کفایت شعاری کادعویٰ ،اپنی تنخواہوں میں اضافہ ،بڑا تضاد

کفایت شعاری کادعویٰ ،اپنی تنخواہوں میں اضافہ ،بڑا تضاد

(تجزیہ:سلمان غنی) ارکان اسمبلی کے بعد وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سے دوسو فیصد تک اضافہ کے عمل نے ملک بھر میں کروڑوں مہنگائی زدہ مسائل زدہ عوام میں غصہ کی لہر دوڑا دی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

جن کیلئے کسی بھی سطح پر کہیں سے بھی کوئی ریلیف ممکن نہیں ہوپارہااور خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب وزیر خزانہ اورنگ زیب یہ وضاحت دیتے نظر آئے کہ آنے والے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کسی بھی سطح پر اضافہ کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ایسے میں وزرا کی تنخواہوں میں بڑے اضافے کا اعلان جلتی پر تیل کا کام کر گیا اور عوام اور ملازمین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایک طرف حکومت کی جانب سے کفایت شعاری کے دعوے ہیں اور دوسری طرف ارکان اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں بڑا اضافہ کیا گیایہ بہت بڑا تضاد نہیں اور کیا ملکی معیشت اور خصوصاً قومی خزانہ اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ منتخب ارکان اور وزرا کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی سو گنا اضافہ کر دیا جائے جبکہ کروڑوں مسائل زدہ اور لاکھوں مہنگائی زدہ سرکاری ملازمین کے لئے ریلیف ممکن نہیں ہورہا،اگر معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے تو عام آدمی کو اس کا فائدہ کیونکر نہیں مل پا رہا ،پارلیمنٹرینز اور اشرافیہ کا ہی ثمرات پر حق کیوں ہے ؟کیا وزیراعظم شہباز شریف کو معلوم نہیں کہ سرکاری ملازمین اور عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں اور اگر حکومت واقعتاً خود کو منتخب اور عوامی سمجھتی ہے تو پھر اسے پارلیمنٹرینز اور وزرا کی طرح سرکاری ملازمین اور ان کی تنخواہوں پنشن میں اضافہ اور عوام کے لئے ریلیف کا بندوبست کرنا ہوگا اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں عوام کے اندر یہ احساس پختہ ہوگا کہ موجودہ حکومت اس کے ذمہ داران اور خصوصاً سیاسی اشرافیہ کو نہ تو عوام کی دگرگوں حالات کا احساس ہے اور نہ ہی ان کی نظر ان میں پیدا شدہ ردعمل پر ہے ۔

جہاں تک مہنگائی کے رجحان کا تعلق ہے تو یہ طوفان اس سے پہلے ایسے نہیں دیکھا گیا حکومت کے تمام تر دعوؤں اور بیانات کے باوجود رمضان المبارک میں اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں آگ لگی نظر آئی اور منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے حسب روایت دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹا ،پٹرولیم مصنوعات بجلی گیس کی قیمتیں بھی عوام کی دسترس میں نہیں اور اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ایک عام شخص اور دیہاڑی دار کے لئے اپنے گھر کا چولہا جلا رکھنا اور دو وقت کی روٹی دال کا سلسلہ چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جبکہ بچوں کے لئے تعلیم صحت اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کا عمل تو مجروح بن کر رہ گیا ہے اور بڑا سوال یہی کھڑا نظر آتا ہے کہ اگر ملک میں جمہوریت جمہوری عمل اور جمہوری حکومتیں ہیں تو پھر اس جمہوریت کے ثمرات اشرافیہ تک محدود کیوں ہیں ، اس کے ثمرات سے عوام کیونکر مستفید ہوتے نظر نہیں آ رہے ۔ اپوزیشن جس کے حوالہ سے تاریخ میں یہ کردار متفق تھا کہ وہ حکومتی پالیسیوں کی ناقد بننے کے ساتھ عوام کی آواز بنتی ہے اس نے بھی خود کو عام آدمی کے مسائل سے یکسر الگ رکھتے ہوئے اپنی سیاست کو اپنے سیاسی مفادات اور خصوصاً اپنے اقتدار کے حصول کے لئے اقدامات تک محدود کر رکھا ہے ۔

دوسری جانب حکومت عوام کے لئے ریلیف کی بجائے مراعات یافتہ طبقہ کو خوش کر رہی ہے جس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ عوام کے اندر غصہ اور ردعمل ہے البتہ حالات نے انہیں یہاں لاکھڑا کیا ہے کہ ان میں ردعمل کی سکت بھی موجود نہیں اور یہی ملک کے اندر مایوسی اور بے حسی کی بڑی وجہ ہے ۔سیاسی سوچ اپروچ کے حامل سیاسی کارکن اور ماہرین موجودہ صورتحال کے تدارک کے لئے اشرافیہ کی قربانی کو ناگزیر سمجھتے ہیں اور یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ حکومت اپنی آمدن سے زیادہ اخراجات کی زیادہ دیر متحمل نہیں ہو سکتی موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے حکمرانوں کو پلاٹوں کی تقسیم بڑی گاڑیوں میں گھومنے کے عمل اور مراعات کی بندر بانٹ کے سلسلہ کو ترک کرنا ہوگا اور اپنے اخراجات کو آمدنی کے مطابق لانا پڑے گا۔حکومت کو ارکان اسمبلی کے بعد وزرا کی تنخواہوں مراعات میں بے دریغ اضافہ کے عمل پر نظرثانی کرتے ہوئے مہنگائی زدہ عوام اور مسائل زدہ سرکاری ملازمین کے لئے ریلیف دیناچاہئے ،تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا جانا چاہئے تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ۔جمہوری معاشروں میں حکمران سیاستدان مل کر عوام کی حالت زار پر غور و خوض کے بعد ان کی زندگیوں میں اطمینان لانے کا سوچتے نظر آتے ہیں اور اس بنا پر حکومتوں اور عوام کے درمیان ایک اعتماد کا رشتہ نظر آتا ہے اور یہی عمل ان کی جمہوریت کی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے لیکن پاکستان کی جمہوریت کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ یہاں عوام کے نام پر برسراقتدار آنے والے مسند اقتدار پر پہنچنے کے بعد پیچھے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور اپنے اقتدار کو قومی اور عوامی مفادات کے تابع بروئے کار لانے کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ میں سرگرم نظر آتے ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں