اقلیتی بل کی منظوری قرآن و سنت کے منافی ہے ، علماء کرام

اقلیتی بل کی منظوری قرآن و سنت کے منافی ہے ، علماء کرام

حکمراں مذہبی معاملات میں ٹانگ اَڑانے کے بجائے عوامی مسائل پر توجہ دیں، مفتی تقی عثمانی بِل آئین سے بھی متصادم، ہرگز قبول نہیں ، قاری عثمان، مفتی علیم قادری، صوفی حسین لاکھانی

کراچی (رپورٹ:عبدالجبار ناصر) مختلف علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کے حوالے سے کرمنل لاء پروٹیکشن آف منارٹی بل 2015 کی منظوری پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بل کی منظوری قرآن و سنت کے منافی ہے ، اسلام قبول کرنے پر پابندی کا یہ قانون شریعت اسلامیہ اور عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون اسکے تمام مضمرات پر غور کئے بغیر محض غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لئے نافذ کیا گیا ہے ۔ بل کی منظوری اسلامی تعلیمات اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور روح کے منافی ہے ، حکمراں مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑانے کے بجائے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ یہ بل اسلام کی ترویج و اشاعت روکنے کے مترادف ہے ، اسلامی نظریاتی کونسل اس کا نوٹس لے ۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب صدر شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے میڈیا کے مختلف نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں عام مسلمانوں ، دینی اور سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس شرمناک قانون کو منسوخ کرانے کے لئے اپنا دینی فریضہ ادا کریں ۔ بل منظور ی سے کسی غیر مسلم کے اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے اسلام لانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیدیا گیا ہے ۔ اسلام لانے پر پابندی کا یہ قانون شریعت اسلامیہ اور عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے ۔ یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی رو سے کسی کوزبردستی مسلمان بنانا ہرگز جائز نہیں اور اس پر پابندی حق بجانب ہے ، لیکن دوسری طرف برضا ورغبت اسلام لانے پر پابندی لگا کرکسی کو دوسرے مذہب پر باقی رہنے کے لئے مجبورکرنا بد ترین زبر دستی ہے ، جس کا نہ شریعت میں کوئی جواز ہے ، نہ عدل وانصاف کی رْو سے اسکی کوئی گنجائش ہے ۔ اسلام کی رْو سے اگرکوئی سمجھدار بچہ جو دین ومذہب کو سمجھتا ہو، اسلام لے آئے تو اسکے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرنے کا حکم ہے ۔ نیز اسلامی شریعت کی رْو سے بچہ پندرہ سال کی عمر میں ، بلکہ بعض اوقات اْس سے پہلے بھی بالغ ہو سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں جبکہ وہ بالغ ہو کر شرعی احکام کا مکلف ہو چکا ہے ، اسے اسلام قبول کرنے سے تین سال تک روکنا سراسر ظلم اور زیادتی ہے ۔اس قسم کی زبر دستی کا قانون غالباً کسی سیکولر ملک میں بھی موجود نہیں ہو گا ، چہ جائیکہ ایک اسلامی جمہوریہ میں اسکو روا رکھا جائے ۔ اٹھارہ سال کے بعد اسلام قبول کرنے کیلئے اکیس دن کی مہلت دینا بھی نا قابل فہم ہے ۔ کیا اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس مدت میں اسکے اہل خاندان اسے دھمکا کر اسلام لانے سے روکنے میں کامیاب ہو سکیں ؟ پھر سوال یہ ہے کہ اگر دو میاں بیوی قانون کے مطابق اسلام لے آئیں تو کیا اس قانون کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ انکے بچے اٹھارہ سال کی عمر تک غیر مسلم ہی تصور کئے جائینگے ، کیونکہ انہیں اس عمر سے پہلے اسلام لانے کی اجازت نہیں ہے ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون اس کے تمام مضمرات پر غور کئے بغیر محض غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لئے نافذ کیا گیا ہے ۔ وفاقی شریعت عدالت سے بھی مطالبہ ہے کہ اْسے ازخود نوٹس لیکر کسی قانون کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کا جو اختیار حاصل ہے ، اس قانون کے بارے میں اپنے اس اختیار کو استعمال کر کے اسے غیر مؤثر قرار دے ۔ جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب امیر قاری محمد عثمان نے مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے سندھ اسمبلی کے بل کو خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتی بل کی منظوری اسلامی تعلیمات اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور روح کے منافی ہے ، حکمران مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑانے کے بجائے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں اور یہ بتائیں کہ خلیفہ چہارم دامادِ رسول اللہ ؐ اور فاتح خیبر سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کس عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ؟ اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ بچوں میں اسلام لانے والے سب سے کم سن نہیں تھے ؟ دین کی دعوت دینے سے کوئی ہمیں نہیں روک سکتا اور کوئی بھی ایسا قانون جو ہماری دینی تعلیمات اور شریعت محمدی سے متصادم ہو ہم اسے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور اس کے خلاف بھر پور احتجاج کریں گے ۔ جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی نائب صدر پیر طریقت مفتی محمد عبدالعلیم قادری نے کہا کہ اقلیتی قانون اسلام سے بیزاری کا ثبوت ہے ، قانون کو کارنامہ قراردینے والے بتائیں آخراسلام سے وہ بیزارکیوں ہیں؟ اگر ان کو پاکستان میں اقلیتوں کا لفظ برالگتاہے تو وہ اُس ملک میں چلے جائیں جہاں غیر مسلم اکثریت میں ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اسلامی نظریاتی مملکت خداداد پاکستان میں ایسانہیں کرنے دیاجائے گا۔ جماعت اہلسنّت پاکستان کراچی کے ناظم صوفی حسین لاکھانی نے کہا کہ سندھ کے حکمراں شریعت سے متصادم قانون بنا کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں ، سندھ حکومت کو بل کے حوالے سے علماء سے مشاورت کر کے اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل اسلام کی ترویج و اشاعت روکنے کے مترادف ہے ۔ کوئی بھی غیر مسلم اپنی مرضی سے جب اور جس عمر میں چاہے اسلام قبول کر سکتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں