سراسر زیادتی اور نا انصافی پر مبنی ہے جس میں کوئی ٹھوس شواہد مہیا نہیں کیے گئے ۔ اس رد عمل کا اظہار مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کیا جو یقیناً ان کی پوری جماعت کے رد عمل کا عکاس ہے ۔ انہوں نے بار بار اس امر پر زور دیا کہ پاناما ایون فیلڈ اور آف شور کمپنیوں میں نواز شریف کا نام کہیں موجود نہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلہ پر مسلم لیگ ن کا رد عمل کس امر کا عکاس ہے اور احتساب کا یہ سلسلہ جس میں سابق حکمران شریف خاندان ٹارگٹ ہوا ہے کیا یہ سلسلہ آگے چل سکے گا اور اس کے ملکی سیاست اور آنے والے انتخابات پر کیا اثرات ہوں گے یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو احتساب عدالت کے اس فیصلہ کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ایک بات تو قطعی ہے کہ احتساب عدالت میں شریف خاندان نے اپنا مقدمہ قانونی بنیاد پر لڑنے کے بجائے سیاسی انداز میں لڑا اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ جو کچھ ہو رہا ہے محض ایک ایجنڈا کی بنیاد پر ہے اور انہیں ٹارگٹ کرنے کا عمل ملکی سیاست سے ان کے کردار کو ختم کرنا ہے ۔ اس فیصلے کے آنے کے بعد ملک میں جاری بھونچال کی کیفیت نے نیا موڑ لیا ہے ۔ اب یہ فیصلہ الزامات سے آگے بڑھ کر نواز شریف کے سیاسی مخالفین کی انتخابات میں مدد کرے گا۔ اس فیصلہ کے بعد ن لیگ کے حمایتیوں اور انتخابی امیدواروں کو ایک بدلتی ہوئی صورت حال کا سامنا ہو گا اور نواز شریف مخالفت اور عوام میں کرپشن کے خلاف بیزاری اب یقیناً بیلٹ پیپر کے ذریعے سامنے آئے گی مگر نواز شریف کے خلاف جس طرح تیز رفتار انصاف کا سلسلہ شروع کیا گیا اس سے ملک میں نظام انصاف دہائیوں تک دفاعی پوزیشن پر کھڑا رہے گا۔ عدالتی فیصلے اس بات کی تائید ہیں کہ نواز شریف کی کتابِ سیاست میں سب کچھ درست نہیں مگر اس سارے عمل میں کئی حوالوں سے احساس ہوا ہے کہ اداروں میں نواز مخالف عناصر کھل کر ان کی نا اہلی سے لیکر سزا تک سرگرم عمل رہے ۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ عدالت نے فیصلہ دے دیا اب عوام نے سیاست کے میدان میں اس فیصلہ کو پرکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر تاریخ بھی اس فیصلہ کے حوالے سے اپنا فیصلہ ضرور محفوظ کرے گی۔ جہاں تک ن لیگ اور شہباز شریف کے رد عمل کا سوال ہے تو وہ جذباتی بھی تھا اور سیاسی بھی۔ نواز شریف ان کے بڑے بھائی اور سیاسی میراث کے مالک ہیں اور اب شہباز شریف ان کی مرضی سے ان کی سیاسی جانشینی سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سیاست کرنی ہے تو اب انہیں نواز شریف والا اسلوب، لب و لہجہ اور انداز سیاست اختیار کرنا پڑے گا کیونکہ سکہ رائج الوقت سیاست اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی سیاست ہے اور اس میں شہباز شریف کی ذات الزامات کی آلودگی سے پاک ہے لہٰذا اگر اقتدار کی منزل ہاتھ نہیں بھی آتی تو شہباز شریف کے ہاتھ سے اقدار کی سیاست کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے ۔ شہباز شریف اگر استقامت سے ان انتخابات سے گزر گئے اور پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر بہت جلد ن لیگ سیاسی عدم استحکام میں آگے چل کر دوبارہ اقتدار پا سکتی ہے ۔ مگر اقتدار کیلئے ابھی سے شہباز شریف سب کچھ فراموش کر کے آگے بڑھ گئے تو پھر پارٹی کے اندر نواز شریف کے حمایتی حلقے یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرینگے اور عوام بھی اب شہباز شریف سے نواز شریف اور مریم نواز کے طرزِ عمل کی توقع رکھیں گے ۔ اگر نواز شریف ملک میں واپس نہیں آتے یا زیادہ تاخیر سے آئے تو پھر شہباز شریف کو ٹکراؤ کے بجائے راستہ بنانے اور سیاست کے میدان میں پارٹی کو زندہ رکھنے کیلئے کوئی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اس سے نواز شریف کی سیاست، مریم نواز کا سیاسی کردار اور جانشینی سمیت بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ سب سے بڑھ کر شریف خاندان کے سیاسی کردار پر کمپرومائز ہو جائیگا۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ کرپشن الزامات میں نواز شریف کو سزا اس سلسلے میں نقطہ آغاز ہے یا محض ایک شخص کو راستے سے ہٹانا مقصود تھا۔ اس سوال کا جواب ہر گزرتے دن کے ساتھ سامنے آتا جائے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں میں با اثر سیاسی گھرانوں کے لوگ شامل ہیں، ہمیشہ یہ خاندان اقتدار کو دولت بڑھانے اور ذاتی اثر و رسوخ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا نام پاناما انکشافات میں سامنے آیا تھا۔ مگر 184/3 کے تحت اعلیٰ عدلیہ نے صرف نواز شریف کا کیس سنا بلکہ ماتحت عدالت میں نگرانی بھی کی اور نواز شریف سزا بھی پا گئے ۔ ہمارے قومی منظر نامے پر سندھ میں بر سر اقتدار سیاسی خاندان پر ہمیشہ کرپشن کے الزامات لگے ۔ ڈاکٹر عاصم پر اربوں روپے کی کرپشن ، عزیر بلوچ کی کہانی، سندھ میں شوگر ملوں پر قبضوں کی داستانیں، زمینوں پر اشرافیہ کے قبضے آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں۔ کیا اب عدلیہ اداروں کو اس جانب بھی مصروف عمل کرے گی؟ وگرنہ یہ صرف ایک شخص کو اقتدار سے نکالنے کا کھیل سمجھا جائے گا اور پھر تاریخ انصاف کے اس جھکے ہوئے ترازو کے بارے میں ایسا فیصلہ دے گی جسے ہماری نسلیں معاف نہیں کر سکیں گی۔