لاک ڈاؤن میں نرمی بڑا رسک، گیندعوام کے کورٹ میں
ہم خطرناک زون سے باہر نہیں نکلے ،اموات بڑھ رہی،حکومت بوجھ عوا م پرڈالنا چاہتی ہے آزمائش میں ثابت قدم قومیں ہی کامیاب ہوتی ہیں،عیدپرٹرانسپورٹ کھولنا بھی خطرناک
(تجزیہ:سلمان غنی) حکومت نے کورونا کے خطرات اور خدشات کے باوجود بڑے فیصلوں کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت 9 مئی سے لاک ڈاؤن میں نرمی برتتے ہوئے مرحلہ وار مارکیٹیں اور دکانیں کھلیں گی، فیصلے صوبوں کی مرضی سے کئے گئے ہیں اب عوام کو ذمہ داری لینا ہوگی اور حکومتی ہدایات پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے اتفاق نہیں ہوا۔ میرے خیال میں یہ کھلنی چاہئے کیونکہ عام آدمی یہ سہولت استعمال کرتا ہے ۔ اسد عمر صوبوں سے اس حوالے سے مشاورت کریں گے ۔ حکومت کی جانب سے ایک مشکل صورتحال میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلہ کو اہم قرار دیا جا سکتا ہے ، حکومت سمجھتی ہے کہ لوگوں کی معاشی صورتحال کو لاک ڈاؤن کی نظر نہیں کیا جا سکتا ، کاروباری وتجارتی سرگرمیو ں کی مشروط اجازت کا کس طرح استعمال ہو گا یہ عوام کی ذمہ داری ہے ۔ شرح اموات میں اضافہ کے باوجود بڑا رسک لیا اور گیند عوام کی کورٹ میں ڈال دی ہے ۔ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا کہ وہ رعایتیں دے جو عام آدمی کا زندگی کے ساتھ رشتہ جوڑے رکھنے کیلئے ضروری ہے اور انہیں رعایتی عمل کے ساتھ اگر کورونا سے بچاؤ کیلئے ضروری حفاظتی تدابیر ممکن بنا دی جائیں تو اس سے نہ صرف معاشی و سماجی زندگی کا پہیہ چل پڑے گا بلکہ کورونا وائرس کے آگے بند باندھا جا سکے گا۔ ہماری معاشی صورتحال اتنی مستحکم نہیں کہ ہم چیلنجز کا احسن انداز میں مقابلہ کر سکیں ، حکومت کو دیکھنا پڑتا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے اور کس کے ہونے سے عوام کو سہولت ملے گی اور کس کے نہ ہونے سے عوام میں رد عمل بڑھے گا ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے جن شرائط کے ساتھ اجازت دی ہے کیا ان پر عملدرآمد ہو پائے گا۔ مغرب میں بڑی جانی و مالی تباہی کے باوجود عوام نے حکومتی ہدایات پر مکمل عملدرآمد کیا ۔ ابھی فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وائرس اپنا زور توڑ گیا یا ہم خطرناک زون سے باہر آ گئے ،اموات بڑھ رہی ہیں اورمتاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اگر نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش ہوئی تو انتہائی سخت ڈیڈ لاک کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ لہٰذا یہ وقت ایک منظم اور با شعور قوم بننے کا ہے ، جو قومیں آزمائش کی صورت میں حوصلہ دکھاتی ہیں وہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں وہی زندگی کی دوڑ میں آگے جاتی ہیں، لہٰذا کورونا کا بحران دراصل اب قوم کیلئے بڑا امتحان ہے ۔ عید الفطر کی آمد پر بین الاضلاعی روٹس پر پبلک ٹرانسپورٹ اور ریلوے سروس شروع کرنے کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ، یہ ایک بہت بڑا رسک ہوگا کیونکہ لاکھوں افراد کی آمد و رفت کا عمل کورونا میں بڑے پھیلاؤ کا باعث بھی بن سکتا ہے لہٰذا مناسب یہی ہوگا کہ جہاں اتنی قربانی دی گئی اور اس وبا سے اپنے پیاروں کو بچانے کیلئے مالی نقصان برداشت کیا گیا تو اب عید الفطر کے موقع پر اگر اپنے آبائی گھروں میں آنے کی بجائے جہاں ہیں کی بنیاد پر عید منا لی جائے توخطرات اور خدشات کا سدباب ہو سکے گا ۔ تعلیمی اداروں کی بندش میں پندرہ جولائی تک اضافہ کا معاملہ بھی اتنا سادہ معاملہ نہیں، اس پر یونیورسٹیز، کالجز اور سکولز کے ذمہ داران کی آرا لینی ضروری ہے ، بورڈز اور یونیورسٹی کے مالی معاملات میں ہونے والی کمی کا ازالہ کیسے ہوگا۔ البتہ بڑے فیصلوں اور شرائط پر عملدرآمد کی ذمہ داری عوام پر ڈالنے کے اعلان سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت اب اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتی ہے ۔ ہمارے معاشی حالات کی وجہ سے یا مشروط لاک ڈاؤن طویل مدت تک عوام اور حکومت دونوں کیلئے ناقابل برداشت ہے ، نہ لوگوں کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ گھر بیٹھ کر کھا پی اور جی سکیں اور نہ حکومت کی معاشی حیثیت ایسی ہے کہ وہ متاثرین اور عوام کی مہینوں مدد کر سکے اور ایسے میں ناگزیر تھا کہ درمیانی راہ نکالی جاتی، لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ مخصوص شعبوں تک کھولنا تو درست ہے مگر جس اصول و شرائط پر یہ فیصلے کئے گئے ہیں ان پر عملدرآمد نہ ہوا تو اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے ۔ عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ پابندیاں نرم کرنے کا اقدام وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنتا ہے اور انہوں نے ترقی پذیر ممالک کو خبردار کیا ہے ۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلہ میں احتیاط کرنا ہوگی لہٰذا حکومت نرمی کا فیصلہ کر چکی ہے اور یہ نرمی بہت بڑا رسک بھی ہے اور اس رسک سے نمٹنا سب کی ذمہ داری ہے ۔