اپوزیشن کی قومی کانفرنس وزیراعظم بلاتے تو بہتر ہوتا (تجزیہ:سلمان غنی)
سندھ نے مریضوں کا پتہ چلنے پر شور مچایا،پنجاب انتظامیہ چین سے بانسری بجاتی رہی وزیراعظم اب تک اپوزیشن سے قومی ایشوز پر رابطے میں مکمل طور پر ناکام ہیں
تجزیہ:سلمان غنی کورونا وائرس کے سدباب اور اس سے پیداشدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی جانب سے قومی مشاورتی عمل کیلئے رابطوں اور سیاسی قیادت کی جانب سے ویڈیو کانفرنس پر اتفاق رائے ظاہر کر رہا ہے کہ سیاسی قوتیں سمجھتی ہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں کورونا جیسی موذی وبا سے نمٹنے کیلئے قومی لائحہ عمل کا تعین کیا جائے اور وائرس سے پیدا شدہ حالات سے نمٹنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن سمیت قومی ادارے اور تمام موثر طبقات اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ ہر حوالے سے موثر اور نتیجہ خیز ہو اور پاکستانیوں کی قیمتی جانوں کو اس وبا اور بلا سے بچا لیا جائے ۔ لہٰذا اس حوالے سے دیکھنا پڑے گا کہ یہ ذمہ داری منتخب حکومت نے کیوں ادا نہیں کی؟ سیاسی قوتیں اس صورتحال میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟ وزیراعظم عمران خان نے جن 25% عوام کی مشکلات کا ذکر کیا’ انہیں ریلیف کیلئے اپوزیشن کچھ کر سکے گی؟ کیا شہباز شریف کے ڈینگی کے تجربے سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟۔ اپوزیشن کی قومی کانفرنس وزیراعظم بلاتے تو بہتر ہوتا۔کورونا وائرس کے حوالے سے منتخب وفقی حکومت نے ہر گزرتے دن کے ساتھ نہایت غفلت کا مظاہرہ کیا۔ سندھ سے جونہی کورونا کے متاثرہ مریضوں کا پتہ چلنا شروع ہوا سندھ حکومت اسی وقت انتہائی موثر انداز میں ان مریضوں کی تلاش میں سرگرداں ہوئی اور وفاق کے سامنے اپنی چیخ و پکار بھی کرتی رہی۔ دوسری جانب ملک کی بڑی آبادی والا صوبہ پنجاب اور اس کی انتظامیہ چین سے بانسری بجاتی رہی۔ حالانکہ شہری تو پنجاب کے بھی ایران زیارات کیلئے گئے ہوئے تھے مگر ان کی تلاش کے بارے میں صوبائی حکومت خواب غفلت میں رہی۔ میرا خدشہ ہے کہ سندھ میں مریضوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تعداد پنجاب کے کیسز کی ہوگی۔ مگر یا تو یہ انڈر رپورٹنگ ہیں یا پھرپنجاب کی انتظامیہ ابھی بھی انہیں تلاش کرنے میں ناکام ہے ۔ وفاق کے ہر لمحہ تعاون کی حامل پنجاب حکومت نے جو معاملہ زائرین کے ساتھ ڈیرہ غازیخان کے قرنطینہ سنٹر میں کیا وہ عملاً تفتان بارڈر والی صورتحال تھی جس میں مریضوں اور مشتبہ لوگوں کو اجتماعی طور پر بڑے بڑے ہالوں میں رکھا گیا اور پھر اس کے بعد جو ہونا تھا وہ پوری قوم کے سامنے ہے اور یوں لوگ اپنے سائے سے بھی گھبرا اٹھے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے معاملے کو لے کر بھی جو کنفیوژن وفاق نے دکھائی وہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ وزیراعظم نے کل لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہ سنایا اور آج ان کے منظور نظر وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پنجاب کو 14دنوں کیلئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر ڈالا۔ سندھ اس معاملے میں کافی سنجیدہ تھا اور بلاول و مرادعلی شاہ جمعہ سے ٹویٹر پر لاک ڈاؤن کیلئے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھا رہے تھے ۔ یہ تمام صورتحال بتا رہی ہے کہ حکومت کا اکیلے اس وبا سے نمٹنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے ۔ اس کیلئے صرف حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے قوم کے تمام ان طبقات کو سامنے آنا ہوگا جو تھوڑا سا بھی درد دل اپنے سینے میں رکھتے ہیں۔ جس طبقے کو جو توفیق میسر ہے آگے بڑھے اور حکومت وقت کا بازو بن کر خدمت خلق میں جت جائے ۔ یہ وقت صرف کام ’کام اور کام کا ہے اگر ہم بحیثیت قوم حکومت اپوزیشن اور سیاسی پسند و ناپسند میں بٹے رہے تو بہت تیزی سے کورونا وائرس کی بے رحمی کا شکار ہو جائیں گے ۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز پہلے تو بظاہر غیر فعال نظر آ رہی تھی اور اس کورونا وائرس کی وبا میں تو خاصی اس کی کمی محسوس کی گئی۔ مگر جونہی اپوزیشن لیڈر وطن واپس آئے ہیں تو اس جماعت کے ٹھہرے پانیوں میں کچھ ہلچل دکھائی دے رہی ہے ۔ شہباز شریف چونکہ ایسے حالات میں خاصے ایکٹو ہوتے ہیں تو انہوں نے مشترکہ اپوزیشن کا پلیٹ فارم مضبوط کرتے ہوئے بلاول بھٹو اور فضل الرحمن’ اختر مینگل سمیت بڑے بڑے رہنماؤں سے کسی وسیع تر قومی حکمت عملی کیلئے مشاورت شروع کی ہے ۔ بلاول چونکہ پہلے ہی فعال تھے اور بڑی خوبصورتی سے حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ بلاول نے بھی اپوزیشن لیڈر کی واپسی کا خیرمقدم اور ان سے رابطہ کیا۔ تو دکھائی یہی پڑ رہا ہے کہ کورونا کے مسئلے میں غفلت میں ڈوبی حکومت کو جگانے کیلئے مشترکہ پلیٹ فارم سے مثبت کوششوں کی راہ ہموار ہو رہی ہے ۔شہباز شریف کے آئیڈیا پر ہنگامی طور پر اپوزیشن جماعتوں سمیت دیگر قومی جماعتوں کی مشترکہ قومی کانفرنس کل ہو رہی ہے ۔ اس میں لامحالہ طور پر حکومت کے متبادل ایک ہنگامی پلان ہوگا کہ کس طرح اس خوفناک وبا سے نمٹا جانا چاہئے ۔ لازمی ہے کہ اس میں حکومت کے اب تک کے اقدامات کا جائزہ اور تنقید بھی ہوگی۔ بہتر ہوتا کہ ان حالات میں وزیراعظم خود ایسی کسی قومی کانفرنس کا اعلان کرتے ۔ وزیراعظم اب تک اپوزیشن سے قومی ایشوز پر رابطے میں مکمل طور پر ناکام ہیں یا تو وہ ملنا نہیں چاہتے یا پھر اپوزیشن کی تنقید کو سہنے کا حوصلہ ان میں نہیں۔ ملک میں کافی دنوں سے ایک بحث بھی چل نکلی تھی کہ شہباز شریف کا ڈینگی کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک شاندار تجربہ ہے تو کیوں نہ اپوزیشن لیڈر واپس آئیں اور اپنا کردار حکومت کو پیش کریں۔ اب شہباز شریف ملک میں موجود اور فعال ہو چکے ہیں تو بہتر ہوگا کہ حکومت وسیع القلبی کا مظاہرہ کرے اور شہباز کو عوامی مفاد میں کوئی ہنگامی کردار ادا کرنے کو کہے ۔ اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے شہباز شریف پر بھی فرض ہے کہ وہ کچھ بھی کردار ادا کر سکتے ہوں تو آگے بڑھیں اور عوام کی خدمت کریں۔ سیاست اور محاذآرائی تو بعد میں بھی ہو سکتی ہے ۔