ڈی این اے رپورٹ ماہرکی رائے ہوسکتی بنیادی ثبوت نہیں:ہائیکورٹ
لاہور (کورٹ رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ نے فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت ماننے سے انکار کر دیا۔عدالت نے 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے مقدمے میں عمر قید پانے والے ملزم کو چھ سال بعد بری کردیا۔
ملزم محمد عارف کی عمر قید اور 14 برس قید کی سزا کالعدم قرار دے دی۔ جسٹس طارق ندیم نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ بنیادی ثبوت نہیں ہوسکتا، دیگر شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے لنک کرنا کافی نہیں۔ موجودہ دور میں کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے ۔ عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ ڈی این اے سیمپل محفوظ طریقے سے فرانزک کیلئے بھجوائے گئے ۔ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو ماہر کی رائے کے طور لیا جاسکتا ہے ۔ کیس کے شواہد کے جائزے سے پتہ لگا کہ پراسیکیوشن کا کیس شکوک وشبہات سے بھرا پڑا ہے ۔ ملزم پر الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں لیکن صرف اس گراؤنڈ پر سزا نہیں دی جاسکتی۔ ملزم عارف پر 2019 میں زیادتی اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ پراسیکیوشن کے مطابق ملزم نے 19 سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کیا۔ ملزم نے لڑکی کی لاش کھیتوں میں پھینک دی۔ کوئی بھی گواہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا۔ پراسیکیوشن کے مطابق دو گواہوں نے بیان دیا کہ لڑکی کو ملزم کے ہمراہ کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا۔ عدالت نے تحریر کیا کہ ایسے گواہوں کو قانون کی نظر میں انتہائی کمزور گواہ جانا جاتا ہے ۔ میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے ۔ عدالت ملزم کی سزا کالعدم قرار دے کر رہا کرنے کا حکم دیتی ہے ۔ ملزم محمد عارف جیل میں ہے اسے فوری رہا کیا جائے ۔