پاکستان میں کورونا بارے ملکی و غیر ملکی رپورٹس خطرے کی گھنٹی
حکومت اور اداروں کے ہاتھ پاؤں پھولے نظر آ رہے ہیں، متاثرین کی تعداد بھی بڑھ رہی آدھا تیتر آدھا بٹیر والی صورتحال چلنے والی نہیں ،وزیر اعظم کو کوئی ایک فیصلہ کرنا پڑیگا
(تجزیہ: سلمان غنی) کورونا بارے شائع ہونے والی ملکی و غیر ملکی رپورٹس میں پاکستان پر کورونا کے اثرات کے حوالے سے ایک بات مسلسل کہی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کورونا کے متاثرین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے لہذا ملکی وغیر ملکی رپورٹس خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں ۔ اس حوالے سے آنے والی رپورٹس میں اہم عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس 115 اضلاع تک پھیل چکا ہے اور اس کا سب سے زیادہ پھیلاؤ پنجاب اور سندھ میں ہے اور اگر پاکستان میں کورونا کے اثرات سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات نہ ہوئے تو پاکستان میں متاثرین کی تعداد جولائی میں دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں حکومت اور اداروں کے ہاتھ پاؤں پھولے نظر آ رہے ہیں اور ان تمام تر خطرات اور خدشات کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہوئے ممکنہ حد تک اپنا کردار ادا کیا جا رہا ہے اور ان خطرات اور خدشات کے پیش نظر اب اس حوالہ سے بھی غور شروع ہے کہ کسی بھی ملک میں کورونا کے خطرے کے پیش نظر لاک ڈاؤن کا جبر مسلط کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں اور بڑا سوال یہ سامنے آ رہا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کس طرح سرگرم عمل ہے اس کے پھیلاؤ کا طریقہ کیا ہے ۔ پاکستان میں بھی یہ سلسلہ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور کورونا وائرس کے حوالہ سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے ساتھ متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے مگر کسی کو یہ معلوم نہیں کہ یہ وائرس کہاں سے حرکت کر رہا ہے ۔ ایک ہی گھر میں کچھ لوگ متاثر ہیں تو اکثرنہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ وائرس سب پر اکٹھا کیونکر حملہ آور نہیں ہوتا۔ منطقی طور پر کسی بھی وائرس کے پہلے شکار تو ایسے ہونے چاہئیں جو وائرس شدہ مریض کے قریب تر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ملکوں میں بھی کورونا کا کوئی مریض سامنے آتا ہے تو یہ نہیں پتہ چلتا کہ وہ کیسے اور کس کے ذریعہ متاثر ہوا۔ اس حوالہ سے ابھی تک کوئی مفید بات سامنے نہیں آ سکی لہٰذا اس پر خود عالمی ادارہ صحت اور دنیا بھر کے ماہرین کو کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک پاکستان میں آنے والے دنوں اور حالات میں کورونا کی خطرناک اور تشویشناک صورتحال کا سوال ہے تو ابھی تک خود حکومت اور بعض اداروں اور ذمہ داران کی جانب سے سامنے آنے والے خطرات اور خدشات ثابت نہیں ہوتے ۔ اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اسے خدا تعالیٰ کا کوئی خصوصی کرم و فضل ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ابھی تک نہ تو متاثرین کی تعداد حکومتی اعدادوشمار کے مطابق بارہ ہزار سے اوپر آئی اور نہ ہی شرح اموات دیگر ملکوں کی طرح ہے ۔ یہاں اب تک کورونا کے باعث ہونے والی اموات تقریباً اڑھائی سو کے لگ بھگ ہیں۔ لاک ڈاؤن پوری طرح قابل عمل نہیں رہا مگر کسی حد تک تو رہا۔ جہاں تک آنے والے دنوں میں صورتحال کے خطرناک ترین ہونے کا سوال ہے تو پھر اسی ٹیمپو کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور لاک ڈاؤن کے حوالہ سے کنفیوژن بھی ختم کرنا ہوگی کیونکہ اس حوالہ سے آدھا تیتر آدھا بٹیر والی صورتحال چلنے والی نہیں خصوصاً وزیراعظم عمران خان جو ایک طرف کورونا کے سنگین نتائج کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں اور لاک ڈاؤن کو ضروری قرار دیتے ہیں مگر اسی دوران وہ اس حوالہ سے کورونا کے متاثرین سے زیادہ لاک ڈاؤن کے متاثرین کی پریشانی ،ان کے روزگار اور بھوک کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے صورتحال کنفیوژ نظر آتی ہے اور یہ کنفیوژن براہ راست لاک ڈاؤن پر اثرانداز بھی ہوتی ہے ،سڑکوں پر ٹریفک جو چند روز قبل تک نہ ہونے کے برابر تھی آج ٹریفک کا بہاؤ بحال ہونا شروع ہو چکا ہے ۔ بین الاضلاعی روٹوں پر پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تو باقی ساری ٹرانسپورٹ رواں دواں ہے اور سب سے اہم بات لاک ڈاؤن اب سمارٹ لاک ڈاؤن تک آ گیا ۔ مساجد میں نماز و تراویح کی مشروط اجازت مل چکی ہے لیکن ڈاکٹرز ابھی بھی چیختے چلاتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ سلسلہ اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی لچک درست نہیں۔ خدانخواستہ یہ سلسلہ کسی ایک علاقہ کسی ایک محلے کسی ایک مسجد کسی ایک مارکیٹ سے شروع ہو گیا تو پھر یہ رکنے والا نہیں لہٰذا تمام تر خدشات،خطرات اور تشویشناک صورتحال کے دعوؤں میں اگر صداقت ہے تو پھر حکومت کو یکسوئی اور سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی۔ کسی بڑے واقعہ سانحہ یا پھیلاؤ کا انتظار کئے بغیر اپنے اقدامات متاثر بنانا ہوں گے ۔ یہ نہ ہو کہ خدا کے فضل و کرم سے ہم آج تک جو کورونا کے بڑے پھیلاؤ سے بچے ہوئے ہیں اور شرح اموات کم ہے ۔ ہماری کسی کمزوری، بے احتیاطی میں وہ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے اور وہ خطرات اور خدشات پورے ہونے لگیں جو ظاہر کئے گئے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو نہ ہمارے ہسپتال، نہ ہی ڈاکٹرز اس کے آگے بند باندھ سکیں گے اور بقول ایک ڈاکٹر رہنما کے کورونا نے زور پکڑا تو کیا ہم متاثرین کا علاج سڑکوں پر کریں گے ۔