چیف جسٹس کا ازخودنوٹس حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار

چیف جسٹس کا ازخودنوٹس حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار

نوٹس ظاہر کرتا ہے عدالت عظمیٰ کو شدید تشویش ، ٹیسٹ سہولتوں کا بھی فقدان متاثرین کے آنے والے گراف ظاہر کر رہے ہیں کہ سامنے سیلاب نظر آ رہا ہے

(تجزیہ:سلمان غنی) چیف جسٹس آف پاکستان جٍسٹس گلزار احمد کی جانب سے کورونا وائرس اور اس سے نمٹنے کیلئے کئے جانے والے حکومتی اقدامات پرازخود نوٹس اب تک اس ضمن میں حکومتوں کی جانب سے کورونا کی تباہ کاریوں، اس کے نتیجہ میں متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ اور اسے روکنے کیلئے ہونے والے اقدامات پر عدم اطمینان کو ظاہر کر رہا ہے اور اس نوٹس کے ذریعہ وائرس اور اس کے نتائج کے حوالے سے سنجیدگی بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اگر اس پرقابو نہ پایا گیا ،اس کے آگے بند نہ باندھا گیا، اس کے اثرات سے نہ بچا گیا تو یہ ہمارے لئے تباہی کا باعث ہوگا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کورونا کے حوالے سے ازخود نوٹس ظاہر کرتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو اس حوالے سے شدید تشویش ہے ، جنوبی کوریا میں ایک دن میں دس سے بارہ ہزار تک ٹیسٹ ریکارڈ ہوئے جبکہ اس وبا کے پھیلنے کے بعد سے اب تک پاکستان میں ٹیسٹ سہولتوں کے فقدان کے باعث یہ سہولت بہت کم بروئے کار لائی گئی اور یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا کہ ٹیسٹ میں تیزی کے عمل سے اور تشویشناک صورتحال سامنے آئے گی اور ابھی تک ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد تک نہیں پہنچا جا سکا جو اس سے متاثر ہیں لہٰذا جوں جوں وقت گزر رہا ہے متاثرین کورونا کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔ اب متاثرین کے آنے والے گراف ظاہر کر رہے ہیں کہ سامنے ایک سیلاب نظر آ رہا ہے اور اس سے کس نے نمٹنا ہے ؟ کیسے نمٹنا ہے ؟ اس بارے جوابدہ تو یقیناً حکومت ہے اور حکومت بھی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کیلئے بھی بڑے چیلنجز ہیں۔ جہاں تک کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات کا تعلق ہے تو پہلے پہل تو ہسپتالوں میں بندوبست نہ ہونے کے برابر تھا اور ڈاکٹرز کے پاس کٹس اور حفاظتی لباس اور ماسک تک نہ تھے مگر اس حوالے سے ہونے والی چیخ و پکار پر حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے نظر آئے اور حکومت نے اس حوالے سے اپنی غفلت پر پردہ ڈالتے ہوئے روایتی طرزعمل اختیار کیا اور ماضی کی حکومتوں کو کوسنا شرع کر دیا ۔ لاک ڈاؤن کا عمل جس کا مقصد ہی کورونا کے پھیلاؤ کے آگے بند باندھنا تھا تاکہ لوگ اپنے گھروں میں بند رہیں اور سماجی میل جول نہ ہونے کے باعث یہ وبا کھل کر نہ پھیل سکے لیکن عملاً دیکھنے میں یہ آیا کہ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے حوالے سے حکمت عملی بھی موثر نہ تھی۔ اعلانات ہوتے رہے مگر اقدامات نہ ہونے کے باعث سڑکوں پر آمدروفت بھی رہی اور پھر آہستہ آہستہ کاروبار زندگی بھی چلتا نظر آیا اور ایسا محسوس ہوتا رہا کہ جیسے لوگ حکومتی رٹ کو تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں ہیں اور از خود فیصلے کر رہے ہیں۔ اب بھی اگر وزیراعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ کورونا جیسی وبا سے نمٹنا ہے اس کی جڑیں کاٹنی ہیں تو پھر اپنی ترجیح اس حوالے سے اقدامات پر رکھیں۔ اگر وہ کورونا وائرس کے عمل کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نت نئے پیکجز اور فنڈز ریزنگ کی سرگرمیوں میں مصروف رہیں گے تو پھر اس صورتحال کو حکومت کی مجرمانہ غفلت سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔ انہیں اب تک یہ بتانا ہوگا کہ متاثرین کورونا سے کیسے نمٹا گیا۔ اس وائرس سے بچنے کیلئے اقدامات کیا ہوئے اور متاثرین کو ہسپتالوں میں لے جا کر انہیں کیا سہولتیں فراہم کی گئیں۔ متاثرین کے ٹیسٹ کی رفتار ابھی تک کیونکر تیز نہ ہو سکی اور وہ کون سی وجوہات ہیں کہ حکومتی اقدامات بھی بڑھ رہے ہیں اور متاثرین کورونا کی تعداد بھی۔ اس کامطلب صاف ظاہر ہے کہ کہیں نہ کہیں’ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے ۔ حکومت کی زیادہ توجہ اپنی تشہیر پر ہے یا کورونا کے سدباب کیلئے اقدامات پر اور اگر حکومتی اقدامات خصوصاً اب تک کی کارکردگی کی بنا پر آنے والے چند روز کے حوالے سے خطرات اور خدشات کا اندازہ لگایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان اقدامات کی روشنی میں اگر کورونا وائرس کا بھرپور حملہ شروع ہوا اور ہمارے علاقے اور قصبات اس کا ٹارگٹ ہیں تو پھر ہاتھ کھڑے کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا لہٰذا یہی وجہ ہے کہ جو کام خود حکومت کے کرنے کا تھا اور جس سنجیدگی سے حکومت کو اس سارے معاملہ کو لینا چاہئے تھا’لیا ہوتا تو عدالت عظمیٰ کو از خود نوٹس نہ لینا پڑتا کیونکہ عدالت عظمیٰ کے پاس حکومتی رپورٹس بھی ہیں اور خود حکومتی ذمہ داران کی بریفنگز بھی۔ اگر وہ اس سے مطمئن ہوتے تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں